Inquilab Logo Happiest Places to Work

شال فروش

Updated: May 03, 2025, 1:38 PM IST | Masroor Jahan | Mumbai

اُردو کی مشہور خاتون افسانہ نگار کے قلم سے ایک خوبصورت کہانی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج پھر بُوا غائب تھیں اور مجھے صبح سے کام کرتے کرتے یہ وقت آگیا تھا۔ مارے تھکن کے میرا بُرا حال تھا۔ ساتھ ہی بُوا پر غصہ بھی آرہا تھا جو ہر چوتھے پانچویں روز بِلا کہے سُنے ناغہ کر دیتی تھیں اور سارا کام مجھے کرنا پڑتا تھا۔
 ابھی بچّے اسکول سے نہیں آئے تھے۔ کام ختم کرکے میں نے سوچا کہ ذرا دیر آرام کر لوں ورنہ پھر جو کام کا سلسلہ شروع ہوگا تو رات دس گیارہ بجے تک ختم نہ ہوگا۔ اچانک کال بیل گنگنا اٹھی۔ پتہ نہیں بے وقت کون آگیا تھا؟ مجبوراً مَیں نے باہری دروازے کا رُخ کیا۔ بے دلی سے دروازہ کھولا۔ سامنے ایک مسکراتا ہوا اجنبی چہرہ نظر آیا۔
 ’’السلام علیکم آپا جان! شال چاہئے؟ سب کشمیری شال ہے۔ بہوت اچّا اچّا ۔‘‘
 ’’نہیں بھئی مجھے نہیں چاہئے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’او آپا جان! ام اِتّی دور سے آیا اور آپ امارا دِل توڑ دیا۔ اچّا  مت لینا۔ دیکھ تو لو سہی۔‘‘
 اس کے پیچھے ایک خوبصورت اور کم عمر لڑکا بڑے بڑے دو گٹھر اپنی پشت پر اٹھائے کھڑا تھا جسے اس نے دو چوڑی مضبوط رسیوں کے سہارے لاد رکھا تھا اور ایک چوڑی موٹی پٹی ماتھے سے پشت تک چلی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ اس بھاری بوجھ کو اُٹھا کر آسانی سے چل سکتا تھا۔
 ’’کہا تو بھائی، اس وقت نہیں دیکھ سکتی۔ پھر کسی وقت آنا۔‘‘ ’’آپا جان! امارا خاطر سے دیکھ لو۔ پھر کہنا کشمیری بھیّا سچ بولا یا جھوٹ بولا۔‘‘
 اِتنا اصرار.... وہ بھی اتنی میٹھی اور پیاری زبان میں.... مَیں نرم پڑ گئی۔ بیٹھک کا دروازہ کھول کر دونوں کو اندر بلا لیا۔ لڑکے نے گٹھر نیچے اتارے اور کشمیری بھائی گٹھر کھول کر شالیں ایک ایک کرکے اس پر پھیلانے لگا۔ مَیں نے ایک سفید شال کے دام پوچھے۔
 ’’ساڑھے چار سو۔‘‘ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’یہ تو بہت ہیں۔‘‘ مَیں نے دھیمی آواز میں احتجاج کیا۔ ’’یہ تو ام کہتا۔ اب آپ بولو آپا جان۔ اس کا کتنا دے گا؟‘‘
 ’’اس کے تو دو سو بھی بہت ہیں۔‘‘
 میری بات سن کر وہ ہنسنے لگا۔ پھر شال ہاتھ میں اٹھا کر کہنے لگا: ’’اچّا ! آپ ایک بات بولو۔ آپ کو پسند ہے یہ شال؟ اچّا ۔ آپ اس کا دو سو پچہاتر.... روپیہ دیدو۔ اب کچھ نہ کہنا۔ اپنا کشمیری بھیّا کی بات مان لو۔ تم کو بہوت سستا دیدیا۔‘‘
 پھر اور شالیں دِکھانے لگا۔ مَیں نے ایک انگوری رنگ کی شال پسند کی۔ بڑی بحث و تکرار کے بعد اس کی قیمت بھی طے ہوئی اور مَیں نے پیسے دے دیئے۔ وہ اپنے نوجوان ساتھی کی مدد سے شالیں تہہ کرکے جمانے لگا۔ ساتھ ہی وہ اپنے متعلق بتاتا بھی جا رہا تھا۔
 ’’امارا نام علی محمد بٹ ہے۔ یہ امارا بھتیجا ہے۔ اس کو یوسف بولتا۔ یہ اُدر پڑھتا ہے۔ اب اس کا بارہواں کلاس ہے۔ ام کو ایک بی بی ہے۔ دو لڑکی ہے۔ دونوں کا شادی ہوگیا۔ بڑا لڑکی کالج میں ٹیچر ہے۔ امارا داماد پیرن سپل (پرنسل) ہے۔ چھوٹا بیٹی نئیں پڑھ کر دیا۔ داماد بھی نئیں پڑھا۔ وہ یہی شال وال کا کام کرتا ہے۔ دونوں بیٹی کو بچہ بھی ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
 اچانک جیسے اسے کچھ یاد آیا تو کہنے لگا:
 ’’اچّا  آپا جان.... یہ تو بولو صاحب کہاں ہے؟ کیا کام کرتا ہے اور بچّہ لوگ کہاں ہے؟‘‘
 ’’بچّے تو اسکول پڑھنے گئے ہیں اور صاحب آج کل باہر ہیں۔ ان کا بزنس ہے۔‘‘ مَیں نے مختصراً کہا۔
 ’’اگلی بار آئے گا تو اپنا صاب کے لئے گون لائے گا۔ اور بچّہ کے واسطے کڑھا ہوا کُرتا۔ امارا مال آنے والا ہے۔‘‘ اور پھر وہ سلام کرکے چلا گیا۔
 وعدے کے مطابق وہ ایک ہفتے کے بعد ہی آگیا۔ کسی بچّے نے دروازہ کھولا تو وہ بے تکلفی سے بولا، ’’اپنا امّی کو بولو کشمیری بھیّا آیا ہے۔‘‘ مجھے اطلاع ہوئی تو مَیں سارا کام کاج چھوڑ کر آگئی۔
 ’’السلام علیکم آپا جان!‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
 ’’وعلیکم السلام۔‘‘ مَیں نے بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا اور اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
 ’’ام کہا کہ آج اتوار ہے۔ بچّہ سب گھر پر ہوگا۔ چھٹی کا دن ہے نا؟ ام بھی مل لے گا۔‘‘
 مَیں نے تینوں بچّوں کو بلایا۔ دونوں لڑکیوں اور لڑکے کا اس سے تعارف کرایا۔ علی محمد بٹ ساری باتیں سُن کر ایسے خوش ہوتا رہا جیسے کوئی اپنا بچھڑا ہوا عزیز برسوں کے بعد آکر ملا ہو۔
 پھر اس نے کئی شالیں دکھائیں۔ صبا نے چنار کے پتّوں کی ڈیزائن کی شال پسند کی اور رباب نے بادام کے شگوفوں کی۔ صاحب کے لئے گرم گاؤن اور راحیل کے لئے کڑھا ہوا ریشم کا کُرتا لیا۔ اور پھر علی محمد بٹ بڑی دیر تک بیٹھا باتیں کرتا رہا۔
 ’’آپا جان۔ امارا صلا (صلاح) مانو تو بچّہ لوگ کو خوب سا پڑھا دینا۔ آج کل کا زمانہ میں پڑھنا لکھنا ٹھیک ہوتا۔‘‘
 ’’ہاں بھیّا۔ یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
 صبا چائے بنا کر لے آئی۔ ساتھ میں ناشتے کا سامان بھی تھا۔ مَیں نے چائے بنا کر اس کی طرف بڑھا دی۔ ’’ام ابھی.... اُدر پی کے آیا ہے۔‘‘
 ’’اب تمہاری بیٹی بنا کر لائی ہے تو پینا پڑے گی۔‘‘ مَیں نے اصرار کیا۔
 بچّے مختلف سوالات کرتے رہے اور علی محمد بٹ اپنے کشمیر کے متعلق بڑی محبّت سے ساری باتیں بتاتا رہا۔
 اس دن وہ گیا تو پھر ایک سال کے بعد ہی آیا۔ آج وہ تنہا ہی تھا۔ مَیں نے اسے اندر صحن میں بچھے پلنگ پر بٹھا دیا۔ اب وہ کوئی اجنبی پھیری والا نہیں تھا۔ اب تو وہ میرا کشمیری بھائی تھا۔
 ’’آپا جان! سب اللہ پاک کا کرم ہے۔ بچّہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن.... امارا بی بی.... گزر گیا۔‘‘
 ’’ارے کب؟‘‘ مجھے یہ خبر سُن کر سچ مچ بہت دکھ ہوا تھا۔ ’’پچھلے سال جب ام آپ کے پاس فروری میں آیا تھا۔ اس کے بعد کشمیر سے چٹھی آیا کہ وہ گزر گیا۔‘‘ علی محمد بٹ کی آواز بھرا گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ میرا جی بھی بھاری ہوگیا۔ اس کو مناسب الفاظ میں تسلی دی۔
 اس کے بعد وہ کئی بار آیا۔ مَیں نے اسے اپنے جان پہچان والوں میں متعارف کروایا۔ حسب ِ دستور علی بھائی فروری میں واپس چلا گیا۔
 اگلے جاڑوں میں علی محمد بٹ آیا تو میرے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا۔ اور میری حالت کافی خراب ہوگئی تھی۔ جائیداد کے کئی مقدمے چل رہے تھے۔ علی بھائی میری حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا۔ اس بار اس نے مجھ سے کوئی چیز خریدنے کیلئے اصرار نہ کیا۔ ہاں ملاقات کرنے برابر آتا رہا اور جب بھی آیا اپنے سادہ سے پیار بھرے لہجے میں مجھ کو سمجھاتا رہا، حوصلہ بڑھاتا رہا۔
 مجھے اپنی دونوں لڑکیوں کی شادی کی فکر تھی۔ اتفاق سے بڑی لڑکی صبا کیلئے ایک اچھا سا رشتہ مل گیا جسے مَیں نے منظور کر لیا۔ شادی کیلئے اکتوبر کی تاریخیں مقرر ہوئیں اور انتظامات ہونے لگے۔
 مَیں خود کو سنبھالے کسی طرح شادی کا کام کاج کر رہی تھی۔ ’اُن‘ کا خیال بار بار آکر تڑپا رہا تھا۔ خصوصاً بارات کے دن میرا صبح سے بُرا حال تھا۔ کئی بار سب سے چھپ کر رو چکی تھی۔
 دوپہر میں مجھے کسی نے علی محمد بٹ کے آنے کی خبر دی۔ اُف! مَیں اپنے علی بھائی کو شادی کارڈ بھیجنا بھول ہی گئی تھی۔ تاسف، دکھ اور شرمندگی نے مجھے رُلایا۔
 علی بھائی، ’’سلام علیکم آپا جان!‘‘ کا نعرہ مار کر خوش مزاجی سے بولا، ’’آپا جان! ام کو شادی کا کارڈ دیر سے ملا۔ بس ام بھاگا بھاگا آیا۔ آپ کہے گا کیسا بھائی ہے۔ عین ٹیم پر مہمانوں کا مافق آیا ہے۔ اب ام کو کام دھام بتاؤ۔ اور آپا جان! آپ ذرا بھی فکر نہ کرو۔ اب ام آگیا ہے۔‘‘ پھر میری طرف جھک کر ذرا دھیرے سے بولا، ’’آپا جان! امارا پاکٹ میں پانچ ہزار روپیہ ہے۔ آپ لے کر خرچ کرو۔ کسی بات کا کمی نہ ہونا چاہئے۔‘‘
 ’’نہیں نہیں بھائی۔ سب انتظام ہوچکا ہے۔ تم آگئے میرے لئے۔ یہی بہت ہے۔‘‘ اور مَیں جو رونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی تھی، اک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ علی بھائی مجھے سمجھانے لگا۔ رباب چائے اور ناشتہ لے آئی۔ اور علی بھائی جلدی جلدی اس سے نمٹ کر کام میں جٹ گیا۔ سچ مچ اس نے ایک بھائی کی طرح دوڑ دوڑ کر کام کیا۔ رخصتی سے کچھ دیر قبل اس نے مجھے بلوایا۔
 ’’آپا جان! ام اپنا صبا بیٹی کو ملنا چاہتا ہے۔‘‘ ’’بھائی، ذرا دیر میں رخصتی ہوگی اس وقت مل لینا۔‘‘
 ’’نہیں آپا جان! آپ نہیں سمجھتا۔ ام اپنا بیٹی کو کیسے رخصت کرے گا۔ جب وہ رخصت ہوگا تب ام اپنا بستر میں منہ چھپا کر روئے گا۔ وہ ام کو چٹھی لکھا، ’’علی ماموں! ابّا بھی نہیں ہے، آپ بھی نہیں آیا تو ام امّی کو چھوڑ کر کیسے جائے گا؟‘‘ ام اس کا.... چٹھی سُن کر ام بہوت رویا۔‘‘
 میں اس کی بات سے بہت متاثر ہوئی اور پردہ کرا کے اسے صبا کے پاس لے گئی۔ علی بھائی صبا کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر اس نے پیکٹ سے بہت خوبصورت سرخ جامہ وار کی شال نکال کر اس کے کاندھوں پر ڈال دی اور اس کے سَر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا، ’’بیٹی! ام پاک پروردگار سے تمہارا سکھ اور سلامتی کی دُعا کرتا ہے۔ خوش رہو۔‘‘ اور پھر اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ صبا کا سَر کاندھے سے لگا کر رونے لگا۔ مَیں بھی رو رہی تھی۔ صبا کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ اسے بہلانے لگا۔
 ’’صبا بیٹی! بس اب مت رو۔ تم ام کو اِتّے پیار سے چٹھی لکھا۔ کارڈ بھیجا۔ ام سارا کام دھام چھوڑ کر بھاگا بھاگا آیا۔ اب تم رو کر جی بُرا کرتا ہے۔ اپنا علی ماموں کی بات نہیں مانتا۔ تم امارا کیسا بیٹی ہے؟‘‘ اور پھر علی بھائی صبا کو سمجھا بجھا کر اس کا سَر تھپتھپا کر باہر چلا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK