یہ بھی ایک راجہ ہی کے زمانے کی کہانی ہے اور دوسری کہانیوں کی طرح بہت پرانی ہے۔ سیکڑوں برس سے بڑے بوڑھے یہ کہانی اپنے بچوں کو سناتے آئے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 23, 2023, 3:26 PM IST | Abrar Mohsin | Mumbai
یہ بھی ایک راجہ ہی کے زمانے کی کہانی ہے اور دوسری کہانیوں کی طرح بہت پرانی ہے۔ سیکڑوں برس سے بڑے بوڑھے یہ کہانی اپنے بچوں کو سناتے آئے ہیں۔
یہ بھی ایک راجہ ہی کے زمانے کی کہانی ہے اور دوسری کہانیوں کی طرح بہت پرانی ہے۔ سیکڑوں برس سے بڑے بوڑھے یہ کہانی اپنے بچوں کو سناتے آئے ہیں۔ ہاں تو ایک راجہ تھا، جو بہت نیک دل اور انصاف پسند تھا۔ وہ رعایا کی بھلائی کیلئے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا تھا کیونکہ صرف سوچتے ہی رہنے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ اگر انسان صرف سوچے ہی جائے اور کرے کچھ نہیں ، تو بھلا کیا فائدہ....! چنانچہ بس راجہ کو یہی دھن لگی رہتی تھی کہ اس کے کس کام سے رعایا کو سکھ مل سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے بہت سے اچھے کام کئے تھے، مثلاً غریبوں اور اپاہجوں کیلئے خزانے سے وظیفے مقرر تھے، مسافروں کیلئے جگہ جگہ آرام گاہیں بنوا دی تھیں ، اور رعایا سے اتنا ہی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا کہ بوجھ نہ معلوم ہو۔ رعایا خوشحال تھی اس لئے ہر طرف امن تھا۔ راستے بے خطر تھے۔ لوگ مال دولت لے کر راتوں کو تنہا سفر کرتے اور منزل پر پہنچ جاتے۔ مجال نہ تھی جو کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی لیتا۔ گھروں کے دروازے بند کرکے سونے کا رواج ہی نہ تھا کیونکہ چوری کا کھٹکا نہ تھا۔
راجہ اپنی رعایا کو خوش دیکھتا اور نہال ہوتا۔ ایک راجہ کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ اس کی رعایا اس سے مطمئن ہو۔ بڑے سکون سے دن گزر رہے تھے کہ ایک دن ایک ایسی بات ہوئی کہ رعایا بے چین ہوگئی۔
ہوا یوں کہ شہر سے چند میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی تھی، ویران اور سنسان۔ لوگ عموماً اس طرف نہیں جاتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی چرواہا اپنے کسی بھولے بھٹکے مویشی کی تلاش میں پہنچ جاتا تھا مگر ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا۔
لوگ پہاڑی سے بہت خوف زدہ تھے، اور اس کی وجہ وہ عجیب عجیب کہانیاں تھیں جو اس پہاڑی کے متعلق برسوں سے مشہور تھیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہاں بھوت رہتے ہیں جو تاریک راتوں میں خوفناک ناچ ناچتے ہیں اور اگر کوئی زندہ آدمی ہاتھ لگ جائے تو اُسے کھا جاتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہاں کوئی چڑیل رہتی ہے جو اپنے نکیلے دانتوں سے انسان کا خون پی جاتی ہے۔ غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
آج تک کسی نے نہ تو بھوت دیکھا تھا نہ ہی چڑیل.... مگر وہ سب ان سے خائف تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب سائنس نے اتنی ترقی نہ کی تھی اور لوگ عام طور پر جہالت اور توہم پرستی کا شکار تھے۔ وہ خواہ مخواہ ایسی چیزوں سے ڈرتے تھے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ بس چند خیال چیزیں بنا کر اُن سے ڈرتے تھے۔ علم کی روشنی اس قدر نہ تھی کہ جہالت کے اندھیروں کو دور کرتی۔
ہاں ، تو لوگوں کے خوف کی ایک وجہ یہ تھی کہ شہر کے چند لوگ جو کبھی اس پہاڑی پر گئے تھے تاکہ وہاں رہ کر معلوم کریں کہ آخر وہاں ہے کیا، واپس نہیں لوٹے۔ نہ جانے کہاں غائب ہوگئے تھے وہ! اب کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہاں جائے۔ بھوت اور چڑیل کی موجودگی کا سب کو یقین تھا۔ ایک شام اس پہاڑی پر سے گھنٹیوں کی آواز آئی۔ لوگ حیران ہوگئے اور خوفزدہ بھی۔ اس سے پہلے اُدھر سے کبھی کوئی آواز نہیں آئی تھی۔ اس پُراسرار آواز کو سن کر سب کے دل دھک دھک کرنے لگے۔ ایک بوڑھا کہہ رہا تھا، ’’بھوت بھوکے ہیں ، وہ گھنٹی بجا رہے ہیں ۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں ، یہ گھنٹیوں کی آواز نہیں بلکہ چڑیل کی پکار ہے۔ وہ بھوک سے چلا رہی ہے۔ اُسے انسان کے گوشت کی خواہش ہے۔‘‘ ہر شخص اپنا اپنا خیال ظاہر کر رہا تھا.... تمام نگاہیں پہاڑی کی طرف لگی ہوئی تھیں ، جس پر شام کے دھندلکے پھیلتے جا رہے تھے۔ وہ پہاڑی جو خوفناک تھی، جہاں موت کا بسیرا تھا، جہاں بھیانک سناٹے تھے۔ گھنٹیوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ....
’’چلو، راجہ سے کہیں ....‘‘ لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا اور محل کی طرف چلے۔ شور سُن کر راجہ محل سے باہر نکل آیا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ اُس نے پوچھا، ’’کیا پریشانی ہے؟‘‘ ایک بوڑھا آگے بڑھا اور ادب سے بولا، ’’ہمارے پیارے راجہ! کیا تم گھنٹیوں کی آوازیں سن رہے ہو؟‘‘ راجہ نے کان لگا کر سنا اور سر ہلا دیا۔ بوڑھا پھر کہنے لگا، ’’یہ آوازیں پہاڑی پر سے آرہی ہیں ۔ ہمیں ڈر لگ رہا ہے۔ کہیں ہم پر کوئی مصیبت تو نہیں آنے والی ہے!‘‘ ’’تم ہمارے راجہ ہو۔ ہمارے دکھ دور کرنا تمہارا کام ہے۔ اِن آوازوں کا راز معلوم کرو تاکہ ہمارے دلوں کو سکون ملے۔‘‘ ’’تم لوگ بالکل نہ گھبراؤ۔‘‘ راجہ نے ہمدردانہ لہجے میں کہا، ’’مَیں ابھی معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اطمینان سے اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔‘‘
لوگوں کو راجہ پر اعتماد تھا، وہ سب واپس لوٹ گئے.... گھنٹیاں بدستور بج رہی تھیں ....
راجہ نے اُسی وقت بڑے بڑے پنڈتوں اور جیوتشیوں کو بلا کر گھنٹیوں کا راز معلوم کرنے کو کہا۔ اُن سب نے غور کرنے کے بعد ایک فیصلہ سنا دیا۔ ’’مہاراج! بھوت ناراض ہیں کیونکہ پنڈتوں اور جیوتشیوں کو راجہ منہ مانگی دولت نہیں دیتا۔‘‘
’’اچھا!‘‘ راجہ کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑایا۔ پھر کہا، ’’تم سب لوگ خزانے میں جا کر جتنی دولت چاہو لے لو۔‘‘ وہ لوگ خزانے میں گئے اور خوب دولت سمیٹ کر چلتے بنے.... اتفاقاً اس وقت گھنٹیوں کی آواز بھی آنی بند ہوگئی۔
راجہ نے سوچا، ’’چلو خیر.... گھنٹیوں کی آواز تو ختم ہوئی....‘‘ لوگ بھی مطمئن ہوگئے مگر اگلی شام پھر وہی آواز سنائی دی۔ لوگ راجہ کے پاس پہنچے اور راجہ نے پھر پنڈتوں اور جیوتشیوں کو طلب کیا۔ ’’اب کیا بات ہے؟‘‘ راجہ نے سوال کیا، ’’آج پھر وہی آوازیں ؟‘‘ انہوں نے پھر کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد کہا، ’’چڑیل ناراض ہے کیونکہ پنڈتوں اور جیوتشیوں کے پاس کافی مویشی نہیں ہیں ....‘‘ راجہ نے فوراً کہا، ’’ارے بھائی! جتنے مویشی چاہو لے لو مگر یہ آواز بند ہونی چاہئے۔‘‘
جوں ہی انہیں مویشی دیئے گئے، آواز بند ہوگئی۔ انہوں نے کہا، ’’دیکھا! ہم نے ٹھیک ہی کہا تھا نا....!‘‘ لوگوں کو پھر اطمینان ہوگیا، مگر اُسی شہر میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ آوازوں کا راز کچھ اور ہی ہے۔ غریب عورت تھی، دنیا میں اکیلی تھی۔ سوچنے لگی، ’’کیوں نہ مَیں خود جا کر معلوم کروں کہ یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ زیادہ سے زیادہ مر ہی تو جاؤں گی.... بھلا یہ زندگی بھی تو موت جیسی ہی ہے.... کس کیلئے جیوں !‘‘
اگلے دن جب پھر شام کے وقت گھنٹیوں کی آواز آئی تو بڑھیا نے لاٹھی اٹھائی اور خاموشی سے پہاڑی کی طرف چل پڑی۔
سورج مغرب کی سمت جھک رہا تھا، کھیتوں پر پھیلی ہوئی دھوپ سمٹ رہی تھی.... اور گھنٹیاں زور زور سے بج رہی تھیں .... جب وہ پہاڑی پر چڑھنے لگی تو اُسے ذرا ڈر محسوس ہوا۔ جی چاہا کہ لوٹ جائے، مگر پھر دل کڑا کرکے آگے بڑھتی ہی رہی۔ شام دھندلی ہوتی جا رہی تھی.... پہاڑی سنسان تھی، ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی.... اور آوازیں زور زور سے آ رہی تھیں .... بوڑھی عورت تھی، پہاڑی پر چڑھنا آسان نہیں ہوتا.... بری طرح ہانپ رہی تھی.... دل تیزی سے دھڑک رہا تھا.... ٹانگیں کانپ رہی تھیں ، قدم لڑ کھڑا رہے تھے گر گر کر سنبھل رہی تھی۔ آوازیں بہت نزدیک معلوم ہوتی تھیں ۔ آخر وہ چوٹی تک پہنچ ہی گئی اور ایک پتھر پر بیٹھ کر سانسیں درست کرنے لگی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا.... وہاں بے شمار درخت تھے۔ ’’ارے!‘‘ اس نے بے اختیار کہا اور زور سے ہنس پڑی، ’’تو یہ راز ہے گھنٹیوں کا!‘‘ درختوں پر بہت سے بندر اچھل کود رہے تھے۔ ایک بندر کے ہاتھ میں گھنٹی تھی جسے وہ بے ڈھنگے طریقے سے ہلا ہلا کر دانت نکال رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بہت سی گھنٹیاں ایک ساتھ بج رہی ہوں مگر بندروں کے ہاتھ وہ گھنٹی کہاں سے لگی؟ اچانک وہ چونک پڑی۔ درختوں کے جھنڈ میں اسے ایک پرانا جوتا نظر آیا۔ اب وہ تمام راز سمجھ گئی۔
بہت دنوں پہلے شہر کے مندر میں سے کسی نے گھنٹی چوری کی تھی.... چور گھنٹی لے کر اُس طرف آنکلا تھا اور اُسے چپتے نے کھا لیا۔ وہ اسی چور کا جوتا تھا۔ گھنٹی کسی طرح بندروں کے ہاتھ آگئی۔ اسی چیتے نے شہر کے آدمیوں کو کھا لیا تھا۔ اسی لئے وہ بھی واپس نہیں لوٹ سکے تھے۔ بڑھیا فوراً شہر واپس گئی اور پھلوں کی ایک ٹوکری لے کر پھر پہاڑی پر چڑھ گئی۔ بندروں نے پھل دیکھے اور ٹوکری پر ٹوٹ پڑے۔ گھنٹی وہیں پھینک دی۔ بڑھیا نے گھنٹی اٹھا لی اور اُسے زمین میں دفن کر دیا۔ اب وہ شہر واپس پہنچی۔ لوگ بہت پریشان تھے۔ بڑھیا راجہ کے پاس پہنچی۔ وہاں پنڈت اور جیوتشی کہہ رہے تھے، ’’مہاراج! بھوت ناراض ہیں کیونکہ جیوتشیوں اور پنڈتوں کے پاس عالیشان....‘‘
’’بس اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ اُس نے گرج کر کہا، ’’اب مَیں تمہاری باتوں میں نہیں آؤں گا۔ تم کچھ نہیں کرسکتے....‘‘ وہ اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔ راجہ اکیلا رہ گیا۔ بڑھیا نے اُسے مخاطب کیا، ’’کیا ہے؟‘‘ راجہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، ’’اگر مَیں گھنٹی کی آوازیں ہمیشہ کیلئے بند کر دوں تو کیا انعام ملے گا؟‘‘ بڑھیا بولی۔
’’منہ مانگا.... جو چاہو گی، مل جائیگا مگر پہلے آوازیں بند ہونی چاہئے، انعام بعد میں ملے گا۔‘‘
’’منظور ہے۔‘‘ بڑھیا نے مسکرا کر کہا، ’’اب وہ آواز میں اپنے جادو سے ہمیشہ کیلئے ختم کر دوں گی۔‘‘ اگلی شام پورا شہر آوازوں کا منتظر تھا مگر شام ڈھلنے کے بعد رات آگئی، پہاڑی پر خاموشی ہی رہی.... اس کے بعد بھی آواز نہ آئی۔ اب لوگوں کے دلوں کو اطمینان ہوگیا۔
راجہ نے بوڑھی کو مالا مال کر دیا اور اس کی زندگی کے آخری دن بڑے عیش سے گزرنے لگے۔ اس نے کبھی کسی کو آوازوں کا راز نہیں بتایا۔
(ماخوذ: جنگل کا بادشاہ، ۱۹۷۲ء)