• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک طبع زاد کہانی: شہزادی اَلبا

Updated: May 03, 2024, 4:44 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

آنسو نمکین کیوں ہوتے ہیں؟ واضح رہے کہ سائنسی اعتبار سے سمندر اور آنسو کے کیمیائی اجزاء ایک سے ہیں۔ یہ کہانی اس پس منظر میں لکھی گئی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

قدیم روم کے دریائے سیرکیو کے ایک کنارے ’’سیویڈیل‘‘ اور دوسری جانب ’’بورگو‘‘ نامی قصبہ آباد تھا۔ سیویڈیل کے لوگ کافی خوشحال تھے۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ غم کیا ہے، درد کسے کہتے ہیں اور دُکھ کون سی چڑیا کا نام ہے۔ یہاں ہر وقت خوشیوں کے قہقہے بلند ہوتے تھے۔ کسی کی موت پر بھی لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے تھے۔ ان کا فلسفہ تھا کہ مشتری دیوتا نے زندگی دی تھی، اسی نے لے لی۔ یہاں مشتری کے بڑے بڑے مجسمے بناکر ان کی پوجا کی جاتی تھی۔
سیویڈیل پر بادشاہ سیزر کی حکومت تھی جس کی ایک ہی بیٹی ’’اَلبا‘‘ تھی۔ اسے پھولوں کا جنون تھا۔ ہر وقت پھولوں کی مختلف قسم کی اشیاء بناتی رہتی تھی اسلئے روزانہ مختلف اقسام اور رنگوں کے کئی کلو پھول محل لائے جاتے تھے۔اسے ایک ہی غم تھا کہ وہ اتنی محنت سے یہ اشیاء تیار کرتی ہے مگر دوسرے ہی دن سب مرجھا جاتی ہیں۔ اسے پھولوں میں خوشی ملتی تھی اور بادشاہ کو بیٹی کو دیکھ کر۔
اسی قصبہ میں میکس، مائیک، کانسٹینٹائن، مارسین، جان، ڈینس اور انتونیونامی سات نوجوان بھی رہتے تھے جن کا تعلق قصبہ کے امیر ترین خاندانوں میں سے تھا۔ یہ آپس میں رشتہ دار تھے۔ ان میں بھائیوں کی طرح محبت تھی۔ ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ کوئی ایک بھی تکلیف میں ہوتا باقی چھ اپنا تمام کام کاج چھوڑ کر اس کی دلجوئی میں لگ جاتے تھے۔ انتونیو پھولوں کا تاجر تھا۔ اس کے کئی سو ایکڑ کے باغ میں متعدد اقسام کے پھول کھلتے تھے۔ تاہم، وہ پھولوں کو قریبی شہر میں فروخت کرتا تھا۔ اسے پھولوں کو زیادہ دنوں تک محفوظ رکھنے کا راز معلوم تھا جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا تھا۔
ایک شام انتونیو اپنی کشتی سے گزر رہا تھا تبھی اس کی نظر محل کی بالکونی پر پڑی جسے البا پھولوں کی مالا سے سجا رہی تھی۔ البا کی نظر کشتی پر پڑی جوپھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ پورے سیویڈیل میں صرف انتونیو کے پاس ہی کشتی تھی۔ شہزادی پھولوں کو پانے کیلئے بے تاب ہوگئی، اشارے سے انتونیو کو محل کے عقبی باغ کے قریب بلایا۔ کشتی کے قریب آتے ہی شہزادی نے کہا، ’’یہ پھول ہمیں فروخت کردیجئے۔‘‘
’’یہ پھول روم میں فروخت ہوتے ہیں۔ اگر تمہیں چاہئے تو روم کے بازار سے خرید لو۔‘‘ انتونیو نے شہزادی کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے آرام سے جواب دیا۔
’’ہم شہزادی اَلبا ہیں۔ کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔‘‘ اَلبا نے الجھتے ہوئے انداز میں کہا۔’’انتونیو کے پھول ہرگز نہیں۔‘‘ انتونیو مسکراتا ہوا، اپنی کشتی باغ سے دور لے جانے لگا جبکہ البا افسوس کی مورت بنی حسین پھولوں کو اپنے سے دور جاتا دیکھتی رہی۔
دوسرے دن بادشاہ کے سپاہیوں نے انتونیو کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا۔ ’’تم اپنے چند کلو پھول روزانہ محل بھیج دیا کرو۔‘‘ بادشاہ نے خوبرو نوجوان کو حکم سنایا۔
’’معذرت بادشاہ سلامت! مَیں ایک بااصول تاجر ہوں۔ میرے آبا واجداد صدیوں سے پھولوں کا کاروبار کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے پھول ہمیشہ ہی یہاں سے باہر فروخت کئے ہیںاس لئے مَیں خاندانی روایت کو نہیں توڑ سکتا۔‘‘ انتونیو نے احتراماً جھک کر کہا، تبھی اس کی نظر تخت کے قریب پڑے مرجھائے پھولوں پر پڑی۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔
بادشاہ غصے میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ انتونیو کہنے لگا، ’’مگر مَیں مرجھائے پھولوں کو زندہ کرنے کا ہنر جانتا ہوں۔ مَیں شہزادی اَلبا کو یہ فن سکھا سکتا ہوں۔‘‘
بادشاہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ البا نے کہا، ’’مجھے منظور ہے۔‘‘ اور پھر اپنے باپ کی جانب دیکھا۔
بادشاہ نے اجازت دے دی۔ انتونیو نے سوچا کہ محلوں میں پرورش پانے والی شہزادی باغوں کی صعوبتیں کیونکر جھیلے گی مگر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی جب وہ دوسری صبح انتونیو کے باغ کے دروازے پر کھڑی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد کہانی: نشوبا اور چاند

پھولوں کو عرصے تک زندہ رکھنا انتونیو کا خاندانی راز تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ راز کسی اور کو معلوم ہو لہٰذا اس نے البا کو دن بھر مختلف کاموں میں الجھائے رکھا مگر ترکیب نہیں بتائی۔ اگلے دن بھی یہی ہوا۔ اور پھر یونہی دن گزرنے لگے۔ انتونیو روزانہ نیا بہانہ تیار رکھتا لیکن البا بہانہ سن کر جاتی نہیں تھی بلکہ پھولوں کے درمیان گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ در حقیقت، اسے انتونیو کے پھولوں سے عشق ہوگیا تھا۔ اسے اب پھولوں کو زندہ رکھنے کے راز سے بھی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ وہ پورا دن باغ میں گزار دیتی تھی۔ محل میں پھول آنے بند ہوگئے تھے۔ اب اس کا دن پھولوں کی اشیاء بنانے میں نہیں بلکہ ان کے درمیان گزرتا تھا۔ بادشاہ خوش تھا کہ البا کا جنون ختم ہوگیا ہے۔ انتونیو کو بھی اب البا کا انتظار رہنے لگا تھا۔ دونوں مل کر سارا دن باغات میں کام کرتے تھے۔
ایک شام سیویڈیل میں ایک انتہائی بوڑھا شخص داخل ہوا۔ اس نے دیوتاؤں کے بڑے بڑے مندر دیکھے تو حیران رہ گیا۔ وہ جب بڑے مندر کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ سارے قصبے کے لوگ مشتری دیوتا کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ بوڑھے شخص نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’تم سارے بیوقوف اس کے آگے جھکے ہو، جسے تم نے بنایا ہے!‘‘ لوگوں نے پلٹ کر اجنبی بوڑھے کو دیکھا، اور اسے دیوانہ سمجھ کر نظر انداز کردیا مگر ڈینس کے دل میں بوڑھے کی بات گھر کر گئی۔ وہ بوڑھے کا پیچھا کرتا ہوا ایک غار میں گیا۔ بوڑھا، ڈینس کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر اسے دینِ حق کی ڈھیر ساری معلومات دی۔ ڈینس جب غار سے لوٹا تو مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ خدا نے اس کا دل پلٹ دیا تھا۔ اس نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ مشتری کے آگے جھکے گا نہ اس سے کچھ مانگے گا۔ اس کا دل دین حق کی روشنی سے منور ہوچکا تھا۔ اب وہ روزانہ غار میں جانے لگا اور بوڑھے سے اچھی اچھی باتیں سیکھنے لگا۔
ایک دن اس نے یہ باتیں میکس، مائیک، مارسین، جان، انتونیو اور کانسٹینٹائن کو بتانے کا فیصلہ کیا۔ ایک شام جب سبھی انتونیو کے باغ میں جمع تھے تو ڈینس نے انہیں دین حق کی باتیں بتائیں۔ سبھی حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ ان کے آباء و اجداد برسوں سے دیوتاؤں کی پرستش کرتے آرہے تھے۔ ان کیلئے اپنی پوجا چھوڑ دینا ممکن نظر نہیں آرہا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ڈینس کی بات پر غور ضرور کریں گے۔ چند دن یونہی گزر گئے۔
اب بوڑھا سیویڈیل میں کھلے عام دین حق کی باتیں کرنے لگا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بوڑھا کہاں سے آیا ہے۔ ایک مرتبہ بازار سے گزرتے وقت جب بادشاہ نے بوڑھے کی زبان سے مشتری کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں سنیں تو طیش میں آگیا اور بوڑھے کو پھانسی دینے کا حکم سنایا۔ یہ اعلان سننے کے بعد سیویڈیل کے لوگ جوش سے بھرگئے اور بآواز بلند کہنے لگے کہ ’’بوڑھے کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ وہ ہمارے دیوتاؤں کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔‘‘
ڈینس بوڑھے کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر بھائیوں نے اسے روک لیا ورنہ وہ بھی جان سے جاتا ۔ اگلے دن پورا قصبہ چوراہے پر جمع تھا۔ سپاہی بوڑھے کو رسیوں سے کھینچتے ہوئے لا رہے تھے۔ مجمع کے لوگ اس پر آوازیں کس رہے تھے اور پتھروں سے مار رہے تھے۔ تختہ پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ لہولہان ہوچکا تھا۔ اس بوڑھے شخص پر سات بھائیوں اور البا کے سوا کسی کو رحم نہیں آیا مگر وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اسے پھانسی دے دی گئی اور اس کی لاش دریا میں پھینکوا دی گئی۔
ڈینس غمگین تھا۔ باقی چھ بھائیوں کے دل بھی موم ہوگئے تھے۔ سبھی نے ڈینس سے کہا کہ وہ بھی ایسے دیوتا کی پوجا نہیں کرنا چاہتے جو ایک بوڑھے اور مظلوم شخص کی جان نہیں بچا سکا۔ اور پھر وہ ڈینس سے دین حق کی باتیں سیکھنے لگے۔ انہوں نے گناہوں سے توبہ کرلی تھی۔ اب ساتوں بھائی کافی بدل گئے تھے۔ شہزادی البا نے بھی ان کے ساتھ دین حق قبول کرلیا تھا۔
ایک دن ایک سپاہی نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ ساتوں بھائی اور شہزادی البا غار میں دین حق کی باتیں کرتے ہیں اور کسی اَن دیکھے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بادشاہ آگ بگولہ ہوگیا۔ اس کے حکم پر آٹھوں کو مجرموں کی طرح دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے بیٹی کو بھی نہیں بخشا اور سبھی کو قید خانے میں ڈلوادیا۔ ان پر کھانا پانی بند کردیا گیا تھا لیکن وہ اپنے دین پر قائم رہے۔ کچھ دن یونہی گزر گئے۔ آٹھوں بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپ رہے تھے لیکن کسی کو بھی ان پر رحم نہیں آیا۔ البا کی حالت زیادہ خراب تھی۔ وہ اکثر بے ہوش ہوجاتی تھی اور ہر وقت ’’پانی پانی‘‘ کرتی رہتی تھی۔ انتونیو اس کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتا تھا۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر کچھ دن یونہی گزرے تو آٹھوں بھوک اور پیاس کے سبب مرجائیں گے۔ ایک شام ڈینس نے غور کیا کہ قید خانے کا عقبی دروازہ لکڑی کا ہے جو ساحلی ہواؤں اور سمندر کے نمکین پانی کے سبب متعدد جگہوں سے سڑ چکا ہے۔ ساتوں بھائیوں نے جب اسے زور سے دھکا دیا تو وہ کھل گیا۔ دروازہ کھلتے ہی بحیرۂ تیرانی سے آنے والی نمکین ہوا ان کے چہروں سے ٹکرائی، اور ان کے مایوس چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے البا کو اٹھایا اور ساحل پر آگئے۔ کچھ دیر تک پہرہ داروں کو معلوم نہیں ہونے والا تھا کہ بادشاہ کے آٹھ قیدی فرار ہوگئے ہیں۔ البا کے ہونٹوں پر ایک ہی لفظ تھا ’’پانی۔‘‘
ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ سبھی نے سمندر کا نمکین پانی ایک ایک گھونٹ پی لیا۔ انتونیو نے ایک گھونٹ پانی البا کو بھی پلایا۔ پھر ان کے قدم انتونیو کے گھر کی طرف بڑھنے لگے جو وہاں سے سب سے قریب تھا۔ گھر پہنچ کر انہوں نے کچھ کھایا پیا تو ان کی جان میں جان آئی اور تبھی انہوں نے سیویڈیل چھوڑ کر بورگو جانے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے کنارے پر تھا۔

یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد کہانی: یونانی موسیقار

دریں اثناء، نقار خانے سے آواز بلند ہونے لگی کہ بادشاہ کے آٹھوں قیدی فرار ہوگئے ہیں جو انہیں گرفتار کرے گا اسے پر انعامات کی بارش کی جائے گی۔ یہ سنتے ہی ساتوں بھائی انتونیو کی کشتی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھا تو لوگوں کا ہجوم ہاتھوں میں مشعل لئے وہاں آرہا تھا۔ البا نے جلدی سے کہا، ’’تم ساتوں یہاں سے فرار ہوجاؤ۔ مَیں شہزادی ہوں۔ میرا باپ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ مَیں دین حق سے پھر جاؤں گی تو وہ مجھے معاف کردے گا۔ مگر تم ساتوں دین حق سے نہیں پھروگے اورتمہیں اپنی جانیں گنوانی پڑیں گی۔‘‘
انتونیو البا کو چھوڑ کر جانے کے حق میں نہیں تھا لیکن وقت نہیں تھا۔ ہجوم تیزی سے قریب آرہا تھا۔ وہ کشتی میں سوار ہو کر بورگو کی طرف بڑھنے لگے۔ مگر ان کی آنکھیں سیویڈیل کی طرف تھی۔ بادشاہ بھی لوگوں میں شامل تھا۔ البا کو دیکھتے ہی اس نے اس کی گردن جکڑ لی۔ شہزادی نے دین حق سے انحراف نہیں کیا تھا۔ انتونیو مضطرب ہوگیا، وہ دریا میں چھلانگ لگانا ہی چاہتا تھا کہ سبھی نے اسے پکڑ لیا اور سمجھایا۔ شاید البا کی جان چلی جاتی مگر اسی دوران سبھی نے دیکھا کہ وہ ایک جھٹکے سے بادشاہ کی گرفت سے نکل گئی ہے اور دیوانہ وار رقص کرنے لگی ہے۔ دراصل البا کے پاؤں میں ’’ترنتولا‘‘ نامی مکڑی نے ڈنک مار دیا تھا۔ اس کا زہر جب انسانی جسم میں سرایت کرتا ہے تو انسان دیوانہ وار رقص کرنے لگتا ہے۔ اسے آس پاس کی خبر نہیں ہوتی۔ یہی حال البا کا ہوا۔ وہ دیوانوں کی طرح رقص کررہی تھی۔ ساتوں بھائی البا کیلئے پریشان ہوگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ مجمع میں موجود اور قصبہ کی عقلمند اور معزز خیال کی جانے والی بوڑھی جادوگرنی نے کہا کہ ’’ہمیں ان ساتوں کو پکڑنے کیلئے بورگو جانا ہوگا، اور یہ تبھی ممکن ہے جب سیویڈیل اوربورگو کے درمیان ایک پل تعمیر کیا جائے۔ اگر ایک دن کی بھی تاخیر ہوگئی تو ساتوں فرار ہوجائیں گے۔‘‘ ’’مگر ایک رات میں پل کیسے تعمیر ہوگا؟‘‘ بادشاہ نے سوال کیا۔
بوڑھی جادوگرنی کے مکروہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے عیاری سے کہا، ’’یہ کام شیطان کرے گا۔ مگر بدلے میں اسے جان بھینٹ چڑھانی ہوگی۔‘‘ یہ سنتے ہی قصبہ کے لوگ جادوگرنی سے دور ہٹ گئے۔ کوئی اپنی جان نہیں دینا چاہتا تھا۔
جادوگرنی نے آہستہ سے کہا، ’’حضور! ہم شہزادی البا کی جان قربان کرسکتے ہیں۔‘‘ بادشاہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ویسے بھی اس کے دل میں البا کیلئے نفرت پیدا ہوگئی تھی۔ البا کو پکڑ کر لایا گیا اور ایک درخت سے باندھ دیا گیا۔ اس کے بدن میں مکڑی کا زہر تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس کے پاؤں اب بھی تھرک رہے تھے۔ جادوگرنی نے شیطان کی پوجا شروع کی اور پھر سبھی نے آگ کے شعلوں میں شیطان کی بھیانک شکل دیکھی اور گھبرا کر اپنی آنکھیں ڈھانپ لیں۔ جادوگرنی نے سبھی کو دریا کی طرف سے رُخ موڑنے کا حکم دیا۔ ساتوں بھائیوں نے دیکھا کہ سیویڈیل کے لوگ دریا کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوگئے ہیں اور کوئی نادیدہ قوت سیویڈیل سے بورگو کے درمیان تیزی سے ایک پل تعمیر کررہی ہے۔ 
ساتوں نے چپوؤں کو تیزی سے چلانا شروع کر دیا۔ انہیں بورگو پہنچ کر محفوظ مقام بھی تلاش کرنا تھا۔ ساتوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ بورگو پہنچ کر انہوں نے سیویڈیل کی طرف دیکھا تو لوگوں کا رُخ اب بورگو کی طرف تھا۔ وہ خوشی سے ایکدوسرے سے بغلگیر ہوتے ہوئے تیز آواز میں نعرے لگارہے تھے۔ تاہم، پل پر سفر اسی وقت ممکن تھا جب وعدے کے مطابق شیطان کو جان کی بھینٹ چڑھائی جاتی۔
درخت سے بندھی شہزادی کے پاؤں ہلکے ہلکے جھٹکے لے رہے تھے۔جب لوگوں نے رسی کھولی تو اس کا مردہ جسم منہ کے بل ان کے قدموں میں آگرا۔ پھر لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ البا کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا۔ وہ درد، تکلیف، محبت، نفرت، بے بسی، غصہ، مایوسی، تڑپ، کسی کو کھونے کے غم، بے وفائی اور دیوانگی جیسے کئی جذبات سے بیک وقت گزری تھی۔ کہتے ہیں کہ زمین پر اس سے پہلے کسی کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلے تھے۔ کرہ ارض پر رونے والی وہ پہلی انسان تھی۔ پتھر دل بادشاہ نے بیٹی کے آنسو کو اپنی انگلی پر لگا کر زبان پر رکھا تو وہ نمکین محسوس ہوا۔ آنسو نمکین اس لئے تھے کہ شہزادی نے سمندر کا پانی پیا تھا۔ 
بورگو کے کنارے کھڑا انتونیو یہ سب دیکھ کر تڑپ اٹھا مگر وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ چھ بھائیوں نے اسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا ورنہ وہ دیوانگی کے عالم میں دریا ہی میں چھلانگ لگا دیتا۔ انہوں نے اپنی کشتی کو آگ لگادی اور انتونیو کو لے کر محفوظ مقام کی تلاش میں آگے بڑھنے لگے۔ وہ دل ہی دل میں البا کیلئے دعا کررہے تھے۔ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک غار کے پاس پہنچ گئے۔ 
یہ محفوظ پناہ گاہ تھی۔ انہوں نے اپنا سارا سامان اندر رکھا اور غار کا دہانہ ایک بڑے پتھر سے ڈھانک دیا۔ اب انہیں کوئی تلاش نہیں کرسکتا تھا۔ اور پھر انہوں نے انتونیو کو دیکھا جس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ وہ درد، تکلیف، محبت، نفرت، بے بسی، غصہ، مایوسی، تڑپ، کسی کو کھونے کے غم، بے وفائی اور دیوانگی جیسے کئی جذبات سے بیک وقت گزر رہا تھا۔ روئے زمین پر رونے والا انتونیو دوسرا شخص تھا۔ اسے اس کیفیت میں دیکھ کر باقی چھ بھائی بھی غمگین ہوگئے اور ان سبھی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سبھی کے آنسو نمکین تھے کیونکہ سبھی نے سمندر کا پانی پیا تھا۔
دوسری جانب، سیویڈیل کے لوگ اس وقت تک پل پار نہیں کرسکتے تھے جب تک شیطان کو جان نہ قربان کردیں۔ دفعتاً جادوگرنی کو ایک ترکیب سوجھی اور اس نے شیطان کو دھوکہ دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے روٹی کا ایک ٹکڑا پل کی دوسری جانب پھینکا اور گلی میں گھومنے والا ایک آوارہ کتا تیزی سے روٹی کے پیچھے بھاگا۔ کتا ذی روح تھا، شیطان کو جان چاہئے تھی، اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسے انسان کی جان چاہئے لہٰذا وعدے کے مطابق وہ کتے کی جان لے کر غائب ہوگیا۔ سیویڈیل کے لوگ تیزی سے پل پار کرکے بورگو پہنچے اور ساتوں بھائیوں کو تلاش کرنے لگے۔ مگر وہ انہیں نہیں ملے۔ 
روتے روتے ساتوں بھائی سوگئے اور پھر خدا کی قدرت سے سیکڑوں سال بعد بیدارہوئے۔ مگر اُس وقت تک دنیا بدل چکی تھی جس پر عیسائیت حاوی تھی۔ کہتے ہیں کہ بیدار ہونے کے بعد ساتوں بھائیوں نے باقی ماندہ زندگی خدا کی عبادت میں گزاری۔

نوٹ:
(۱) ترانتیلا رقص، اٹلی اور یونان کا ایک قدیم رقص ہے جو سب سے پہلے شہزادی البا نے ترنتولا مکڑی کے کاٹ لینے کے بعد کیا تھا۔
(۲) شیطان نے جو پُل بنایا تھا وہ آج بھی اٹلی میں موجود ہے۔ یہ سیویڈیل اور بورگو کو جوڑتا ہے۔ اسے ’’دی ڈیولز بریج‘‘ کہتے ہیں۔
(۳) معروف شاعر اور ادیب خلیل جبران لکھتے ہیں کہ ’’نمک میں کچھ مقدس اور عجیب سا ضرور ہے تبھی یہ ہمارے آنسوؤں اور سمندر میں ہے۔‘‘
(۴) عیسائی مت میں ’’سیون سلیپرز‘‘ کی داستان ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK