• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: راہ گیر

Updated: September 30, 2023, 2:19 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب رے براڈ بری کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی پیڈسٹرئین ‘‘ The Pedestrian کا اُردو ترجمہ

 The Pedestrian. Photo. INN
راہ گیر۔ تصویر:آئی این این

نومبر کی ایک سرد دھندلی شام کے ۸؍ بج رہے تھے۔کنکریٹ کا شہر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایک شخص اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے خاموشی سے سیمنٹ کی مضبوط سڑکوں پر چہل قدمی کررہا تھا۔ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے گھاس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر چلنا مسٹر لیونارڈ میڈ کا پسندیدہ کام تھا۔ چاند روشن تھا۔ وہ ایک چوراہے پر کھڑے ہوکر فیصلہ کرنے لگے کہ انہیں کس سمت جانا چاہئے۔
یہ دنیا۲۰۵۳ء کی ہے۔ غالباً وہ واحد ایسے انسان ہیں جو چہل قدمی کیلئے نکلے ہیں اور پورا شہر خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک راستہ منتخب کرلیا اور چل پڑے۔
بعض اوقات وہ گھنٹوں اور میلوں پیدل چلتے تھے اور نصف شب کو اپنے گھر لوٹتے تھے۔ سفر کے دوران وہ مکانوں کی تاریک کھڑکیوں کو دیکھتے رہتے تھے۔ انہیں ایسا لگتا کہ وہ کسی قبرستان سے گزر رہے ہیں ۔ کھڑکیوں کے پیچھے جھلملاتی روشنیوں کی ہلکی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ جن کھڑکیوں پر پردے ہوتے ، انہیں دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا کہ اچانک سرمئی رنگ کے بھوت کھڑکیوں پر نمودار ہورہے ہیں ۔ کسی تاریک قبر کی طرح نظر آنے والے مکانات کی کھڑکیاں اگر کھلی ہوتیں تو ان سے ہلکی آوازیں آتیں ، جیسے چند افراد آپس میں سرگوشیاں کررہے ہوں ۔
مسٹر لیونارڈ میڈ، تھوڑی دیر ٹھہرتے، اپنا سر جھکاتے، یہاں وہاں دیکھتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ ان کے قدموں کی آہٹ تک نہیں سنائی دیتی تھی۔ کافی عرصہ پہلے انہوں نے ربڑ سول کے جوتے پہننے شروع کر دیئے تھے تاکہ رات میں چہل قدمی کے وقت آواز نہ ہو۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ ان کے قدموں کی چاپ سے آس پاس کے کتے بھونکنے لگتے اور پھر سناٹے میں دور تک ان کا پیچھا کرتے۔ اس طرح مکانات میں روشنیاں ہوجاتیں اور پھر چند چہرے کھڑکیوں سے جھانکنے لگتے۔ پوری گلی چونک جاتی، اور یہ افراد ایک تنہا شخص کو نومبر کی شام میں ٹہلتا دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے۔
 آج انہوں نے مغربی سمت میں سمندر کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ ہوا میں خنکی تھی۔ ہلکی برفباری بھی ہورہی تھی۔ انہیں لگ رہا تھا کہ برف کے ذرات ان کے پھیپھڑوں کو جمارہے ہیں مگر جب ان کے جوتوں کے نیچے خزاں کے پتے چرمرائے تو انہیں اطمینان ہوا کہ ٹھنڈی ابھی زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے ہلکی سیٹی بجائی۔ کبھی کبھار وہ کوئی ٹوٹا ہوا پتہ اٹھالیتے اور الیکٹرک پول کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے۔ اس کی زنگ آلود خوشبو کو سونگھتے۔
’’ہیلو! کیا چل رہا ہے؟‘‘ انہوں نے مکانات کی جانب سے آنے والی سرگوشیاں سنیں ، ’’چینل ۴، چینل ۷ ؍ اور چینل ۹؍ پر آج رات کیا ہورہا ہے؟ لوگ کہاں بھاگ رہے ہیں ۔ اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ امریکہ کسی مخصوص سمت میں دوڑ رہا ہے۔ یہ کیا ہے؟‘‘
دوسری گلی بالکل خاموش اور خالی تھی جس میں کسی عقاب کی طرح مسٹر لیونارڈ کا سایہ حرکت کررہا تھا۔ اگر وہ اپنی آنکھیں بند کرکے ساکت کھڑے ہوجائیں تو وہ اپنے آپ کو ایریزونا کے صحرا میں تصور کرسکتے ہیں جہاں ہزاروں میل تک کوئی گھر نہیں ہے۔ صرف سوکھے دریا اور بستر ہیں ۔
’’اب کیا ہورہا ہوگا؟‘‘ انہوں نے اپنی کلائی کی گھڑی کو دیکھتے ہوئے مکانات سے پوچھا۔ ’’شام کے ساڑھے آٹھ بجے رہے ہیں ؟ اس وقت قتل کی ایک درجن واردات بتائی جارہی ہو نگی۔ کہیں کوئز مقابلے ہورہے ہوں گے۔ کہیں فلموں کا تجزیہ کیا جارہا ہوگا،یا، کہیں کامیڈی شو چل رہا ہوگا، ہے نا؟‘‘
’’کیا چاند جیسے سفید گھر کے اندر سے کسی کے ہنسنے کی آواز آرہی ہے؟‘‘ انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا لیکن جب تھوڑی دیر تک مکمل خاموشی رہی تو وہ آگے بڑھ گئے۔ انہیں فٹ پاتھ کے ناہموار حصے پر ٹھوکر بھی لگی۔ سیمنٹ کی سڑک پھولوں اور گھاس کے نیچے غائب ہو رہی تھی۔ مسٹر لیونارڈ گزشتہ دس سال سے راتوں میں چہل قدمی کررہے تھے۔ وہ اب تک ہزاروں میل کا سفر طے کرچکے تھے لیکن اس عرصے میں انہوں نے کبھی کسی دوسرے شخص کو نہیں دیکھا تھا۔
وہ ’کلوورلیف‘ چوراہے پر پہنچ کر خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔ دن میں یہاں گاڑیوں کی گھن گرج ہوتی تھی، گیس اسٹیشن کھلے ہوتے تھے مگر اس وقت مکمل سناٹا تھا۔ جیسے کسی عفریت نے سارے شہر کو نگل لیا ہو۔ اب صرف کیڑے مکوڑوں کی سرسراہٹ تھی۔ دور دور تک بلند و بالا عمارتیں نظر آرہی تھیں جن میں مکمل خاموشی تھی۔ سڑکیں چاندنی میں نہائی ہوئی تھیں ۔چاند چمک رہا تھا مگر انسان اپنی چمک کھو بیٹھے تھے۔
وہ اپنے گھر کی طرف چکر لگاتے ہوئے، پاس والی ایک گلی میں مڑ گئے۔ ان کی منزل زیادہ دور نہیں تھی کہ اچانک انہیں ایک کار اپنی جانب آتی نظر آئی۔ وہ سکتے کے عالم میں کھڑے کار کی روشنیوں کو گھورنے لگے۔
کار سے ایک دھاتی آواز آئی، ’’جہاں ہو، وہیں رک جاؤ، آگے نہیں بڑھنا۔‘‘
مسٹر لیونارڈ رُک گئے۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: بہروپیا فرشتہ (ٹی ایس آرتھر)

’’اپنے ہاتھ اوپر کرو!‘‘
’’لیکن....‘‘ انہوں نے منہ کھولا۔
’’ہاتھ اوپر کرو! ورنہ ہم گولی مار دینگے!‘‘
یہ ایک پولیس کار تھی۔ ناقابل یقین بات یہ ہے کہ تیس لاکھ کی آبادی والے شہر میں پولیس کی صرف ایک گاڑی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ ایک سال قبل یعنی ۲۰۵۲ء میں جب الیکشن ہوئے تھے تو پولیس اہلکاروں کی تعداد یہ کہتے ہوئے کم کردی گئی تھی کہ جرائم کی شرح گھٹ رہی ہے اسلئے اب تین پیٹرول کاروں کے بجائے صرف ایک ہی کار پیٹرولنگ کرتی تھی۔ یہ گاڑی شہر کی خالی سڑکوں اور گلیوں میں رات بھر گھومتی رہتی تھی۔
’’تمہارا نام؟‘‘ پولیس کار سے آواز آئی۔ مسٹر لیونارڈ کی آنکھیں کار کی ہیڈ لائٹس سے چندھیا گئی تھیں اس لئے وہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ اندر کون ہے۔
’’لیونارڈ میڈ۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’زور سے بولو!‘‘
’’لیونارڈ میڈ!‘‘
’’کاروبار یا پیشہ؟‘‘
’’مَیں ایک مصنف ہوں ۔‘‘
’’یہ کوئی پیشہ نہیں ہے۔‘‘ پولیس کار سے آواز آئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اندر بیٹھا شخص خود کلامی کررہا ہو۔
’’آپ ایسا کہہ سکتے ہیں ۔‘‘ مسٹر میڈ نے کہا۔ انہوں نے برسوں سے کچھ نہیں لکھا تھا کیونکہ اب رسالے اور کتابیں فروخت نہیں ہوتی تھیں ۔ لوگوں نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اب مقبرے نما مکانات میں تفریح کا سامان تھا۔ یہ مقبرے ٹیلی ویژن (ٹی وی) کی روشنی سے روشن تھے جہاں لوگ مُردوں کی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ مختلف رنگوں کی روشنیاں ان کے چہروں کو مس کرتی تھیں لیکن حقیقتاً وہ انہیں کبھی نہیں چھوتی تھیں ۔
’’تم باہر کیا کر رہے ہو؟‘‘ پولیس کار سے آواز آئی۔
’’چہل قدمی!‘‘ لیونارڈ میڈ نے کہا۔
’’چہل قدمی!‘‘
’’جی ہاں ! چہل قدمی۔‘‘ انہوں نے سادگی سے جواب دیا۔ 
’’تم کہاں جارہے ہو؟ اور کس لئے؟‘‘
’’مَیں ہوا خوری کیلئے نکلا ہوں ۔‘‘
’’تمہارا پتہ!‘‘
’’گیارہ جنوبی سینٹ جیمز اسٹریٹ۔‘‘
’’مسٹر میڈ! کیا تمہارے گھر میں اے سی ہے؟‘‘ ’’جی ہاں !‘‘
’’اور تمہارے گھر میں ٹی وی ہے؟‘‘
’’نہیں ۔‘‘
’’نہیں ؟‘‘ ایک کرخت آواز آئی اور پھر خاموشی چھاگئی۔
’’کیا تم شادی شدہ ہو مسٹر میڈ؟‘‘
’’نہیں ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد لیونارڈنے کہا، ’’کوئی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
’’جب تک تم سے بات نہ کی جائے تب تک خاموش رہو!‘‘
میڈ سرد رات میں یونہی کھڑے رہے۔
’’تم صرف چہل قدمی کررہے تھے؟‘‘
’’جی ہاں ۔‘‘
’’لیکن تم نے مقصد نہیں بتایا۔‘‘
’’مَیں نے بتایا؛ ہوا خوری کیلئے۔‘‘
’’کیا تم اکثر ایسا کرتے ہو؟‘‘
’’برسوں سے یہی معمول ہے۔‘‘
پولیس کار گلی کے عین درمیان کھڑی تھی جس کے ریڈیو سے ہلکی آواز آرہی تھی۔
’’ٹھیک ہے، مسٹر میڈ۔‘‘ کار سے آواز آئی، ’’یہاں آؤ۔‘‘ پولیس کار کا پچھلا دروازہ کھلا۔ ’’اندر بیٹھو۔‘‘
’’ایک منٹ ٹھہریئے، مَیں نے کچھ نہیں کیا ہے!‘‘ مسٹر میڈ گھبراگئے۔
’’اندر بیٹھو۔‘‘
وہ لڑکھڑاتے ہوئے کار کی طرف بڑھے۔ گاڑی کی اگلی کھڑکی سے گزرتے ہوئے انہوں نے اندر دیکھا۔ ان کی توقع کے عین مطابق سامنے والی سیٹ پر کوئی نہیں تھا۔ گاڑی بالکل خالی تھی۔
’’اندر آؤ۔‘‘
انہوں نے دروازے پر ہاتھ رکھا اور پچھلی سیٹ کا درواز کھول کر اندر جھانکا۔ یہ ایک چھوٹا سا جیل تھا جس میں سلاخیں لگی ہوئی تھیں ۔ اس میں سے اسٹیل کی بو آرہی تھی۔ جراثیم کش ادویات کی بو آ رہی تھی۔ یہ بو مسٹر میڈ کو سخت ناگوار گزررہی تھی۔
’’اگر تم شادی شدہ ہوتے تو تمہاری بیوی گواہ ہوتی کہ تم محض چہل قدمی کیلئے رات میں سڑکوں پر پھر رہے تھے۔ لیکن افسوس ......‘‘
’’آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ؟‘‘
کار سے کوئی آواز نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے چند بٹن دب رہے ہوں اور معلومات کو کہیں پہنچایا جارہا ہو۔
مسٹر میڈ خاموشی سے اندر بیٹھ گئے اور ہلکی سی آواز سے دروازہ بند ہو گیا۔
پولیس کار رات کے اندھیرے میں راستوں سے گزرنے لگی۔ وہ خالی راستوں پر اوسط رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ ایک کے بعد ایک مکانات مسٹر میڈ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ ہر مکان میں مکمل اندھیرا تھا مگر کسی مخصوص کمرے سے ٹی وی کی ہلکی روشنی کھڑکیوں پر پڑ رہی تھی۔ پھر وہ سڑک بھی آگئی جس پر مسٹر میڈ کا مکان تھا۔ اس گلی میں یہی مکان سب سے روشن تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مسٹر میڈ کو رات میں گھر کی تمام بتیاں جلا کر رہنے کی عادت ہے۔
’’یہ میرا مکان ہے۔‘‘ لیونارڈ میڈ نے کہا، مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔
پولیس کار سوکھے دریا کے پاس سے گزری۔ خالی گلیوں اور سڑکوں سے گزرتی ہوئی دور جانے لگی۔ فٹ پاتھ خالی تھے۔ میدان خالی تھے۔ باغات خالی تھے۔ دکانیں بند تھیں ، مکانات بند تھے۔ سڑکوں پر کسی ذی روح کا نام ونشان تک نہیں تھا۔

نومبر کی بقیہ سرد راتوں میں اس شہر کی سڑکوں پر کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ کوئی شخص چہل قدمی کیلئے گھر سے باہر نہیں آیا۔ یہ شہر غروب آفتاب کے بعد سنسان ہی رہا۔


نوٹ: خیال رہے کہ مصنف نے یہ کہانی ۱۹۵۱ء میں تحریر کی تھی۔ اس وقت امریکہ میں ٹی وی دیکھنے کا رجحان اس قدر بڑھ گیا تھا کہ لوگ صبح ۷؍ سے شام ۵؍ بجے تک کام کاج کرتے، پھر اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ شہروں کی گلیاں سنسان ہوجاتی تھیں۔ 
مصنف نے اس کہانی میں ۲۰۵۳ء کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ۱۰۰؍ سال بعد کا امریکہ کچھ ایسا نظرآتا۔ 
واضح رہے کہ سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے۔ مصنف نے ٹی وی کے متعلق اندازہ لگایا تھا لیکن آج انسان اسمارٹ فون کی ننھی اسکرینوں پر مصروف ہے۔ شہر کی سڑکیں اور میدان خالی پڑےہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK