• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: شاندار راکٹ

Updated: May 24, 2024, 2:52 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی ریمارک ایبل راکٹ‘‘ The Remarkable Rocketکا اُردو ترجمہ

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بادشاہ کے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی اس لئے ہر جانب چراغاں تھا۔ دلہن ایک روسی شہزادی تھی جو انتہائی شاندار رتھ پر یہاں آئی تھی۔ اس کا رتھ چھ برفانی ہرن کھینچ کر لائے تھے۔ شہزادی نے آرمینی چادر اوڑھ رکھی تھی جبکہ سر پر چاندی جیسی ایک چھوٹی سی ٹوپی تھی۔ وہ برف جیسی سفید تھی۔ جب سڑکوں سے اس کا رتھ گزرا تو لوگ کہنے لگے ’سفید گلاب‘ آگیا۔ اس پر مختلف سمتوں سے پھول برسائے گئے۔ محل کے دروازے پر شہزادہ، شہزادی کے استقبال کیلئے کھڑا تھا۔ اس کی خوابیدہ آنکھوں کا رنگ بنفشی تھا اور بال سنہرے تھے۔ شہزادی کو دیکھتے ہی وہ ایک گھٹنے پر بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔
 شادی کی تقریب اگلے تین دن تک جاری رہنے والی تھی۔ ہر دن الگ تقریب تھی۔ مختلف قسم کے رقص ہوئے۔ بادشاہ نے بانسری بجائی اور دلہا دلہن نے اس کی دھن پر رقص کیا۔ انواع و اقسام کے پکوانوں کا دور ختم ہی نہیں ہورہا تھا۔ ٹھنڈے اور گرم مشروبات سے سبھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ دلہا دلہن کی ایک جھلک پانے کیلئے عوام بے چین تھے اور کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح اپنے شہزادے اور شہزادی کو ایک نظر دیکھ لیں۔ ان تقریبات کا آخری شو ’’آتش بازی‘‘ تھا۔ بادشاہ کا خاص آدمی ایک بڑے اور بلند اسٹینڈ پر آتش بازی کا سامان رکھ کر چلا گیا۔ تبھی سبھی پٹاخے آپس میں باتیں کرنے لگے۔
 ’’دنیا یقیناً بہت خوبصورت ہے،‘‘ ایک چھوٹے پٹاخے نے کہا، ’’ذرا ان زرد پھولوں کو دیکھو کتنے حسین ہیں۔ مَیں خوش ہوں کہ یہاں پہنچا اور اتنا حسن دیکھا۔‘‘ 
 ’’بادشاہ کا باغ دنیا نہیں ہے، تم بے وقوف ہو۔‘‘ ایک بڑی رومی موم بتی نے کہا۔ ’’دنیا بہت بڑی ہے، اور اسے اچھی طرح دیکھنے میں تمہیں تین دن لگیں گے۔‘‘ 
 ’’ہر وہ جگہ آپ کیلئے دنیا ہے جو آپ کو پسند ہے۔‘‘ بڑی چکری نے فکرمندی سے کہا۔ یہ چکری ابتدائی زندگی میں ایک ماچس کے ڈبے کے ساتھ منسلک تھی اور اب اپنے ٹوٹے ہوئے دل پر فخر کرتی تھی۔ ’’لیکن محبت اب فیشن نہیں رہی، شاعروں نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہوں نے اس کے بارے میں اتنا لکھا کہ کسی نے ان پر یقین نہیں کیا۔ سچی محبت سہتی ، اور خاموش رہتی ہے۔ سچ کہوں تو محبت اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔‘‘ 
 ’’بکواس!‘‘ رومی موم بتی نے کہا ’’محبت کبھی نہیں مرتی۔ یہ چاند کی طرح ہے جو ہمیشہ رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، دلہا اور دلہن ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے ان کے بارے میں آج صبح بھورے کاغذ والے کارتوس سے سنا، جو بغل والی دراز میں رہتا ہے۔ اور تازہ ترین خبروں سے واقف ہے۔‘‘
 ’’محبت ختم ہوگئی ہے۔ محبت مرگئی ہے۔ محبت اب ماضی کا قصہ ہے۔‘‘ بڑی چکری بڑبڑائی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو یہ سوچتے ہیں کہ اگر ایک ہی بات بار بار کہی جائے تو آخر میں سچ ہو جاتی ہے۔ 
 دفعتاً ایک تیز، خشک کھانسی سنائی دی، اور سب ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ یہ ایک لمبا اور شاندار راکٹ تھا، جو ایک لمبی چھڑی کے سرے سے بندھا ہوا تھا۔ کچھ بھی کہنے سے قبل وہ ہمیشہ کھانستا تھا تاکہ سبھی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکے۔ پھر اس نے کہنا شروع کیا: ’’یہ بادشاہ کے بیٹے کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی شادی اسی دن ہونی ہے جس دن مجھے رخصت کیا جائے گا۔ شہزادے خوش قسمت ہوتے ہیں۔‘‘
 ’’میرے دوست!‘‘ چھوٹے پٹاخے نے کہا، ’’مجھے لگا کہ ہمیں شہزادے کے اعزاز میں جلایا جائے گا۔‘‘ 
 ’’ہو سکتا ہے تمہارے ساتھ یہی معاملہ ہو۔‘‘ راکٹ نے کہا، ’’لیکن میرے ساتھ یہ مختلف ہے۔ میں ایک قابل اور بہترین راکٹ ہوں۔ میری والدہ اپنے دور کی سب سے مشہور چکری تھیں، اور اپنے خوبصورت رقص کیلئے مشہور تھیں۔ جب انہوں نے اپنا رقص شروع کیا تو کل ۱۹؍ چکر لگائے تھے اور ہر چکر میں گلابی ستارے پوری قوت سے ان کے پاؤں سے نکلے تھے۔ وہ اعلیٰ معیار کے بارود سے بنی تھیں۔ میرے والد میری طرح ایک راکٹ تھے۔ انہوں نے اتنی اونچی اڑان بھری تھی کہ لوگ ڈر گئے کہ شاید وہ دوبارہ نیچے کبھی نہ آئیں گے۔ تاہم، انہوں نے بلندی پر جاکر سنہری بارش کی کہ انہیں دیکھنے والوں کی آنکھیں تک سنہری ہوگئیں۔ ‘‘
 ’’پائرو ٹیکنیک! تمہارا مطلب ہے پائرو ٹیکنک۔‘‘ ایک بنگالی پھلجڑی نے کہا۔ 
 ’’مجھے معلوم ہے یہ پائرو ٹیکنک ہے۔‘‘ راکٹ نے بےرخی سے کہا۔ 
 بنگالی پھلجڑی خاموش ہوگئی۔
 ’’مجھے ہر قسم کی بدتمیزی اور برے اخلاق سے نفرت ہے۔ مَیں بہت حساس ہوں اور مجھے بیچ میں ٹوکنے والے لوگ سخت ناپسند ہیں۔‘‘ راکٹ نے کہا۔ 
 ’’یہ حساس کیا ہوتا ہے۔‘‘ ایک پٹاخے نے رومی موم بتی سے پوچھ لیا۔ جب موم بتی نے اسے بتایا تو وہ ہنسنے لگا۔
 راکٹ نے غصے سے کہا، ’’تمہیں اس بات پر ہنسی آرہی ہے۔ تمہیں خوش رہنے کا کیا حق ہے؟ تمہیں دوسروں کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ دراصل تمہیں میرے بارے میں سوچنا چاہئے۔ میں ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتا ہوں، اور میں توقع کرتا ہوں کہ باقی سب بھی ایسا ہی کریں۔ اسی کو ہمدردی کہتے ہیں جو ایک خوبصورت چیز ہے۔ اگر آج رات مَیں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا تو یہ ہر ایک کی بدقسمتی ہو گی! شہزادہ اور شہزادی پھر کبھی خوش نہیں ہوں گے، ان کی پوری شادی شدہ زندگی خراب ہو جائے گی۔ میرا عہدہ بڑا ہے،مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہے۔ ‘‘
 رومی موم بتی نے کہا ’’اگر تم دوسروں کو خوشی دینا چاہتے ہو تو بہتر ہے کہ تم خود بھی خوش رہو۔ اپنی کارکردگی کے بارے میں سوچ سوچ کر غمگین رہنے سے کیا فائدہ۔‘‘ 
 ’’یقینی طور پر،‘‘ بنگالی موم بتی نے کہا، ’’یہ آسانی سے سمجھ آنے والی بات ہے۔‘‘ 
 ’’آسانی سے سمجھ آنے والی بات!‘‘ راکٹ نے غصے سے کہا۔ ’’تم بھول رہی ہوکہ میں بہت غیر معمولی اور قابل ذکر ہوں۔ مَیں چیزوں کے بارے میں ویسے نہیں سوچتا، جیسے سب سوچتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے جذبوں کی قدر ہو۔ تم سب کے پاس دل ہی نہیں ہے۔ یوں اس طرح ہنسنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے تمہیں فکر ہی نہیں ہے۔‘‘ 
 ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ایک چھوٹے فائر بلون نے کہا۔ ’’ یہ انتہائی خوشی کا موقع ہے، اور جب مَیں ہوا میں بلند ہوں گا تو مَیں ستاروں کو اس کے بارے میں بتاؤں گا۔ جب مَیں ان سے خوبصورت دلہن کے بارے میں بات کروں گا تو تم سب انہیں مزید چمکتا ہوا دیکھو گے۔‘‘ 
 ’’آہ! زندگی کے متعلق تمہاری سوچ کتنی معمولی ہے۔ تم سب شہزادے کیلئے میری محبت کو کبھی نہیں سمجھوگے۔‘‘ راکٹ نے قدرے افسوس سے کہا۔ 
 ’’غالباً تم شہزادے سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہو۔‘‘  بنگالی پھلجڑی نے کہا۔ 
 راکٹ نے کہا، ’’تم بہت بدتمیز ہو۔‘‘ 
 ’’تم شہزادے کو جانتے تک نہیں۔‘‘ رومی موم بتی نے کہا۔ 
 ’’میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں اسے جانتا ہوں،‘‘ راکٹ نے جواب دیا۔ ’’میرا نظریہ ہے کہ اپنے دوستوں کو جاننا ایک خطرناک چیز ہے۔‘‘ ’’ فائر بلون نے کہا، ’’تم عجیب ہو۔‘‘ 
 راکٹ نے جواب دیا، ’’مَیں تمہاری طرح نہیں ہوں۔‘‘ اور پھر راکٹ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ بڑی چکری نے کہا، ’’یہ واقعی محبت کے جذبے سے واقف ہے۔‘‘ اس نے ایک گہری آہ بھری، اور ماچس کے ڈبے کے بارے میں سوچنے لگی۔
 لیکن رومی موم بتی اور بنگالی پھلجڑی کافی برہم تھیں۔ پھر سورج ڈوب گیا اور چاند نکل آیا۔ ستارے چمکنے لگے اور محل سے موسیقی کی آواز بلند ہونے لگی۔ 
 شہزادہ اور شہزادی رقص کر رہے تھے۔ انہوں نے اس قدر خوبصورتی سے رقص کیا کہ تالاب کے لمبے لمبے سفید کنول کھڑکی سے جھانک کر انہیں دیکھ رہے تھے۔ پھر دس بج گئے، پھر گیارہ، اور پھر بارہ، اور آدھی رات کے آخری منٹ پر ہر شخص محل سے نکل کر باغ میں آ کھڑا ہوا۔ بادشاہ نے آتش باز کو بلایا۔ 
 ’’آتش بازی شروع کی جائے۔‘‘ بادشاہ نے حکم دیا۔ اور آتش باز اس اسٹینڈ کی طرف بڑھا جہاں پٹاخے سجے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ چھ خادم تھے، جن میں سے ہر ایک نے روشن مشعل اٹھا رکھی تھی۔
 ’’وِز! وِز!‘‘ چکری کو آگ لگتے ہی، وہ اپنا رقص دکھانے لگی۔
 ’’بوم! بوم!‘‘ رومی بتی نے چاروں طرف اپنی روشنی بکھیری۔ 
 پھر چٹائی نے رقص شروع کیا۔
 بنگالی پھلجڑی نے اپنی چمک سے ہر چیز پر سرخ رنگ چڑھا دیا۔ 
 ’’الوداع!‘‘ فائر بلون چھوٹی چھوٹی نیلی چنگاریاں چھوڑتا ہوا ستاروں کی طرف بڑھا۔ 
 ’’بینگ! بینگ! ‘‘پٹاخوں نے چنگاری لگنے کا جواب دیا۔ وہ جلنے میں ہی خوشی محسوس کررہے تھے۔ 
 راکٹ اپنی جگہ انتہائی تکبر کے ساتھ کھڑا رہا۔ اس کا نمبر اب تک نہیں آیا تھا۔ تمام پٹاخوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 
 رونے کی وجہ سے راکٹ گیلا ہوگیا تھا۔ وہ اس قدر گیلا تھا کہ اسے جلانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا لہٰذا اسے نہیں جلایا گیا۔
 ’’حزہ! حزہ!‘‘ کرکے انار بھی اُڑنے لگے، اور شہزادی خوشی سے ہنس پڑی۔ اور پھر آتش بازی کا دور ختم ہوگیا۔
 ’’مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے کسی عظیم الشان موقع کیلئے محفوظ کر رہے ہیں،‘‘ راکٹ نے اپنے آپ سے کہا۔
 اگلے دن جب ملازم پٹاخوں کا کچرا صاف کرنے آئے تو راکٹ کو لگا کہ وہ اسے جلے ہوئے پٹاخوں سے علاحدہ کرکے محل میں رکھیں گے۔ وہ فخریہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔ ایک ملازم اس کی طرف آیا اور اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگا، ’’یہ راکٹ کس قدر برا ہے۔ گیلا ہوکر سوکھ گیا ہے اور بالکل خراب ہوگیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اسے محل کی دوسری طرف موجود کھائی میں پھینک دیا۔ 
 ’’خراب راکٹ؟‘‘ کھائی کی طرف گرتا ہوا راکٹ سوچ رہا تھا۔ ’’ناممکن!‘‘ اور وہ کیچڑ میں جاگرا۔ ’’شاید انہوں نے مجھے آرام کرنے کیلئے بھیجا ہو۔‘‘ راکٹ نے کہا۔ ’’میرے اعصاب یقیناً بہت بکھر گئے ہیں، اور مجھے آرام کی ضرورت ہے۔‘‘
 پھر چمکتی آنکھوں والا ایک چھوٹا مینڈک تیرتا ہوا اس کے پاس آیا۔
  ’’اوہ! تم یہاں نئے ہو۔ بارش کا موسم اور کھائی مجھے بہت پسند ہیں۔ مگر افسوس کہ آسمان بالکل صاف ہے۔‘‘
 راکٹ کھانسنے لگا۔
 ’’کتنی دلکش آواز ہے تمہاری!‘‘ مینڈک نے کہا۔ ’’بالکل کسی ساز کی طرح۔ تم آج کی شام ہمارے ساتھ گزارو۔ ہم کسان کے گھر کے قریب بطخوں کے پرانے تالاب میں رہتے ہیں، اور جیسے ہی چاند طلوع ہوتا ہے ہم ٹرانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اتنا دلفریب ہے کہ ہر کوئی ہماری بات سننے کیلئے جاگتا ہے۔ دراصل کل ہی کی بات ہے کہ میں نے کسان کی بیوی کو اس کی ماں سے یہ کہتے سنا کہ وہ ہماری وجہ سے رات کو ٹھیک سے سو نہیں پاتی۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے۔ ہم کتنے مقبول ہیں۔‘‘ 
 راکٹ غصے سے پھر کھانسا۔ اسے اب تک کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ 
 مینڈک نے بات جاری رکھی، ’’یقیناً تمہاری آواز خوشگوار ہے۔ `مجھے امید ہے کہ تم بطخوں کے تالاب پر آؤ گے۔ مَیں اپنی بیٹیوں کو ڈھونڈنے نکلا ہوں۔ میری چھ خوبصورت بیٹیاں ہیں۔ مجھےڈر ہے کہ کہیں کوئی سانپ ان پر حملہ نہ کردے۔ خیر، الوداع، تم سے بات چیت کرکے بہت اچھا لگا۔‘‘ 
  ’’بات چیت؟ واقعی!‘‘ راکٹ نے کہا۔ ’’ساری بات تم نے کی ہے۔ مَیں نے ایک لفظ نہیں کہا۔ اسے بات چیت نہیں کہتے۔‘‘
 مینڈک نے جواب دیا، ’’کسی کو صرف بات سننا چاہئے، اور میں تمام باتیں خود کرنا پسند کرتا ہوں۔ اس سے وقت بچتا ہے اور دلائل سننے کا موقع نہیں ملتا۔‘‘ 
 ’’لیکن مجھے دلائل پسند ہیں،‘‘ راکٹ نے کہا۔
 مینڈک نے اطمینان سے کہا ’’دلائل انتہائی بے ہودہ ہوتے ہیں کیونکہ اچھے معاشرے میں ہر کوئی ایک سی رائے رکھتا ہے۔ دوسری بار الوداع؛ وہ رہیں میری بیٹیاں۔‘‘ یہ کہتا ہوا مینڈک پانی میں چلاگیا۔ 
 راکٹ نے کہا، ’’تم بہت بدتمیز ہو۔ میں ان لوگوں سے نفرت کرتا ہوں جو صرف اپنے بارے میں بات کرتے ہیں، جیسا کہ تم نے کیا۔ جب کوئی اپنے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے تو اسے بات کرنے دینا چاہئے، جیسا کہ میں کرتا ہوں۔ مجھے خود غرضی بالکل نہیں پسند ہے۔ مَیں اپنی ہمدرد طبیعت کیلئے مشہور ہوں۔ تمہیں مجھ سے کچھ سیکھنا چاہئے۔ اب جبکہ تمہارے پاس موقع ہے، تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ مَیں ایک عظیم اور شاندار راکٹ ہوں اور شہزادہ شہزادی مجھے دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں۔ تمہیں یہ سب بالکل نہیں معلوم ہوگا کیونکہ تم دیہاتی ہو۔‘‘ 
 ’’اس سے بات کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔‘‘ پاس اڑتی مکھی نے کہا۔ ’’وہ جاچکا ہے۔‘‘ 
 ’’ٹھیک ہے، یہ اس کا نقصان ہے، میرا نہیں،‘‘ راکٹ نے جواب دیا۔ ’’کوئی توجہ دے یا نہ دے۔ مجھے اپنی ہی باتیں سننا پسند ہے۔ اس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔ مَیں اکثر اپنے آپ سے لمبی لمبی گفتگو کرتا ہوں۔‘‘ مکھی نے اسے نظر انداز کردیا اور اُڑ گئی۔ 
 ’’اس کا یہاں نہ ٹھہرنا کتنا احمقانہ ہے!‘‘ راکٹ نے غصے سے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اسے اپنے سے بہتر دماغ کبھی نہیں ملا ہوگا۔‘‘ کچھ دیر بعد ایک بڑی سفید بطخ تیر کر اس کے پاس آئی۔ ’’تمہاری شکل کتنی عجیب ہے! کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم ایسے ہی پیدا ہوئے ہو یا یہ کسی حادثے کا نتیجہ ہے؟‘‘
 راکٹ نے جواب دیا، ’’یہ واضح ہے کہ تم اسی تالاب کی باسی ہو ورنہ تمہیں معلوم ہوتا کہ مَیں کون ہوں۔ مَیں تمہاری لاعلمی کو معاف کرتا ہوں۔ دوسروں سے اپنے آپ کی طرح قابل ذکر ہونے کی توقع رکھنا غیر منصفانہ ہے۔ تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ مَیں آسمان میں اُڑ سکتا ہوں، اور سنہری بارش کرسکتا ہوں۔‘‘
 ’’مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔‘‘ بطخ نے کہا، ’’اور یہ کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔ اگر تم بیل کی طرح کھیتوں میں ہل چلا سکتے، یا گھوڑے کی طرح گاڑی کھینچ سکتے، یا کتے کی طرح بھیڑوں کی حفاظت کر سکتے تو کوئی بات ہوتی۔‘‘ 
 ’’مَیں ایک بہترین مخلوق ہوں۔‘‘ راکٹ نے انتہائی متکبرانہ لہجے میں کہا، ’’اور تم نچلے طبقے سے ہو۔ میرے عہدے والا شخص یہ کام نہیں کرتا۔ محنت صرف وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کرنے کیلئے کچھ اور نہیں ہوتا۔‘‘’’ٹھیک ہے۔‘‘ پُرامن مزاجی والی بطخ نے کہا۔ ’’ہر ایک کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم یہاں سکون سے رہ سکوگے۔‘‘ 
 ’’اوہ!‘‘ راکٹ نے کہا۔ ’’مَیں یہاں محض ایک مہمان ہوں، ایک معزز مہمان۔ یہ ایک خراب جگہ ہے جہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ‘‘
 بطخ نے جواب دیا، ’’دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جن میں اصلاح کی ضرورت ہے لیکن ہماری بات کوئی نہیں سنتا۔ مَیں گھریلو زندگی میں خوش ہوں۔‘‘  
  ’’مَیں عوامی زندگی کیلئے بنایا گیا ہوں،‘‘ راکٹ نے کہا، ’’میری اڑان بہت بلند ہے۔ مَیں گھریلو زندگی نہیں گزار سکتا۔‘‘’’مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بطخ دوسری طرف نکل گئی۔ 
 ’’واپس آؤ! ‘‘ راکٹ چیخا، ’’مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔‘‘ لیکن بطخ نے کوئی توجہ نہیں دی۔ 
 ’’مجھے خوشی ہے کہ وہ چلی گئی ،‘‘ راکٹ نے اپنے آپ سے کہا، ’’وہ متوسط طبقے کا ذہن رکھتی ہے۔‘‘
 وہ کیچڑ میں تھوڑا سا اور دھنس گیا تھا۔ تبھی اسے کچھ لڑکے ایک کیتلی کے ساتھ تالاب کے کنارے بھاگتے نظر آئے۔ `’’یہ ضرور مجھے لینے کیلئے آرہے ہیں۔‘‘ راکٹ نے کہا، اور باوقار نظر آنے کی کوشش کی۔ لڑکوں میں سے ایک نے کہا، ’’یہ پرانی چھڑی کیسی ہے۔‘‘ اس نے راکٹ کو کھائی سے نکالا۔
 `’’پرانی چھڑی؟‘‘ راکٹ نے کہا، ’’ناممکن! اس نے سنہری چھڑی کہا ہوگا۔‘‘ راکٹ نے خود کلامی کی۔
 ’’اسے آگ میں ڈال دیتے ہیں۔‘‘ دوسرے لڑکے نے کہا، ’’کیتلی کو گرم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘ 
 چنانچہ انہوں نے لکڑیوں کو جمع کیا اور راکٹ کو سب سے اوپر رکھ کر آگ روشن کی۔
 ’’یہ شاندار ہے،‘‘ راکٹ نے کہا، ’’یہ مجھے دن کی روشنی میں اڑائیں گے تاکہ ہر کوئی مجھے دیکھ سکے۔‘‘
 ’’ہم اب تھوڑا آرام کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، اوروہ گھاس پر لیٹ گئے۔
 راکٹ بہت گیلا تھا، اس لئے اسے جلنے میں کافی وقت لگا۔ تاہم، آخر کار آگ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
 ’’اب میں جا رہا ہوں!‘‘ وہ خوشی سے چیخا، اور اس نے خود کو سیدھا کیا۔ ’’مَیں جانتا ہوں کہ مَیں ستاروں سے اوپر، چاند سے اوپر، اور سورج سے بھی اوپر جاؤں گا۔ درحقیقت، میں اتنا اوپر جاؤں گا کہ...‘‘
 ’’فیز! فیز! فیز!‘‘ اور وہ تیزی سے پرواز کرگیا۔
 ’’بہترین!‘‘ اس نے کہا، ’’مَیں ہمیشہ اسی طرح اڑتا رہوں گا۔ مَیں کتنا کامیاب اور شاندار ہوں۔‘‘ 
 لیکن اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کی پرواز کو کسی نے نہیں دیکھا۔پھر اسے لگا کہ وہ اب پھٹنے والا ہے۔ ’’میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا اور ایسا شور مچاؤں گا کہ سال بھر سب میری ہی بات کرتے رہیں گے۔‘‘ اور پھر وہ پھٹ گیا۔ لیکن کسی نے بھی اس کی آواز نہیں سنی، حتیٰ کہ دو چھوٹے لڑکوں نے بھی نہیں کیونکہ وہ سو گئے تھے۔
 بارود جل جانے کے بعد صرف چھڑی رہ گئی جو کھائی کے کنارے چل رہے ایک ہنس پر گرپڑی۔ 
 ’’آسمان سے لاٹھیوں کی بارش ہورہی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ہنس تیزی سے پانی میں اترگیا۔ 
 ’’مجھے معلوم تھا کہ مَیں دنیا میں زبردست سنسنی پیدا کروں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے شاندار اور متکبر راکٹ کی زندگی ختم ہوگئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK