• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنگدل شہزادی

Updated: July 06, 2024, 3:25 PM IST | Shakur Fatemi | Mumbai

اس نے تن کر کہا،’’مَیں ضرور مقابلہ کروں گا اور کسی طرح شہزادی کو اپنا لوں گا۔ مجھے شہزادی چاہئے یا موت۔‘‘ میلانینؔ کے چٹان جیسے مضبوط ارادے کو دیکھ کر شاہ اسکونسؔ مجبور ہوگیا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اگلے وقتوں کی بات ہے کہ ملک آرگونؔ کا شہزادہ میلانینؔ بہادری اور تیر اندازی میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اسے اپنی دیویوں اور دیوتاؤں پر بڑا یقین تھا۔ نڈر اتنا کہ خوفناک جنگلوں میں شکار کیلئے تن تنہا نکل پڑتا۔ شکار کا شوق عادت بن گیا تھا۔ وہ شکار کیلئے نکلتا تو کئی کئی دن باہر رہتا۔ اس کے ساتھ صرف دو شکاری کتّے ہوتے جن کی مدد سے وہ شکار کا پتہ لگا لیتا۔ اس کا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ جس ٹانگ پر چاہتا تاک کر اسی پر تیر مارتا۔
 ایک روز شہزادہ میلانینؔ ہرنوں کا پیچھا کرتے کرتے بہت دور نکل گیا، یہاں تک کہ وہ اپنے ملک کی سرحد پار کرکے دوسرے بادشاہ کی سلطنت میں جا پہنچا۔ دھوپ قدرے تیز تھی۔ گھوڑا تھک چکا تھا اس لئے وہ ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر سستانے کھڑا ہوگیا۔ شکاری کتّے بھی ہانپتے ہانپتے آپہنچے۔ اپنے آپ کو اجنبی حکومت میں پا کر وہ چاروں طرف دور دور تک دیکھنے لگا۔ قریب ہی اس کو شاہ اسکونس کا شہر نظر آنے لگا۔ جس کی عمارتیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ ساتھ ہی اس نے دیکھا کہ شہر سے باہر ایک بڑے میدان کی طرف لوگ جا رہے ہیں.... شہزادے کا شوق ہوا کہ دیکھے یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں اور اسے پیاس بھی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے گھوڑے کو اس میدان کی طرف بڑھایا۔
 شہزادے نے میدان کے قریب کی جھیل سے پانی پیا۔ اور پھر میدان کی طرف بڑھا جہاں لوگ سیکڑوں کی تعداد میں جمع ہورہے تھے۔ میدان کے ایک طرف پر خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا۔ جس پر شاہ اسکونسؔ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جس میں بادشاہ کے بیٹھنے کیلئے خوبصورت تخت رکھا تھا اور درباریوں کے بیٹھنے کا بھی انتظام تھا۔ شامیانے کے عین سامنے سرخ پتھر کے چبوترے پر دیوی ڈائنا کا بُت کھڑا کیا گیا تھا سب لوگ بادشاہ کی سواری کا انتظار کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:انوکھی سزا

شہزادے نے گھوڑے سے اتر کر ایک آدمی سے پوچھا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ آدمی اجنبی شہزادے کی طرف غور سے دیکھا اور کہا، ’’ہمارے شاہ اسکونسؔ کی بیٹی شہزادی اٹلانٹاؔ نے شرط رکھی ہے کہ وہ اسی نوجوان سے شادی کرے گی جو اسے دوڑ میں ہرا دے گا۔ ورنہ سامنے چبوترے پر کھڑی ہوئی ڈائنا دیوی کے سامنے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ پھر اس آدمی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’اب تک کئی نوجوان شہزادوں نے اس دوڑ میں شہزادی کے ساتھ ہار کر اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ آج ایک شہزادے کے ساتھ مقابلہ ہے....!‘‘ شہزادہ میلانینؔ اس آدمی کی باتیں بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اتنے میں شاہ اسکونسؔ کی سواری آئی۔ شاہ کے دائیں جانب خوبصورت شہزادی اٹلانٹا تھی۔ سب کے بیٹھتے ہی سب لوگ دوڑ کے شروع ہونے کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔
 تھوڑی ہی دیر میں ایک نوجوان شہزادہ آیا اور ساتھ ہی شہزادی اٹلانٹاؔ تیار ہوکر اس کے برابر کھڑی ہوگئی۔ دوڑ شروع ہونے والی تھی۔ بگل کی پہلی آواز پر دونوں تیار ہوگئے اور تیسری اور آخری آواز پر دوڑنے لگے۔ دونوں اپنی پوری طاقت سے بھاگ رہے تھے۔ لوگ دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ وہ شہزادہ جیت جائے اور اٹلانٹاؔ سے شادی کرے اور کسی طرح یہ خونی کھیل ختم ہو جائے۔ دونوں بہت دور تک برابر رہے لیکن آدھا راستہ طے کرنے کے بعد شہزادی اٹلانٹاؔ آگے بڑھ گئی۔ شہزادے کے جیتنے کی امید رکھنے والے لوگوں کے چہرے لٹک گئے۔ اس شہزادے نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پیچھے ہی رہا اور شہزادی جیت گئی۔
 شہزادی کے جیتنے پر کہیں سے خوشیوں کا شور بلند نہیں ہوا اور سارے میدان پر موت کا سناٹا چھا گیا۔ ہارا ہوا شہزادہ رونی صورت بنائے ڈائنا دیوی کے چبوترے کے پاس آیا۔ اور ایک بار اس خوبصورت اور بے رحم شہزادی کی طرف دیکھا اور سَر جھکا دیا۔ اور جلاد کی تلوار نے اس کا سَر تن سے جدا کر دیا۔
 شہزادہ میلانینؔ نے عہد کر لیا کہ کسی طرح یہ خونی کھیل کو بند کر دے گا۔ اور اس مغرور اور سنگدل شہزادی کو نیچا دکھائے گا جس نے بیسیوں بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ میلانینؔ نڈر اور بہادر ہونے کے علاوہ ایک رحم دل انسان بھی تھا جس سے یہ سب دیکھا نہ گیا۔ میلانینؔ شاہ اسکونسؔ کے پاس پہنچا اور مقابلے میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ شاہ اسکونسؔ نے کئی شہزادوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا اب ایک خوبصورت اور کمسن شہزادے کو دیکھ کر رحم آیا۔ اس نے میلانینؔ کو بہتیرا سمجھایا۔ لیکن شہزادہ کہاں ماننے والا تھا۔ وہ موت سے بالکل نہیں ڈرتا تھا۔ اس نے تن کر کہا، ’’مَیں ضرور مقابلہ کروں گا اور کسی طرح شہزادی کو اپنا لوں گا۔ مجھے شہزادی چاہئے یا موت۔‘‘ میلانینؔ کے چٹان جیسے مضبوط ارادے کو دیکھ کر شاہ اسکونسؔ مجبور ہوگیا۔ اس نے کہا کہ، ’’تمہاری مرضی۔ مقابلہ ایک مہینے کے بعد ہوگا۔‘‘
 پھر شہزادے کو قریب بلا کر پیار سے کہا، ’’اس ایک مہینے کے عرصہ میں تم محبّت کی دیوی وینسؔ، سے مدد مانگنا۔ تمہیں وہ اس دوڑ میں کامیاب کرے گی۔‘‘
 شہزادہ میلانینؔ یہ سن کر رخصت ہوا اور ’’وینس‘‘ کے مندر کی طرف چل پڑا.... وینسؔ کا مندر دریائے آرگوسؔ کے کنارے پر بنا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر وینسؔ کے مجسّمے کے سامنے اس نے مدد کی بھیک مانگی۔ خونی کھیل بند کرنے کی التجا کی اور شہزادی اٹلانٹاؔ سے اس کی بے انتہا محبّت کا اظہار کیا۔ اور اپنی محبّت کے سچی ہونے کا یقین دلایا تب وینسؔ نے میلانینؔ کے ہاتھ کو اپنی خوبصورت سونے کی چھڑی سے چھو دیا اور کہا کہ: دوڑ شروع کرنے سے پہلے تم شہزادی کو چھو لینا اور جب بھی وہ دوڑ میں تم سے آگے جانے کی کوشش کرے تم پھر اسے چھونا اس طرح وہ دوڑ نہیں سکے گی۔
 مقابلے کے دن ہزاروں لوگ جمع تھے۔ شہزادی اٹلانٹاؔ تیار ہو کر آگئی۔ لوگوں کیلئے یہ بات عام ہوگئی تھی اور کسی کو شہزادہ میلانینؔ کے جیتنے کی امید نہ تھی۔ بگل کی آواز آئی شہزادہ اور شہزادی دوڑنے کیلئے تیار تھے۔ شہزادے نے تیسرے بگل کی آواز سے پہلے شہزادی کو چھو لیا۔ بگل بجا دونوں نے دوڑنا شروع کیا۔تھوڑی دیر تک دونوں برابر دوڑتے رہے مگر ایکا ایکی شہزادی آگے بڑھ گئی اتنے آگے کہ شہزادہ اس کا کسی طرح بھی پیچھا نہ کرسکتا تھا، شہزادے کو بہت افسوس ہوا کہ دیوی نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے مگر شہزادے نے دیکھا وہ دوڑتے دوڑتے شہزادی کے قریب آگیا ہے شہزادی ایسا لگتا تھا کہ بہت تھک گئی ہے اس سے بالکل چلا نہیں جا رہا تھا۔ شہزادے نے شہزادی کو پھر چھوا اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ شہزادی کے جوڑ جوڑ میں سخت درد تھا وہ باوجود کوشش کے دوڑ نہیں سکتی تھی اور ادھر شہزادہ پوری طاقت سے بھاگ رہا تھا۔ شہزادے نے اپنی دوڑ پوری کرلی اور جیت گیا۔ دوڑ کے ختم ہوتے ہی شہزادی کے جسم کا درد ختم ہوگیا اور وہ بھی بجلی کی تیزی کے ساتھ جیتنے والے نشان تک پہنچ گئی، مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی، شہزادہ دوڑ جیت چکا تھا، شہزادی حیران تھی کہ اسے کیا ہوگیا ہے وہ کیوں نہیں دوڑ سکی۔
 پہلی مرتبہ سارے میدان میں شور بلند ہو رہا تھا تالیاں بج رہی تھیں۔ لوگ خوشی سے اچھل رہے تھے۔ شہزادی اٹلانٹاؔ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اسے اپنی دوڑ پر ناز تھا لیکن وینسؔ کے مدد سے میلانینؔ نے ہرا دیا۔ اور شرط کے مطابق میلانینؔ اور اٹلانٹاؔ کی شادی ہوگئی۔ سنگدل شہزادی اپنے پچھلے کئے پر نادم ہوئی اور توبہ کرلی اور دونوں ہنسی خوشی سے رہنے لگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK