• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: ڈریکولا کا مہمان

Updated: May 11, 2024, 3:18 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب برام اسٹوکر کی شہرہ آفاق کہانی ’’ڈریکولاز گیسٹ‘‘ Dracula`s Guestکا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جب ہم نے سفر کا آغاز کیا تو میونخ (جرمنی کا ایک شہر) پر سورج چمک رہا تھا۔ عین روانگی کے وقت ’’ہیر ڈیلبرک‘‘ بگھی (چار پہیوں کی گھوڑا گاڑی) کے پاس آیا اور خوشگوار سفر کی مبارکباد دینے کے بعد کوچوان سے کہنے لگا کہ ’’آسمان صاف ہے مگر شمال سے آنے والی ہوا کہتی ہے کہ اچانک طوفان آ سکتا ہے۔ اس لئے دیر نہ کرنا۔ رات ہونے سے پہلے لوٹ آنا۔ مجھے یقین ہے کہ تم دیر نہیں کروگے۔ ‘‘ پھر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا، ’’کیونکہ تم جانتے ہو آج کون سی رات ہے۔ ‘‘
 ہیر ڈیلبرک اس ہوٹل کا مالک تھا جس میں مَیں ٹھہرا ہوا تھا۔ مَیں آئرلینڈ سے جرمنی سیاحت کی غرض سے آیا تھا۔ آج گھومنے پھرنے کیلئے پہاڑی کے دوسرے حصے کی طرف جانے کا خواہشمند تھا۔ چند گھنٹوں میں شام ہوجاتی لہٰذا ہوٹل کے مالک نے کوچوان کو ہدایت دینا ضروری خیال کیا۔ جوہان (کوچوان کا نام) نے تیز آواز میں جواب دیا، ’’بالکل۔ مَیں صاحب کو رات ہونے سے پہلے ہی لے کر لوٹ آؤں گا۔ ‘‘ 
 جب ہم شہر سے کافی دور آگئے تو میں نے ایک جگہ بگھی روکنے کیلئے کہا اورجوہان سے پوچھا، ’’آج رات کیا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا ’’والپورجس نائٹ۔ ‘‘
 واضح رہے کہ یہ عیسائیوں کا ایک تہوار ہے جو جرمنی میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ پھر جوہان نے اپنی گھڑی نکالی اور اس کی بھنوئیں تن گئیں۔ وہ کچھ مضطرب نظر آرہا تھا۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ ہمیں جلدی منزل تک پہنچ کر لوٹنا ہوگا۔ مَیں گھوڑا گاڑی میں بیٹھ گیا اور وہ تیزی سے گاڑی چلانے لگا۔ شاید اسے لگ رہا تھا کہ ہم رات ہونے سے پہلے میونخ دوبارہ نہیں پہنچ سکیں گے۔ 
 اب ہم پہاڑی کی چوٹی سے اتر کر دوسری جانب آگئے تھے۔ اطراف میں گھنا جنگل تھا۔ درختوں کے سائے سے سڑک تاریک نظر آرہی تھی۔ میں نے دائیں جانب ایک پتلی سڑک دیکھی جس پر ایک وقت میں صرف ایک ہی گھوڑا گاڑی چل سکتی تھی۔ وہ راستہ آگے کسی وادی کی سمت مڑتا نظر آتا تھا۔ یہ اتنا دلکش لگ رہا تھا کہ مجھے اس راستے پر جانے کی خواہش ہوئی۔ 
 مَیں نے بگھی روکنے کیلئے کہا اور جب مطالبہ کیا کہ جوہان مجھے اس راستے پر لے کر چلے تو وہ مختلف قسم کے بہانے بنانے لگا۔ اس کے انداز نے میرے تجسس کو مزید بڑھا دیا۔ میں نے اس سے مختلف سوالات پوچھے مگر وہ ہر بار ادھورے جواب دیتا اور اپنی گھڑی دیکھنے لگتا۔ آخر کار میں نے کہا ’’جوہان، میں اس سڑک پر جانا چاہتا ہوں۔ تم میرے ساتھ مت آؤ۔ لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ تم وہاں کیوں نہیں جارہے ہو؟‘‘
 وہ کسی کشمکش میں نظر آیا۔ شاید وہ مجھے حقیقت نہیں بتانا چاہتا تھا۔ وہ کچھ خوفزدہ نظر آرہا تھا۔ اس نے پھر سے کہا، ’’والپورجس نائٹ ہے اس لئے شہر جلدی لوٹنا ہے۔ ‘‘ 
 وہ جرمن زبان میں بات کررہا تھا۔ اسے انگریزی مشکل سے سمجھ میں آرہی تھی اور مجھے جرمن زبان نہیں آتی تھی اس لئے میں نے اس سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دفعتاً گھوڑے بے چین ہو گئے اور ہوا میں کچھ سونگھنے لگے۔ اس پر جوہان کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا اور وہ خوفزدہ انداز میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ مَیں نے جب اس خوف کی وجہ پوچھی تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا ’’دفن کر دیا گیا ہے اُسے یہاں، جس نے خود کو مار ڈالا تھا۔ ‘‘ لیکن پھر بھی مجھے یہ نہیں سمجھا کہ گھوڑے کیوں خوفزدہ ہیں۔ جب ہم بات کر رہے تھے، تب میں نے دور جنگل میں ایک چیخ سنی تھی مگر وہ کافی دور سے آرہی تھی۔ گھوڑے بہت بے چین ہو گئے تھے جنہیں قابو میں کرنے میں جوہان ہلکان ہوا جارہا تھا۔ اس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ وہ کہنے لگا، ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ بھیڑیوں کی آواز ہے۔ ‘‘ جب وہ گھوڑوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا تو آسمان پر تیزی سے سیاہ بادل چھا گئے۔ سورج کی روشنی چھپ گئی، اور ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہمارے اوپر سے گزرتا محسوس ہوا۔ اور چند لمحوں بعد سورج بادلوں کے درمیان سے دوبارہ نکل آیا۔ 
 جوہان افق کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ’’ برف کا طوفان آسکتا ہے۔ ‘‘ اس نے ایک بار پھر اپنی گھڑی کی طرف دیکھا، اور لگام کو مضبوطی سے پکڑ کر گھوڑوں کو آگے لے جانے لگا۔ مَیں نے ضدی انداز میں کہا، ’’مجھے اس سڑک کے بارے میں بتاؤ۔ ‘‘
 اس نے جواب دیا، ’’وہ جگہ ناپاک ہے۔ ‘‘
 ’’وہاں کون رہتا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ 
 ’’وہاں سیکڑوں برسوں سے کوئی نہیں رہتا۔ ‘‘ 
 میرا تجسس بڑھ گیا، ’’مجھے پوری بات بتاؤ۔ ‘‘ 
 اور پھر اس نے جرمن اور انگریزی زبان میں مجھے ایک لمبی کہانی سنائی جسے میں چند سطروں میں بیان کرتا ہوں : سیکڑوں سال پہلے وہاں بہت سے افراد نے بیک وقت خودکشی کرلی تھی۔ زندہ بچ جانے والوں نے ان سب کو دفن کردیا تھا۔ چند گھنٹوں کے بعد زندہ بچ جانے والوں نے مٹی کے نیچے سے عجیب آوازیں سنیں، اور پھر جب قبریں دوبارہ کھولی گئیں تو ان سے انتہائی عجیب اور خوفناک شکلوں والے مرد اور عورتیں باہر آئیں۔ ان کے منہ خون سے سرخ تھے۔ وہ انسانوں پر حملہ کرنے لگے۔ ان کے نوکیلے دانت گردنوں میں داخل ہوتے اور انسان چند سیکنڈوں میں نیلا پڑجاتا۔ زندہ بچ جانے والے افراد گاؤں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ جو قبروں سے باہر نکلے، وہ ویمپائر بن چکے تھے۔ ‘‘
 ’’تم ڈرپوک ہو۔ تم واپس جاؤ۔ مَیں پیدل لوٹ آؤں گا۔ ‘‘ میں نے میونخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 
 گھوڑے اب پہلے سے زیادہ بے چین تھے، اور جوہان انہیں قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مجھ سے التجا کر رہا تھا کہ میں کوئی بیوقوفی نہ کروں۔ مجھے اس پر ترس آیا۔ مگر میں نے اس کی ایک نہ سنی۔ وہ مایوسی کے عالم میں میونخ کی طرف مڑگیا۔ 
 مَیں وہی کھڑا ہوکر جوہان کو پہاڑی کے قدرے اونچے حصے کی طرف بڑھتا ہوا دیکھنے لگا۔ پھر مجھے چوٹی کی طرف ایک لمبا اور دبلا آدمی نظر آیا۔ جب وہ گھوڑوں کے قریب پہنچا تو وہ اچھلنے اور لاتیں مارنے لگے، پھر دہشت سے چیخنے لگے۔ وہ پاگلوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔ اور پھر وہ لمبا دبلا آدمی، جوہان اور گھوڑے سبھی میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ 
 اس واقعہ کا میرے سخت دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں چھوٹی سڑک سے وادی کی طرف جانے لگا۔ یہ وہی سڑک تھی جس پر جانے سے جوہان نے اعتراض کیا تھا۔ مَیں نے وقت اور فاصلے کی پروا کئے بغیر اپنے قدم بڑھا دیئے۔ یہ جگہ ویران تھی۔ ہوا ٹھنڈی تھی اور بادلوں کے ٹکڑے آس پاس تیرتے محسوس ہورہے تھے۔ وقفے وقفے سے ایک پراسرار چیخ سنائی دیتی تھی جسے جوہان نے بھیڑیوں کی چیخ قرار دیا تھا۔ 
 وادی میں غیرآباد گاؤں کو دیکھنے کی جستجو میں مَیں نے کافی فاصلہ طے کرلیا تھا۔ پھر میں ایک وسیع و عریض حصے میں آگیا، جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ چھوٹی سی پتلی سڑک گھنے درختوں میں غائب ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ اچانک ٹھنڈی ہوا چہرے سے ٹکرائی اور برف گرنے لگی۔ اپنے آپ کو برف سے محفوظ رکھنے کیلئے مَیں سامنے موجود ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سے ایک کے سائے میں کھڑا ہوگیا۔ آسمان سیاہ بادلوں سے گھرتا جارہا تھا اور برفباری تیز ہوتی جارہی تھی۔ چند منٹوں میں میرے آس پاس چمکتا ہوا سفید قالین بچھ گیا۔ 
 مَیں سوچنے لگا کہ موسم مزید خراب ہونے سے پہلے مجھے یہاں سے نکل جانا چاہئے، مگر بادلوں کی بھیڑ اور تیز گرتی برف میں مَیں راستہ بھول چکا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ جس طرف قدم بڑھاتا، ایسا محسوس ہوتا اسی جگہ دوبارہ آگیا ہوں۔ اب برف موٹی ہوگئی تھی اور سامنے نظر آنے والی چیزیں بالکل دھندلا گئی تھیں۔ بجلیاں چمکنے لگیں اور ان کی روشنیوں میں مَیں نے صنوبر کے درختوں کو سفید برف میں ڈھکا پایا۔ 
 مَیں تیزی سے چلتا ہوا درختوں کے سائے میں آگیا۔ سورج غروب ہوچکا تھا۔ بظاہر طوفان ٹلتا محسوس ہورہا تھا۔ مَیں اس کے تھمنے کا انتظار کرنے لگا۔ ایسے لمحات میں بھیڑیوں کی آواز عجیب سی محسوس ہورہی تھی۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پھر بادل ہٹنے لگے اور چاند کی کرنیں پھیلنے لگیں۔ پورا چاند نکل آیا اور آس پاس کے مناظر قدرے روشن ہوگئے۔ پھر میں درختوں کے سائے سے نکل آیا اور غیر آباد گاؤں کے مکانوں کو دیکھنے لگا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ اس قدر طوفانی رات میں اگر کسی مکان میں پناہ لینے کا موقع مل جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی لئے میں کھنڈرات کے درمیان بھٹکنے لگا۔ پھر مجھے ایک گلی نظر آئی جو کسی عمارت میں جارہی تھی۔ مَیں جیسے ہی گلی کے سرے پر پہنچا بادلو ں نے چاند کو چھپالیا اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ میں تاریک گلی میں چلتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا۔ ہوامزید ٹھنڈی ہوگئی کیونکہ مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی لیکن پناہ کی امید میں مَیں آگے بڑھتا رہا۔ 
 پھر مَیں رُک گیا کیونکہ اچانک خاموشی چھا گئی۔ چاند پھر بادلوں سے نکل آیا اور میں نے چاندنی میں دیکھا کہ مَیں ایک قبرستان میں ہوں۔ سامنے سنگ مرمر کی ایک بہت بڑی قبر برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ کتوں اور بھیڑیوں کی چیخیں پھر سے سنائی دینے لگیں۔ کسی قسم کے سحر میں مبتلا ہو کر میں قبر کے قریب پہنچا اور کتبہ پڑھنے لگا جس پر درج تھا، ’’کاؤنٹیس ڈولنگن آف گراٹز ان اسٹیریہ نے ۱۸۰۱ء میں موت کی تلاش کی اور پھر اسے پالیا۔ ‘‘ مقبرے کے پچھلے حصے پر بڑے بڑے روسی حروف میں کندہ تھا:’’موت تیزی سے سفر کرتی ہے۔ ‘‘ یہ سب اتنا عجیب اور غیر معمولی تھا کہ اس نے مجھے الجھا دیا۔ مَیں نے سوچا کہ جوہان کا مشورہ مان لینا چاہئے تھا۔ پھر یاد آیا کہ آج ’’والپورجس نائٹ‘‘ ہے۔ 
عیسائیوں کا ماننا ہے کہ یہ وہ رات ہے جس میں شیطان بہت طاقتور ہوگیا تھا۔ اس نے جادوگروں اور جادوگرنیوں کو قبریں کھولنے کا حکم دیا تھا اور پھر سبھی نے دیکھا کہ شیطان نے اپنی ناپاک قوتوں سے مردوں کو زندہ کردیا۔ یہ مردے انسان تو نہیں البتہ ویمپائر بن گئے تھے جن کی غذا انسانی خون تھا۔ 
 یہ گاؤں صدیوں پہلے آباد تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں اب صرف قبریں تھیں اور مَیں اکیلا زندہ انسان تھا۔ طوفان کے دوبارہ آنے کے امکانات تھے۔ مَیں حد درجہ خوفزدہ ہوچکا تھا۔ پھر اولے پڑنے لگے۔ زمین لرزنے لگی۔ بادل گرجنے لگے۔ اولوں سے بچنے کیلئے میں مقبرے کے بڑے دروازے کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ میں نے دروازے سے ٹیک لگایا ہی تھا کہ وہ کھل گیا۔ اس بے رحم طوفان سے بچنے کیلئے مَیں قبر میں پناہ لینے کیلئے تیار ہوگیا۔ مَیں اس میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ بجلی چمکی اور میں نے دیکھا کہ قبر میں گول گال اور سرخ ہونٹوں والی ایک خوبصورت عورت سامنے سورہی ہے۔ پھر ایسا لگا کہ کسی طاقت نے مجھے اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے کیونکہ مجھ پر اولے گرنے لگے تھے۔ اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ میرے آس پاس کوئی چیز اس قدر تیزی سے گردش کررہی ہے کہ مَیں اسے دیکھ نہیں سکتا۔ میں نے قبر کی طرف دیکھا۔ اسی وقت ایک اور بجلی چمکی اور پھر کسی کی چیخ سنائی دی۔ ایسا لگا کہ کسی نے مجھے پکڑ کر قبر کے اندر کھینچ لیا ہو۔ اردگرد بھیڑیوں کی چیخ و پکار گونج رہی تھی۔ آخری نظارہ جو مجھے یاد ہے، وہ یہ کہ میری گردن پر کسی کے دانت تھے اور آس پاس بہت سے لوگ چل پھر رہے تھے۔ 
 تھوڑی دیر کیلئے مجھے کچھ یاد نہیں رہا پھر آہستہ آہستہ میرے حواس لوٹ آئے۔ میرے پاؤں میں شدید درد ہورہا تھا۔ مجھے لگا مَیں ایک مرتبہ پھر بے ہوش ہوگیا ہوں۔ نہ جانے کتنی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے سینے پر کوئی بھاری چیز ہے۔ مجھے سانس لینا دوبھر ہورہا تھا۔ مَیں نے اپنی گردن پر ایک گرم رسی محسوس کی۔ پھر احساس ہوا کہ کوئی بڑا جانور مجھ پر بیٹھا میری گردن چاٹ رہا ہے۔ مَیں اگر حرکت کرتا تو یہ درندہ مجھے چیر پھاڑ کر کھاجاتا اس لئے میں بے سدھ پڑا رہا۔ اپنی پلکوں کو تھوڑا سا کھول کر دیکھا کہ میرے سینے پر ایک بہت بڑا بھیڑیا ہے جس کی آنکھیں شعلوں کی طرح چمک رہی ہیں۔ اس کی گرم سانسیں میرے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ 
 کچھ دیر بعد لوگوں کی آوازیں آنے لگیں جنہیں سنتے ہی بھیڑیا بے چین ہوگیا اور غرانے لگا۔ پھر درختوں کے جھنڈ سے مشعلیں اٹھائے گھڑ سواروں کا ایک دستہ آیا۔ بھیڑیئے نے میری چھاتی سے اٹھ کر قبرستان کی طرف چھلانگ لگائی۔ مَیں نے گھڑ سواروں میں سے ایک کو بھیڑیئے کی طرف گولی چلاتے دیکھا۔ دستہ کے کچھ لوگ میری طرف آئے اور کچھ بھیڑیئے کے پیچھے چلے گئے۔ 
 یہ پولیس کا ایک دستہ تھا۔ دو تین سپاہی میرے پاس آئے اور مجھے زندہ دیکھ کر فوراً اٹھا لیا۔ بھیڑیئے کے پیچھے جانے والے سپاہیوں نے افسر سے کہا کہ وہ بھیڑیئے کو پکڑنے یا نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ پھر وہ مجھے گھوڑے پر سوار کرکے لے جانے لگے۔ اس دوران میں دوبارہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ 
 جب آنکھ کھلی تو دن کی روشنی دیکھی۔ افسر سپاہیوں کو کہہ رہا تھا کہ انہوں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہا جائے، سوائے اس کے کہ انہیں میونخ سے چند کلومیٹر دور ایک انگریز اجنبی بے ہوش پڑا ملا ہے۔ سپاہیوں نے اپنی گردن ہلا دی۔ 
 پھر مجھے میرے ہوٹل لے جایا گیا۔ ہیر ڈیلبرک مجھ سے ملنے کیلئے تیزی سے سیڑھیوں سے اترا۔ پھر مجھے پکڑ کر اندر لے گیا۔ مَیں نے تمام سپاہیوں کا شکریہ ادا کیا۔ ان سبھی کی بدولت میں بچ سکا تھا۔ افسر نے کہا کہ ہیر ڈیلبرک کا شکریہ ادا کرو۔ اس نے تمہیں تلاش کرنے کی درخواست کی تھی۔ پھر تمام سپاہی چلے گئے۔ 
 ’’تمہاری گردن پر کیا ہوا ہے؟‘‘ ہیر نے مجھ سے سوال کیا۔ 
 ان مصیبتوں کے دوران مجھے احساس تھا کہ میری گردن پر کچھ ہوا ہے اور پولیس نے میری مرہم پٹی بھی کروائی ہے لیکن میں نے اب تک نہیں دیکھا تھا کہ مجھے کیا ہوا ہے۔ ہیر کے سوال پر میرا ہاتھ غیر اضطراری طور پر میری گردن پر گیا اور درد سے میری کراہ نکل گئی۔ ہیر نے مجھے ایسا کرنے سے روکا۔ 
 ’’لیکن ہیر!‘‘ میں نے پوچھا، ’’پولیس کو کس نے بتایا کہ مَیں غیر آباد گاؤں میں ہوں ؟‘‘
 اس نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، ’’تمہارے یہاں سے نکلتے ہی ایک تار آیا۔ ‘‘ اور پھر اس نے ایک خط میری طرف بڑھایا۔ اس میں لکھا تھا: 
 ’’تمہارا مہمان بہادر ہے اس لئے بے وقوفی بھی کرتا ہے۔ اگر وہ مقررہ وقت پر واپس نہ آئے تو اس کی تلاش میں پولیس کو بھیجو۔ ‘‘
ڈریکولا
 مَیں نے مختصر خط پڑھنے کے بعد ہیر کی طرف تو دیکھا تو وہ کہنے لگا، ’’کچھ دیر بعد جوہان اپنی ٹوٹی پھوٹی بگھی کے ساتھ یہاں پہنچا اور اس نے مجھے پوری بات بتائی۔ اس کی بات سنتے ہی مَیں نے پولیس کو تمہاری تلاش میں روانہ کردیا۔ ‘‘ یہ سننے کے بعد میرا سر چکرانے لگا۔ اگر ہیر مجھے نہ پکڑتا تو مَیں زمین پر گرجاتا۔ یہ سب کچھ بہت عجیب تھا۔ غیر آباد گاؤں کے بارے میں معلوم ہونے سے پہلے ہی ہیر کو خط مل گیا تھا کہ مَیں کچھ کرنے والا ہوں جس کیلئے پولیس کی ضرورت پڑے گی۔ ایسا لگ رہا تھا کوئی نادیدہ قوت میری حفاظت کررہی ہے۔ مگر کون؟ اس اجنبی ملک میں کون میری حفاظت کررہا تھا؟ اس کا جواب مجھے کبھی نہیں ملا۔ n
نوٹ: حقیقت میں ویمپائر نہیں ہوتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں ان کا وجود تسلیم کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ڈریکولا‘‘ وہ ویمپائر ہے جو انسانوں کو ویمپائرز سے بچاتا ہے۔ یہ انسانوں کے سامنے اپنی اصل شکل میں نہیں بلکہ بھیڑیئے اور چمگادڑ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ڈریکولا، بھیڑیئے کی شکل میں مصنف کو بچانے آتا ہے اور اسے ایک خونی ویمپائر کے نرغے سے نکال لاتا ہے۔ وہ قبرستان میں گھنٹوں مصنف کی حفاظت کرتا ہے۔ اس لئے کہانی کا نام ’’ڈریکولا کا مہمان‘‘ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK