امریکی ادیب ایل فرینک باؤم کی شہرہ آفاق کہانی The Man In The Moon کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: February 03, 2025, 5:06 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
امریکی ادیب ایل فرینک باؤم کی شہرہ آفاق کہانی The Man In The Moon کا اُردو ترجمہ۔
مغربی دنیا کے بچوں کو بچپن میں چند مصرعوں کی ایک نظم سنائی جاتی ہے، جس کا مفہوم ہے:
چاند کا باشندہ زمین پر آیا،
نورویچ کا راستہ پوچھا؛
جنوب کی طرف گیا اور
ٹھنڈا دلیہ کھاتے ہی اپنا منہ جلا لیا
کیا آپ نے چاند کے باشندے (The Man In The Moon) کی کہانی سنی ہے؟
چاند پر ایک شخص تنہا رہتا تھا۔ وہ اکثر زمین کی طرف دیکھتا اور انسانوں کی زندگیوں پر رشک کرتا۔ اس کا خیال تھا کہ بات چیت کرنے کیلئے ساتھیوں کا ہونا ایک خوشگوار احساس ہے۔ وہ ایک بڑے سے سیارے میں تنہا رہتا تھا اور اکثر اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا تھا۔
ایک دن چاند کے باشندے نے زمین کی طرف دیکھا تو ایک لمبی ڈاڑھی والے بزرگ ہوا کے دوش پر چاند کے قریب سے گزر رہے تھے۔ باشندے نے پکارا، ’’زمین کا کیا حال ہے؟‘‘
’’سب بہت اچھا ہے۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔
’’وہاں کی بہترین جگہ کون سی ہے؟‘‘ باشندے نے پوچھا۔ ’’اوہ، نورویچ (برطانیہ کا ایک خوبصورت شہر) ایک عمدہ جگہ ہے۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا، ’’اور یہ اپنے مٹر دلیہ کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔‘‘
پھر بوڑھا آگے بڑھ گیا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ باشندہ کسی سوچ میں گم تھا۔
بزرگ کی باتوں نے اسے زمین کی سیر کیلئے پہلے سے زیادہ بے چین کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے اس نے چولہے میں برف کے چند ٹکڑے ڈال دیئے اور سوچنے لگا کہ زمین کا سفر کیسے کیا جائے!
غور کیجئے! چاند پر زمین کے برعکس چیزیں ہوتی ہیں۔ وہاں کے باشندے نے اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے چولہے میں برف کے ٹکڑے ڈالے تھے۔ پینے کے پانی کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اس نے سرخ انگاروں کا سہارا لیا۔ جب پانی ٹھنڈا ہو گیا تو اس نے اپنی ٹوپی، کوٹ اور جوتے اتار دیئے۔
یہ باتیں انسانوں کے لئے عجیب ہیں لیکن چاند کے باشندے کے لئے یہ بالکل عجیب نہیں تھیں کیونکہ وہ ان کا عادی تھا۔
وہ برف کی ٹھنڈی آگ کے پاس بیٹھا رہا اور زمین پر اپنے سفر کے بارے میں سوچتا رہا۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ چاندنی (چاند کی کرنیں) کے ذریعے زمین پر پہنچے گا۔
چنانچہ وہ گھر سے نکلا اور چاند کے کنارے پر کھڑا ہوگیا اور ایک مضبوط کرن تلاش کرنے لگا۔
آخر کار اسے ایک مضبوط کرن مل گئی جو زمین کے ایک خوبصورت حصے کی طرف جارہی تھی۔ وہ اسے پکڑ کر نیچے پھسلنے لگا۔ اس کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ زمین پر پہنچنے سے قبل ایک موڑ ایسا آیا کہ کرن پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور وہ بل کھاتا ہوا دریا میں جاگرا۔
دریا کے ٹھنڈے پانی نے اسے جھلسا دیا۔ وہ کنارے پر تھا اس لئے تیزی سے زمین پر آگیا اور بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔
اس وقت تک صبح ہو چکی تھی۔ سورج کے طلوع ہوتے ہی اس کی گرم شعاعوں نے اسے کچھ ٹھنڈا کیا۔ وہ عجیب و غریب مقامات کو تجسس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ وہ زمین پر کہاں ہے۔
تبھی ایک کسان ڈھیر سارے گھوڑوں کے ساتھ دریا کے کنارے آیا۔ گھوڑے، باشندے کو عجیب معلوم ہورہے تھے۔ پہلے تو وہ خوفزدہ ہو گیا، پھر اس نے ہمت کرکے کسان سے پوچھا، ’’کیا تم مجھے نورویچ کا راستہ بتا سکتے ہو؟‘‘
’’نورویچ؟‘‘ کسان نے حیرت سے دہرایا، ’’جناب! یہ جنوب کی طرف کہیں دور ہے۔‘‘
’’آپ کا شکریہ!‘‘ باشندے نے کہا۔
وہ جنوب کی طرف مڑا اور سڑک کے ساتھ تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ نورویچ ضرور جائے گا اور وہاں کا مشہور مٹر دلیہ ضرور کھائے گا۔ ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد آخر کار وہ ایک قصبے میں پہنچ گیا اور یہاں کے پہلے ہی مکان کے دروازے پر دستک دی۔ اسے سخت بھوک لگی تھی۔
ایک خوش شکل عورت نے دروازہ کھولا۔ چاند کے باشندے نے شائستگی سے پوچھا، ’’کیا یہ نورویچ ہے؟‘‘
’’یقیناً....! یہ نورویچ ہے۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔ ’’کیا مجھے مٹر کا دلیہ مل سکتا ہے؟‘‘ باشندے نے کہا، ’’کیونکہ میں نے سنا ہے کہ آپ دنیا کا سب سے اچھا مٹر دلیہ بناتی ہیں۔‘‘
عورت نے جواب دیا، ’’بالکل جناب! اگر آپ گھر میں آجائیں تو مَیں تمہیں ایک پیالہ پیش کروں گی۔‘‘
چاند کا باشندہ شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے گھر میں داخل ہوگیا۔ خاتون نے پوچھا، ’’آپ کو مٹر دلیہ گرم چاہئے یا ٹھنڈا؟‘‘
’’اوہ، ٹھنڈا!‘‘ باشندے نے جواب دیا، ’’کیونکہ مجھے گرم کھانے سے نفرت ہے۔‘‘
وہ جلد ہی اس کے لئے مٹر دلیہ کا ایک ٹھنڈا پیالہ لے آئی۔ باشندہ اتنا بھوکا تھا کہ اس نے فوراً ایک بڑا چمچہ اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور ایک زبردست چیخ مار کر کمرے میں پاگلوں کی طرح ناچنے لگا۔
وہ دلیہ جو زمین والوں کیلئے ٹھنڈا تھا، اس کیلئے گرم تھا۔ اس کا منہ بری طرح جل گیا اور چھالا نکل آیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ عورت نے پوچھا۔
باشندہ کرب سے چیخا، ’’تمہارا دلیہ اتنا گرم ہے اس نے میرا منہ جلا دیا۔‘‘
’’دلیہ ٹھنڈا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’خود کھاکر دیکھئے!‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔ لہٰذا خاتون نے اسے کھایا تو وہ ٹھنڈا اور خوش ذائقہ تھا۔ چاند کا باشندہ اسے ٹھنڈا دلیہ کھاتے دیکھ کر حیران ہوا۔ اس دلیے سے اس کے منہ میں چھالے پڑگئے تھے مگر خاتون آرام سے دلیہ کھا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوگیا اور گلی میں جتنی تیز دوڑ سکتا تھا، دوڑا۔
نکڑ پر کھڑے پولیس والے نے اسے بھاگتے دیکھا تو شبہ میں گرفتار کر لیا۔ مقدمے کی سماعت کے لئے اسے مجسٹریٹ کے پاس لے جایا گیا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ مجسٹریٹ نے پوچھا۔ ’’میرا کوئی نام نہیں ہے!‘‘ باشندے نے جواب دیا۔ بلاشبہ اس کا کوئی نام نہیں تھا کیونکہ وہ چاند پر رہنے والا واحد شخص تھا۔
مجسٹریٹ نے کہا، ’’تمہارا کوئی تو نام ہوگا، تم کون ہو؟‘‘
’’مَیں چاند کا باشندہ ہوں۔‘‘
’’ یہ بے وقوفی ہے۔‘‘ مجسٹریٹ نے قیدی کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’تم چاند پر نہیں نورویچ میں ہو۔‘‘
’’یہ سچ ہے۔‘‘ باشندے نے جواب دیا۔
’’بہت اچھا۔‘‘ جج نے جواب دیا، ’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’چاند سے۔‘‘
’’اوہ.... تم نے یہ کیسے کیا؟ تم یہاں کیسے پہنچے؟‘‘
’’میں چاند کی ایک مضبوط کرن سے نیچے آیا ہوں۔‘‘ نورویچ نے کہا۔
’’واقعی! ٹھیک ہے۔ تم کس سے بھاگ رہے تھے؟‘‘ مجسٹریٹ نے پوچھا۔
’’ایک عورت نے مجھے ٹھنڈا دلیہ دیا تھا جس سے میرا منہ جل گیا۔‘‘
مجسٹریٹ نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا، ’’یہ شخص پاگل ہے، لہٰذا اسے پاگل خانہ لے جاؤ۔‘‘
مگر ایک بوڑھا ماہر فلکیات وہاں موجود تھا۔ وہ اپنی دوربین سے اکثر چاند کو اور اس کے باشندے کو دیکھتا تھا۔ ماہر فلکیات جانتا تھا کہ جو چیز زمین پر گرم ہے، وہ چاند پر ٹھنڈی ہے اور یہاں جو کچھ ٹھنڈا ہے، وہاں گرم ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک بے گناہ شخص پاگل خانے میں جائے چنانچہ اس نے مجسٹریٹ سے التجا کی کہ چاند نکلنے تک انتظار کیا جائے۔ شام ہوچکی تھی، چاند نکل آیا چنانچہ ماہر فلکیات نے اپنی دوربین سے چاند کی طرف دیکھا لیکن آج اسے چاند کا باشندہ نظر نہیں آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ شخص صحیح کہہ رہا ہے۔
ماہر فلکیات نے مجسٹریٹ سے کہا، ’’یہ سچ کہہ رہا ہے۔ جناب! اپنا منہ دکھایئے۔‘‘
پھر چاند کے باشندے نے اپنا منہ کھولا تو سب نے دیکھا کہ ٹھنڈا دلیہ کھانے کے بعد اس کے منہ میں چھالا پڑگیا تھا۔
اس کے بعد مجسٹریٹ نے چاند کے باشندے سے معافی مانگی۔
’’مَیں چاند پر واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ باشندے نے کہا، ’’کیونکہ مجھے زمین نہیں پسند آئی۔ یہاں رات میں بہت گرمی ہوتی ہے۔‘‘
ماہر فلکیات نے کہا، ’’سرکس میں ایک بڑا غبارہ ہے۔ ہم اسے پھلا کر اس شخص کو اس میں بٹھا کر چاند پر بھیج سکتے ہیں۔‘‘
’’یہ ایک اچھا خیال ہے۔‘‘ مجسٹریٹ نے جواب دیا۔ چنانچہ غبارہ لایا گیا اور اسے پھلا کر باشندے کو اس میں ڈال دیا گیا، اور پھر غبارہ چاند کی سمت اڑنے لگا۔
نورویچ کے لوگ زمین پر کھڑے، گردن اٹھائے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چاند جیسے ہی غبارے کے قریب آیا باشندے نے اس کے کنارے کو پکڑا لیا، اور اگلے ہی لمحے وہ چاند پر تھا۔
چاند کے باشندے نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔