انہوں نےاپنی تحریروں میں۱۹۳۰ء کی دہائی کے معاشرتی پہلوؤں اور خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا۔اس دوران انہیں تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
EPAPER
Updated: February 11, 2025, 8:03 PM IST | Mumabi
انہوں نےاپنی تحریروں میں۱۹۳۰ء کی دہائی کے معاشرتی پہلوؤں اور خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا۔اس دوران انہیں تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
مالتی بیڈیکر(Malati Bedekar) کا پورا نام مالتی وشرام بیڈیکر تھا جو مشہور مراٹھی مصنفہ تھیں۔ وہ مراٹھی ادب کی پہلی ممتاز تانیثی ادیبہ تھیں۔ ان کا قلمی نام وبھاوری شرورکرتھا۔وہ ایک مشہورافسانہ نگار بھی تھیں۔
مالتی بیڈیکر کی پیدائش۱۸؍ مارچ ۱۹۰۵ء کو مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے دیہی علاقے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام اننت راؤ جبکہ والدہ کا نام اندرابائی کھرے تھا۔ اننت راؤ ایک ترقی پسند مفکر اور ماہر تعلیم تھے اور اندرابائی ایک قابل خاتون تھیں جنہوں نے۲۵؍ سال تک ڈیری کے کاروبار کو کامیابی سے سنبھالا۔ مالتی نے بعد میں اپنے والد پر ایک نیم سوانحی ناول’’ کھرے ماسٹر ‘‘لکھا۔ مالتی کی ابتدائی تعلیم گرلز اسکول اور ہاسٹل میں ہوئی تھی جسے مہارشی دھونڈو کیشو کاروے نے شروع کیا تھا۔بعد ازاں انہو ں نے پونے کے مضافات میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اس اسکول میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے۲۰؍ سال کی عمر سے پہلے ویمنز کالج سے گریجویشن مکمل کیا۔ اس کالج کی بنیاد بھی رشی دھونڈو کیشو کاروے نے ڈالی تھی۔ان دونوں اداروں میں کاروے کے ترقی پسند خیالات اور ان کے تدریسی ساتھیوں جیسے ومن ملہار جوشی نے مالتی کی سوچ کو بہت متاثر کیا۔
یہ بھی پڑھئے: سعودی عرب: بچوں کے حج پر جانے پر پابندی، ۱۴؍ ممالک کیلئے ویزا قوانین میں تبدیلی
کالج کی تعلیم کے بعد مالتی بیڈیکر نے پونے کی کنیا شالہ کے تدریسی عملے میں شمولیت اختیار کی جو لڑکیوںکا اسکول تھا۔۱۹۳۶ءمیںانہوں نے ہائی اسکول میں ہیڈ مسٹریس کے اپنےعہدے کو چھوڑ دیا۔ تصنیف کے کاموں، رضاکارانہ سماجی خدمات اور سوشلسٹ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے انہوں نے۱۹۴۰ء میں سرکاری ملازمت چھوڑ دی۔
مالتی بیڈیکر نے۱۹۳۳ء میں وبھاوری شرورکرکے قلمی نام سے ’’کلیانچے نشواس‘‘ (افسانوی مجموعہ) اور ’’ہندولیاوار ‘‘(ناول) لکھا۔ اپنی تحریروںمیں انہوں نے خواتین کے متعدد مسائل پر بات کی۔ ان کا یہ ادبی کام ۱۹۳۰ء کی دہائی کے ہندوستانی معاشرے کیلئے جرأت مندانہ تھا۔افسانوی مجموعے اور ناول کی اشاعت کے بعد ان کے تعلق سے سماج میں شدید غم و غصہ پایا گیا ۔ ۱۹۵۰ ء میں مالتی بیڈیکر نے اپنا مؤثر ناول ’’بالی‘‘ (بڑی) لکھا جو قبائل کی انتہائی سخت روز مرہ زندگی کے بارے میں ان کی تین سال تک اپنے مشاہدات پر مبنی ہے۔ ان کے ناول’’ ویرالے لے سوپنا‘‘میںانہوں نے زبردستی کی شادی کو موضوع سخن بنایا ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات کی کل تعداد ۱۲؍ ہے جن میں افسانے اور ناول شامل ہیں۔
مالتی بیڈیکر۱۹۸۱ءمیں آکولہ میں منعقدہ آل انڈیا ساہتیہ مراٹھی سمیلن کے صدر کے عہدے کیلئے انتخاب میں کھڑی تھیں لیکن وہ صرف ۷؍ ووٹوں سے ہار گئیں جبکہ ڈانڈیکر مراٹھی سمیلن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔انہوںنےکئی ادبی پروگراموں میں شرکت کی اور صدارت کے فرائض بھی انجام دیئے۔مالتی نےخواتین کے ان موضوعات کے خلاف قلم اٹھایاجنہیں معاشرے میں دبا دیا جاتا تھا یا ان مسائل کے خلاف بولنا توہین یا جرم سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے نہایت بے باکی کے ساتھ اپنے افسانوں اور ناولوں میں ان مسائل کو اجاگر کیا۔ مالتی کے ادبی کریئر میں کئی طرح کے نشیب و فراز آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور کامیاب رہیں۔ ان کی تحریروں سےدیگر خواتین بھی متاثر ہوئیں اور انہوں نے بھی اپنی تخلیقات میں خواتین کے مسائل اور ان کا حل پیش کیا۔مراٹھی مصنفہ مالتی بیڈیکر کا انتقال۷؍ مئی ۲۰۰۱ء کو ۹۶؍ سال کی عمر میں ہوا تھا۔