Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

عیدی

Updated: March 29, 2025, 10:32 AM IST | Ishtiyaque Bachrayuni | Mumbai

رمضان کے پورے روزے رکھنے والے بھی شاید اتنی بے تابی سے چاند کو آسمان کی وسعتوں میں نہ ڈھونڈتے ہوں گے، جتنی بے تابی اور بے چینی سے پرویز، ننھی، چنو، گڈّو اور پپو چاند کی ایک جھلک پانے کے لئے شام سے ہی چھت پر نظر آرہے تھے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

رمضان کے پورے روزے رکھنے والے بھی شاید اتنی بے تابی سے چاند کو آسمان کی وسعتوں میں نہ ڈھونڈتے ہوں گے، جتنی بے تابی اور بے چینی سے پرویز، ننھی، چنو، گڈّو اور پپو چاند کی ایک جھلک پانے کے لئے شام سے ہی چھت پر نظر آرہے تھے۔
 چاند اُنتیس کا ہی ہوگیا۔ ڈھول نقارے پیٹے جا رہے تھے۔ گولے چھوٹ رہے تھے۔ سائرن بج بج کر کل ہونے والی عید کی خوشخبری سنا رہے تھے۔
 شیشے کی الماری میں چمچاتا ہوا کیرم بورڈ دیکھ کر پرویز مچل ہی تو اُٹھا تھا۔ چکنی چمکتی ہوئی چھوٹی چھوٹی سی سفید اور کالی گوٹیں اور بیر بہوٹی کی طرح خوبصورت لال لال سی کوئین آج بھی اسے یاد تھیں۔ اس کے ضد کرنے پر امی نے اسے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ عید قریب ہے، اگر کیرم لینا ہی ہے تو اپنی عیدی سے خرید لینا.... اور وہ بڑی بے تابی سے عید کا انتظار کرتا رہا تھا تاکہ عیدی کے پیسوں سے کیرم بورڈ خرید سکے۔

 آج وہ دن آن پہنچا تھا.... اسے دگنی خوشی تھی، عید کی عیدی کی اور عیدی سے اپنی آرزو پوری کرنے کی.... باہر سڑکوں اور گلیوں میں بڑی گہماگہمی تھی۔ نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے عید ملنے آتے جاتے رہے سارا دن ملنے ملانے اور طرح طرح کے پکوان کھانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ موہن، اعجاز، سہیل، نریندر سب ہی پرویز سے گلنے ملنے اور اُسے عید کی مبارکباد دینے آئے مگر کرن کیوں نہیں آیا؟ وہ تو اس کا سب سے گہرا دوست تھا۔
 پرویز نے سوچا، ’’پڑھنے میں لگا ہوا، آخر ایسا بھی کیا پڑھنا کہ ایسے مبارک موقع پر بھی دو چار منٹ نہ نکال سکے۔ پچھلے سال کسر ہی کیا رہ گئی تھی؟ اگر چار نمبر کرن کے اور آجاتے تو میری فرسٹ پوزیشن گئی تھی۔‘‘ کرن کا اور پرویز کا ہر سال ہی تو مقابلہ رہتا تھا۔
 وہ ان ہی خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں نے آکر اسے گھیر لیا۔
 ’’بھیّا کیرم بورڈ نہیں لاؤ گے کیا؟ شام ہوگئی، تم نے شام کو ہی لانے کو تو کہا تھا؟‘‘
’’ہاں ہاں جاتا ہوں۔‘‘ وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔ اس نے سوچا چلو کرن سے بھی ملنا ہوجائے گا۔ وہ اس کے نہ آنے کی وجہ بھی دریافت کرے گا۔
 اسے عیدی میں دس روپے ملے تھے۔
’’لاؤ بھئی اپنے اپنے پیسے نکالو، ۱۰؍ روپے میرے پاس ہیں، پچیس کا کیرم آرہا ہے۔‘‘
 بچوں نے خوشی خوشی اپنی اپنی عیدی کے پیسے اس کے حوالے کر دیئے۔
چاچا چاچی کو نمستے کرتے ہوئے پرویز تیزی سے کرن کے کمرے میں جا دھمکا۔
 ’’یہاں منہ چھپائے بیٹھے ہو! کیوں کیا پڑھتے پڑھتے تھک گئے؟‘‘ پرویز طنزیہ انداز میں بولا۔
کرن چپ رہا۔
 اب بولتے کیوں نہیں؟ کیا دوست کے لئے آج عید کے موقع پر ۲؍ منٹ بھی نہیں نکال سکتے تھے.... یہی ہے تمہاری دوستی؟ یار آخر ایسا بھی کیا پڑھنا؟‘‘
 کرن نے اُداس نظروں سے اُسے دیکھا۔
 ’’بولو نا اب استاد۔ بناؤ کوئی اچھا سا بہانہ.... بہانے بنانے میں تو تم استاد ہو۔‘‘
کرن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے.... وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا:
 ’’پرویز اب اور زیادہ شرمندہ نہ کرو۔‘‘
’’آخر بتاؤ نا کیا بات ہوئی؟‘‘ اس کے آنسو دیکھ کر پرویز گھبرا گیا۔
’’کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ کرن آنسو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔
 ’’بولو نا۔ کچھ نہ کچھ بات تو ہے، جس کی وجہ سے تم اس قدر دکھی ہو۔‘‘ پرویز ضد کرتے ہوئے بولا۔
 کرن مجبور ہو کر بولا، ’’پرویز میں اس بار امتحان میں نہ بیٹھ سکوں گا، میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں، کل فیس دینے کی آخری تاریخ ہے۔ پتاجی کو تم جانتے ہی ہو بیمار رہتے ہیں۔ اس بار ان کو کل دس بارہ دن کی تنخواہ ملی تھی۔ ماما جی کے پاس سے منی آرڈر آنے کی امید تھی۔ اب تک ان کے پاس سے بھی پیسے نہیں آئے ہیں۔ کوشش کے باوجود پتاجی کل دس روپے دے پائے ہیں۔ اسی لئے میں بہت زیادہ پریشان ہوں۔ ساری کی کرائی محنت پر پانی پھر گیا.... اسی وجہ سے میں تمہارے گھر بھی نہ جا سکا، بے کار اپنی پریشانی سے تم لوگوں کو بھی اداس کرتا۔‘‘ کرن کے آنسو پھر بہہ نکلے۔
 کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔
اُداس کرن.... کرن کی محنت.... امتحان.... نتیجہ.... کیرم بورڈ.... چمکتی ہوئی گوٹیں.... خوبصورت بیر بہوٹی کی طرح لال لال کوئین.... پچیس روپیہ.... دس روپیہ.... قربانی.... امی.... انتظار کرتے ہوئے چھوٹے بہن بھائی.... ان سوچوں سے پرویز کا سر چکرا گیا۔
 پھر پرویز نے پندرہ روپیہ چٹائی پر رکھ دیئے۔
’’اُف! اتنی سی بات! نرے بدھو ہو تم تو کرن! آخر اس میں اس قدر پریشان ہونے کی کیا بات تھی؟ مجھ سے ہی کہہ دیا ہوتا۔ دوست اگر دوست کے کام نہ آتے تو وہ دوستی ہی کیا؟ یہ رکھو روپے۔ دس روپے اپنے پاس سے ڈال کر کل فیس جمع کر دینا میرے یار۔‘‘
’’نہیں نہیں پرویز، نہ جانے یہ روپے تم کس کام سے لائے ہوگے۔ تمہاری امی نے کچھ منگایا ہوگا۔ تم انہیں اپنے پاس ہی رکھ لو۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتے ہو؟ یہ پیسے تو میرے ہیں۔ آج مجھے عیدی میں ملے تھے۔ کام کے اگر ہیں بھی تو کیا فیس جمع کرنا ضروری کام نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں پرویز زیادہ مجبور نہ کرو۔‘‘ کرن بولا۔
’’آخر یہ جھجھک کیسی؟ اس قدر غیرت کیوں برتتے ہو۔ رکھ لو انہیں اپنے پاس، کل فیس جمع کرا دینا۔‘‘ پرویز اُسے ڈانٹا۔
 کرن مسکرا اٹھا.... دونوں دوست مسکرا اُٹھے۔
بھیّا کو خالی ہاتھ دیکھ کر بچے مچل اُٹھے، ’’کیرم کہاں ہے.... کیرم نہیں لائے؟‘‘
 ایک ہنگامہ کھڑا ہو اٹھا۔
’’کیوں پیسے کہیں کھو آئے کیا؟‘‘ پاس ہی سے امی کی گرج دار آواز نے پرویز کے رہے سہے ہوش اڑا دیئے۔
 پرویز نے ڈرتے ڈرتے ساری بات امی کو کہہ سنائی وہ ہر طرح امی کی ڈانٹ پھٹکار سننے کے لئے تیار تھا۔ کیا ہوا اگر امی اس کی شکایت ڈیڈی سے کر دیں۔ اس کی تھوڑی سی پٹائی ہی تو ہوجائے گی۔
 پتہ نہیں کیوں امی کا غصہ سے لال بھبھوکا چہرہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹھیک ہوتا چلا گیا۔ ان کے چہرے پر خوشی کی چمک آگئی۔ انہوں نے بڑھ کر پرویز کو گلے سے لگا لیا۔
’’میرے بیٹے.... میرے لال تُو تو بڑا ہی اچھا ہے۔ بیٹے دوسروں کی مدد ہی پیسوں کا سب سے اچھا استعمال ہے، دوستی کا دوسرا نام ہی قربانی ہے۔‘‘
 بچے بڑی حیرت سے یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
 امی تیزی سے اندر گئیں.... ’’لو بیٹے لو.... یہ روپے ہیں جاؤ ابھی جا کر کیرم بورڈ لے آؤ۔ اپنی عیدی کے پیسے اپنے پاس ہی رکھو۔‘‘
 امی کی یہ بات سُن کر بچوں کے مرجھائے چہرے ایک بار پھر خوشی سے کھل اُٹھے۔
(ماخوذ: کھلونا، جنوری ۱۹۶۸ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK