Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک خواب

Updated: April 12, 2025, 11:57 AM IST | Shamim Hanafi | Mumbai

ایک رات ایک بڑے میاں نے خواب دیکھا۔ عجیب خواب تھا! کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے دونوں ہاتھ، دونوں پیر، منہ اور سارے دانت بری طرح پیٹ کو ڈانٹ رہے ہیں۔ پیر کہہ رہے تھے، ’’پیٹ رے پیٹ تو موٹا بھی ہے اور عقل کا کھوٹا بھی۔ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا۔ ہم دن بھر چلتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں۔ کھانے پینے کا سامان لاتے ہیں۔ تو بس کھاتا ہے اور چین کی بنسی بجاتا ہے۔ نٹھلا کہیں کا۔‘‘

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایک رات ایک بڑے میاں نے خواب دیکھا۔ عجیب خواب تھا! کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے دونوں ہاتھ، دونوں پیر، منہ اور سارے دانت بری طرح پیٹ کو ڈانٹ رہے ہیں۔ پیر کہہ رہے تھے، ’’پیٹ رے پیٹ تو موٹا بھی ہے اور عقل کا کھوٹا بھی۔ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا۔ ہم دن بھر چلتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں۔ کھانے پینے کا سامان لاتے ہیں۔ تو بس کھاتا ہے اور چین کی بنسی بجاتا ہے۔ نٹھلا کہیں کا۔‘‘
 یہ سُن کر دونوں ہاتھ بولے، ’’ہاں ہاں! پیر ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ اب ہم ہی کو دیکھ لو۔ ہم کتنی محنت کرتے ہیں۔ باغ کی صفائی، گیہوں کی پسائی۔ پھر آگ جلانا، کھانا پکانا، یہ سب ہمارے ذمے۔ اور تُو! سب کچھ چٹ کر جاتا ہے۔ مفت خور!‘‘
منہ، زبان اور دانتوں نے مل کر پیٹ کی ہنسی اُڑائی۔ خوب کھری کھری سنائی۔ کہنے لگے، ’’ہم نہ ہوتے تو کیا تو بازار جاتا، کیا قسم قسم کے پکوان اُڑاتا، ہاتھ پاؤں اپنا کام کر چکتے ہیں تو کھانا ہم چباتے ہیں۔ اس کا مزہ ہم بتاتے ہیں۔ اسے معدے تک ہم پہنچاتے ہیں۔ پیٹ رے پیٹ! تُو ہو ملیامیٹ!‘‘
یہ جھگڑا بہت دیر تک چلتا رہا۔ سبھی پنجے جھاڑ کر پیٹ کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ آخر پیروں نے ایک تجویز پیش کی۔ تجویز یہ تھی کہ ہم سب کے سب پیٹ کے لئے کچھ کرنا دھرنا چھوڑ دیں۔
’’واہ! کیا لاجواب بات سوچی ہے!‘‘ ہاتھ، منہ، زبان اور دانت ایک ساتھ بولے۔
’’میاں پیٹ! اب تمہیں پتہ چلے گا کہ کاہلی کی سزا کیا ہوتی ہے۔‘‘
پیٹ بے چارہ چپ چاپ سب کی سنتا رہا۔ غصے میں بھنتا رہا۔ اس نے کسی کو کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ سچ مچ بہت موٹا تھا اور دیکھنے میں بڑا کاہل اور آرام پسند نظر آتا تھا۔
اب پیروں نے بازار جانا چھوڑ دیا۔ ہاتھوں نے سامان اُٹھانا اور کھانا پکانا چھوڑ دیا۔ منہ نے چپ سادھ لی۔ دانتوں نے کھانا چبانا چھوڑ دیا۔ جب یہ سب چھوٗٹ گیا تو زبان نے بھی چیزوں کا ذائقہ بتانا چھوڑ دیا۔
اب بڑے میاں خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ صبح ہوچکی ہے۔ اپنی عادت کے مطابق انہوں نے بستر سے اُٹھنا چاہا مگر اُٹھتے تو تب جب سچ مچ جاگ چکے ہوتے۔ وہ تو بس خواب میں جاگے تھے۔ اُٹھنا چاہا تو لگا پاؤں بے جان ہوکر رہ گئے ہیں۔ پھر ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تو ہاتھوں نے بھی کوئی حرکت نہ کی۔ نہ منہ کھول سکے، نہ زبان سے کچھ بول سکے۔ یوں لگتا تھا جیسے بیمار پڑ گئے ہوں۔
خواب اسی طرح جاری رہا۔ کئی روز تک بڑے میاں اسی طرح پڑے رہے۔ دھیرے دھیرے ان کی طاقت جواب دیتی گئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں! کہاں تو ہاتھ، پاؤں، منہ، زبان، دانت، جب دیکھو پیٹ کو جلی کٹی سناتے تھے اور بے چارہ پیٹ سب کی سنتا رہتا تھا۔ وہ کچھ نہ کہتا۔ کہتا بھی کیا! اور اب یہ حال تھا کہ کسی میں بھی کچھ کہنے کی سکت نہ رہ گئی تھی۔
 پھر بڑے میاں کیا دیکھتے ہیں کہ مسلسل فاقہ کشی کی وجہ سے ان کا بدن سوکھ گیا ہے۔ کھال لٹک گئی ہے۔ رگیں اینٹھ گئی ہیں۔ جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ دُعا کی گھڑی ہے۔
اب ہاتھ، پاؤں، منہ، زبان، دانت اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ پیٹ سے لڑ بھی نہیں سکتے۔ خود کو حرکت بھی دینا چاہیں تو نہیں دے سکتے۔ پیٹ بھی پچک گیا ہے، بے جان سا پڑا ہے۔
اتنے میں بڑے میاں کے کانوں سے ایک کمزور سی آواز ٹکرائی۔ ان کا ایک پیر کہہ رہا تھا، ’’اے دوستو! ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کہ ہم سے بڑی بھول ہوئی۔ ہمارے پیٹ ہی نے اپنی رہی سہی طاقت کے بل پر ہمیں اب تک زندہ رکھا۔‘‘
یہ سُن کر پیٹ بڑی اداسی کے ساتھ مسکرایا۔ پھر اس کے سننے میں یہ آیا کہ ہاتھ، پیر، منہ، زبان، دانت ایک آواز ہوکر کہہ رہے ہیں، ’’آؤ! ہم سب آج سے پھر اپنا اپنا کام شروع کر دیں۔‘‘ اس آواز کے ساتھ ہی بڑے میاں کی آنکھ کھل گئی۔
جاگ کر انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاؤں چل سکتے ہیں۔ ہاتھ بوجھ اُٹھا سکتے ہیں۔ منہ کھل سکتا ہے۔ زبان چل سکتی ہے۔ دانت کھانے کا نوالہ چبا سکتے ہیں۔ وہ بالکل بھلے چنگے ہیں!
ناشتہ سامنے آیا تو انہوں نے اپنا خواب یاد کیا۔ اپنے آپ سے بولے، ہمارے جسم کے ہر حصے کو دوسرے حصوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ سب مل جل کر ہی کوئی کام کرسکتے ہیں۔ ہاتھ، پاؤں، منہ، زبان، دانت اور پیٹ، جی ہاں! پیٹ بھی.... ان میں کوئی کسی کا دشمن نہیں۔ اگر ایک کام کرنا بند کر دے تو دوسروں کا کام بگڑ جائے گا۔ سب کے سب بیمار پڑ جائیں گے۔ سب اپنا فرض پہچانیں، کسی کو خود سے کمتر نہ جانیں۔ اس سے زندگی کی گاڑی صحت اور سکون کے راستے پر چل سکے گی۔ آپس میں لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا تو گاڑی رک جائیگی۔ یہ سوچ کر بڑے میاں اپنے خواب پر خوب زور سے ہنسے۔ پھر مزے لے لے کر ناشتہ کرنے لگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK