• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہماری مانگیں

Updated: October 26, 2024, 11:53 AM IST | Sheen Alif | Mumbai

’’نہیں۔ نہیں، مَیں بھی اسٹرائیک کرونگی۔ آزاد ی کی بھوک غلامی کی روٹی سے اچھی ہے۔‘‘ آج صبح ہی عفت نے اپنی کتاب میں یہ جملہ پڑھا تھا۔ ’’یہ ہوئی نا بہادری کی بات۔‘‘

Photo: INN
تصویر: آئی این این

’’ممی، پاپا کا یہ ظلم اب اور برداشت نہیں ہوتا....‘‘ گیارہ سالہ شفو نے تپائی سے دودھ کا خالی گلاس اٹھایا اور غصے میں زمین پر دے مارا۔ پھر خود ہی سہم کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کہیں کسی نے دیکھ تو نہیں لیا۔’’شش!‘‘ عفت نے اُس کے بازو میں ہلکا سا گھونسا مارا، ’’بے قوف، تم ضرور پھنسواؤ گے۔ آواز سن کر کوئی جاگ گیا تو؟‘‘
عمران جو بڑے ہی بزرگانہ انداز میں بیٹھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا، سب سے آخر میں بولا، ’’بچّے آخر بچّے ہی ہوتے ہیں۔ ذرا بھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ اب دیکھو، ہم نے سب سے چھپ کر یہ میٹنگ بلائی ہے اور پھر ہم ہی شور مچا کر سب کو بلائیں تو کیا یہ عقلمندی ہوگی؟‘‘
شفو کو اپنی غلطی کا احساس تھا۔ وہ سنبھل کر بیٹھ گیا.... عمران نے پھر کہنا شروع کیا، ’’ہاں تو یہ میٹنگ ہم نے اس لئے بلائی ہے کہ آج ہم ممی، پاپا، بھائی جان اور باجی کے خلاف کوئی ایسی تجویز سوچیں گے کہ یہ بڑے ہم بچّوں کو اب اور نہ ستا سکیں۔ آج ہمیں کچھ نہ کچھ فیصلہ کرنا ہے اور ان بڑوں کو بتا دینا ہے کہ ہم چھوٹے بھی اپنا کچھ حق رکھتے ہیں۔‘‘
عمران کی عمر مشکل سے چودہ برس کی ہوگی۔ عفت اور شفو اس سے بھی چھوٹے تھے۔ اسلئے اُن کے سامنے وہ خود کو بہت ہی بڑا سمجھ رہا تھا۔ آج کی میٹنگ بھی عمران نے ہی بلائی تھی اور اس وقت وہ بستر پر کئی تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ عفت اور شفو بڑی ہی معصومیت سے اس کا منہ تک رہے تھے۔ جیسے واقعی وہ ان کا نجات دہندہ ہو۔
رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ اگست کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ جاتی گرمی تھی اور آتی برسات۔ دھوپ پڑتی تو اتنی سخت کہ آدھی جان نکل جائے اور بارش ہوتی تو اتنی موسلادھار کہ ہر طرف جل تھل ہوجائے۔ ویسے عام طور پر دن بھر آسمان صاف ہی رہتا۔ ادھر سورج مغرب کی طرح جھکا اور کالے کالے بادل اُمڈنے شروع ہوئے۔ تقریباً روز کا یہی معمول تھا۔ رات ہوتے ہوتے پھر بادل چھٹ جاتے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا موسم کو بہت ہی خوشگوار بنا دیتی اور اس وقت گھر والے لمبی تان کر ایسے سوتے کہ صبح کوہی آنکھ کھلتی۔ لیکن بچوں کے کمرے میں تقریباً آدھی رات تک کھلبلی مچی رہتی۔ وہ بستر پڑ پڑے کروٹیں بدلتے رہتے۔ دوپہر کو انہیں اتنی دیر سلا دیا جاتا کہ رات کو نیند ہی نہیں آتی تھی۔ بس وہ بستر پر پڑے نیند کا انتظار کرتے رہتے اور پھر اسی دوران ان کی گفتگو بھی شروع ہوجاتی۔
’’آخر ہم نے کیا جرم کیا ہے جو دوپہر کو ہمیں سونے کیلئے کہا جاتا ہے۔‘‘ عمران نے کہا۔ ’’ہاں بھیّا!‘‘ عفت آہستہ سے بولی، ’’دیکھو نا اُلّوؤں کی طرح ہمیں دن کو سلا دیا جاتا ہے تاکہ رات کو جاگیں۔‘‘ ’’تم بے وقوف ہو۔‘‘ عمران جھنجھلا کر بولتا، ’’دوپہر کو سب بچے کھیلتے ہیں، مگر ممی چاہتی ہیں کہ ہم نہ کھیلیں۔‘‘ ’’جب سب کھیلتے ہیں تو ہم کیوں نہ کھیلیں؟‘‘ شفو بیج میں بولتا۔ ’’تم چپ رہو، بے وقوف!‘‘ عمران کو غصہ آجاتا، ’’یہ سب جا کے ممی سے پوچھو کہ آخر وہ ہمیں کھیلنے کیوں نہیں دیتیں۔‘‘ شفو خاموش ہوجاتا۔ لیکن اس کے کان عمران اور عفت کی باتوں پر ہی لگے رہتے اور پھر بچوں کو کمرہ بھی خاموشی میں ڈوب جاتا اور اس طرح گھر والوں کے خلاف یہ میٹنگ تقریباً ہر رات کو ہوجاتی۔ لیکن معاملہ صرف زبانی رہتا۔ مگر آج کی رات بات کچھ اور تھی۔ آج انہیں ہر حال میں فیصلہ کرنا تھا کہ گھر والوں کی تانا شاہی کے خلاف کیا قدم اٹھایا جائے۔ ’’مَیں نے سوچا ہے کہ ہمیں گھر والوں سے جتنی بھی شکایتیں ہیں، انہیں ایک کاغذ پر لکھ لیا جائے اور کل ڈیڈی کے جاتے ہی اسے ممی کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘ عمران نے کافی دیر سوچ کر کہا، ’’تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟‘‘ ’’بات تو ٹھیک ہے۔‘‘ عفت نے گردن ہلائی، ’’لیکن ڈیڈی کے جانے کے بعد ہم میں سے یہاں رہے گا کون؟ ہم لوگ بھی تو اسکول جا چکے ہوں گے۔‘‘ ’’ہوں۔‘‘ عمران سوچ میں پڑ گیا، ’’خیر کوئی بات نہیں۔ شفو، تم جلد اسکول سے لوٹ آتے ہو۔ یہ کام تم ہی کرو گے۔‘‘ عمران نے تکیے کے نیچے سے کاغذ اور قلم نکال لیا۔ اتنے میں شفو بولا، ’’مگر عمران بھیّا! یہ کاغذ ممی کو دوں گا کس طرح؟‘‘ ’’کس طرح کیا مطلب ہے؟‘‘ عمران نے بناوٹی غصہ دکھایا۔ ’’بات یہ ہے بھیّا!‘‘ شفو بہت زیادہ پریشان تھا، ’’مجھ کو ڈر لگتا ہے۔ پاپا کے آنے پر ممی میری شکایت کر دیں گی اور پھر....‘‘ ’’ارے پگلے۔‘‘ عمران نے سمجھایا، ’’ڈیڈی آفس سے پہلے آتے ہیں یا ہم؟‘‘ ’’تم دونوں۔‘‘ ’’ہاں!‘‘ عمران نے اُسے دلاسہ دینے لگا، ’’ڈیڈی کے آنے سے پہلے تو ہم لوگ آ ہی جاتے ہیں۔ اگر ممی نے ہماری بات نہیں مانی تو ہم آتے ہی اسٹرائیک کر دینگے.... ہڑتال۔ نہ کھائیں نہ پئیں گے نہ پڑھیں گے اور نہ کوئی دوسرا کام کریں گے۔‘‘ ’’مگر شام کو پاپا آئے تو اور زیادہ مار پڑے گی۔‘‘ ’’ارے پگلے۔‘‘ اب عمران کو ہنسی آنے لگی، ’’پاپا بھی آئینگے تو ہم نہیں ڈریں گے۔ کیونکہ وہ ہم کو مار ہی نہیں سکتے۔ بھلا بھوکے پیاسے بچّوں کو کوئی مارتا ہے؟ بس مجبور ہو کر انہیں ہماری باتیں ماننی ہی پڑیں گی۔‘‘ ’’اور اگر انہوں نے بات نہیں مانی تو؟‘‘ شفو بولا۔ ’’تو پھر ہماری اسٹرائیک جاری رہے گی۔ چاہے کتنے ہی دن کیوں نہ بیت جائیں۔ ہم یوں ہی بھوکے پیاسے رہیں گے۔ کھانا پینا، پڑھنا، کھیلنا سب بند۔‘‘ ’’باپ رے باپ!‘‘ اب عفت کی باری تھی، ’’بنا کھائے پئے تو مَیں مر جاؤں گی۔ مجھے تو گیارہ بجے سے ہی بھوک لگنے لگتی ہے۔‘‘ ’’بکواس بند کرو۔ پیٹو کہیں کی۔‘‘ اب کے عمران اتنی زور سے بولا کہ کچھ دیر کیلئے سب ہی چپ ہوگئے۔ غصے میں اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ یہ میٹنگ خفیہ میٹنگ ہے۔ چند لمحوں تک سب اپنی اپنی جگہ یوں ہی دبکے رہے اور اسکے بعد عمران نے پھر کہنا شروع کیا، ’’اگر تم سے بھوکا نہیں رہ جاتا تو کہا کس نے ہے کہ تم بھی ہڑتال کرو۔ جاؤ خوب کھاؤ اور دن بھر غلامی کرو گھر والوں کی۔‘‘ ’’نہیں۔ نہیں، مَیں بھی اسٹرائیک کروں گی۔ آزادی کی بھوک غلامی کی روٹی سے اچھی ہے۔‘‘ آج صبح ہی عفت نے اپنی کتاب میں یہ جملہ پڑھا تھا۔ ’’یہ ہوئی نا بہادری کی بات۔‘‘
عمران خوش ہو کر بولا، ’’اچھا! اب ہم اپنی تجویزیں لکھنا شروع کرتے ہیں۔‘‘ تقریباً پندرہ منٹ کی بحث و تکرار کے بعد عمران نے ایک خط لکھا اور اُسے پڑھ کر سب کو سنانے لگا:
ممی ڈیڈی!
ہمیں بچّہ سمجھ کر سب ستاتے ہیں۔ ہماری کوئی بات بھی نہیں مانی جاتی۔ کمزور سمجھ کر سب رعب جماتے ہیں۔ بھیّا، باجی اور آپ سے ہمیں بہت سی شکایتیں ہیں۔ صبح چھ بجے ہی ہم سب کو زبردستی بستر سے اُٹھا دیا جاتا ہے۔ جبکہ بھیّا آٹھ بجے تک سوتے ہیں۔ مانا کہ ہمارا اسکول آٹھ بجے سے شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن بھیّا کو بھی تو نو بجے باہر جانا ہوتا ہے۔ باجی کا کام بھی بس کھانا پکانا ہے۔ باقی دن تو وہ سہیلیوں کیساتھ گزار دیتی ہیں یا پھر ہمیں ڈانٹتی رہتی ہیں۔
ممی، آپ بھی ہم پر بہت ظلم کرتی ہیں.... جب ہم دوپہر کو اسکول سے لوٹتے ہیں تو کھانے کے بعد ہمیں زبردستی سونے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اتنی دیر تک پڑھنے کے بعد بھی ہمیں کھیلنے نہیں دیا جاتا۔ پھر دوپہر بھر سونے کے بعد ہمیں آدھی رات تک نیند نہیں آتی۔ شام کو جب ہمیں کھیلنے کا وقت ملتا ہے تو کبھی باجی کو، کبھی بھیّا کو اور کبھی آپ کو کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا ہے۔ ہم کھیل بھی نہیں پاتے کہ ماسٹر صاحب آ دھمکتے ہیں اور اس طرح ہمارا سارا دن ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے آج ہم آپ کو یہ خط لکھ رہے ہیں۔ ہمیں آزادی چاہئے۔ ہم اپنا ہر کام اپنی مرضی سے کریں گے۔ اگر آپ نے ہماری باتیں نہ مانیں تو آج ہم دوپہر کے بارہ بجے سے ہڑتال کر دیں گے۔ نہ کھائیں گے نہ پئیں گے، پڑھیں گے اور نہ کوئی دوسرا کام کریں گے۔ ہماری یہ ہڑتال اُس وقت تک جاری رہے گی، جب تک آپ ہماری مانگیں نہ مان لیں۔
آپ کے بچّے: شفو، عفت اور عمران
 کاغذ کو موڑ کر عمران نے بڑی احتیاط سے تکیے کے نیچے دبا دیا۔ کچھ دیر بعد سب گہری نیند میں گم ہوچکے تھے۔
 ’’اب اُٹھ بھی جاؤ۔ سات بج گئے ہیں۔‘‘ ممی نے جب بچوں کو جگایا تو وہ ڈر سے گئے۔ یہ آج سات بجے کس خوشی میں جگایا جا رہا ہے۔ ان کے ذہن میں کل والی میٹنگ کا خیال آیا۔ لیکن خط تو ابھی ممی کو دیا جانے والا تھا تو پھر کیا وجہ تھی کہ ممی نے انہیں چھ بجے کی جگہ سات بجے جگایا۔ ممی چلی گئیں تو سب نے ایک دوسرے کے چٹکیاں بھریں کہ کہیں وہ ایک ساتھ خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ تو حقیقت تھی۔ عمران نے تکیے کے نیچے سے خط نکالا۔ اس کی پشت پر لکھا تھا: ’’ہمیں تمہاری تمام باتیں منظور ہیں۔‘‘
تمہارے ممی پاپا!
’’ہُرّے!‘‘ سب بچّوں نے زور کا نعرہ لگایا اور تیزی سے حمام کی طرف دوڑ پڑے۔ اسکول کا وقت بہت کم رہ گیا تھا۔
گھر کے پچھواڑے ایک چھوٹا سا میدان تھا، جہاں بچّے گیند کھیلا کرتے تھے۔ شفو، عفت اور عمران بھی اکثر وہاں جاتے۔ لیکن انہیں وقت اتنا کم ملا کرتا کہ جی بھر کر کھیل ہی نہیں سکتے تھے۔ ایک گھنٹے کی بساط ہی کیا ہے۔ کھیل کے دوران تو یہ وقفہ اور بھی مختصر ہوجاتا، جیسے بس پندرہ منٹ گزرے ہیں۔ مگر آج انہیں سنہرا موقع ملا تھا۔ انہوں نے سوچا سب سے پہلے آج جی بھر کر گیند کھیلنی چاہئے۔ اسکول سے واپسی پر کھانا کھانے کے بعد سخت گرمی کی پروا کئے بغیر تینوں دوپہر بھر کھیلتے رہے۔ آہستہ آہستہ آسمان بادلوں سے ڈھک گیا اور موسلادھار بارش ہونے لگی۔ کھیل اور بھی پُرلطف ہوگیا۔
تقریباً چھ بجے جب وہ لوگ گھر پہنچے تو بری طرح بھیگے ہوئے تھے۔ ممی نے دوسرے کپڑے اُن کے حوالے کر دیئے۔ کپڑے تبدیل کرکے انہوں نے چائے پی تو دل کچھ آرام کو چاہنے لگا۔ سات بجے ماسٹر صاحب آئے تو وہ بستر پر پڑے خراٹے لے رہے تھے۔
اگلے روز صبح کو ممی نےپھر انہیں جگایا، ’’اُٹھو، سات بج گئے۔‘‘ ’’سات بج گئے؟‘‘ عمران نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ مگر اُسے ایسا لگا جیسا سارا بدن پھوڑے کی طرح دُکھ رہا ہو۔ وہ کرّاہ کر رہ گیا۔ عفت اور شفو بخار میں بے سدھ پڑے تھے۔
عمران نے ایک بار پھر کوشش کی، لیکن کمزوری بہت زیادہ تھی، وہ ہاتھ ہلا کر رہ گیا۔ کچھ دیر بعد بھیّا ڈاکٹر کو بلا لائے۔ پھر بھاگم بھاگ کیمسٹ کے یہاں گئے اور پھر تو وہ دن بھر دوڑتے ہی رہے۔ دودھ، بسکٹ، ہارلکس، اور نہ جانے کتنی چیزیں لا کر دیں انہوں نے۔ باجی اُن کے سرہانے بیٹھی وقفے وقفے پر دوا دیتی رہیں۔ بدن کی مالش کرتی رہیں، سر دباتی رہیں اور ممی رسوئی گھر میں اُن کے لئے کبھی دودھ بناتی، کبھی بارلی تیار کرتیں۔ بچّوں کی تیمارداری میں بڑوں کو اپنا بھی ہوش نہ رہا۔ انہوں نے دن کا کھانا ڈھنگ سے نہ کھایا نہ رات کا۔ ڈیڈی بھی جلد گھر لوٹ آئے۔ وہ بھی بہت پریشان تھے۔ بستر پر لیٹے لیٹے عمران نے دیکھا۔ ممی کی آنکھوں میں بار بار آنسو آجاتے تھے۔ اس کا دل بھی رونے لگا۔ یہ سب کیا دھرا اسی کا تو تھا۔چند دن بعد جب سب تندرست ہوگئے تو عمران نے چپکے سے وہی خط نکالا اور اُس میں ایک سطر کا اور اضافہ کر دیا:’’ممی پاپا! آپ کے بچّے آپ سے معافی مانگ رہے ہیں۔ انہیں معاف کر دیجئے گا۔ یہ ہماری آخری مانگ ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK