Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

پھلوں کی انجمن

Updated: March 22, 2025, 11:10 AM IST | Mumabi

باغ میں پھلوں کی رنگ برنگی بزم سجی تھی۔ مختلف انواع و اقسام کے پھلوں کی خوشبوؤں سے سارا باغ مہک رہا تھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

پھلوں کے اِس اژدہام میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ آج یہاں ایک بہت بڑی انجمن کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد قابل صدر پھل کا انتخاب کرنا تھا۔ آج سے قبل صدور کا انتخاب قرعہ اندازی سے کیا جاتا تھا۔ یہ جلسہ دلچسپی سے پُر ہونے جا رہا تھا کیونکہ اِس منفرد دوڑ میں پہلی بار بڑ ے پھلوں کے شانہ بشانہ چھوٹے پھلوں نے بھی صدارت کی دعوے داری کر رکھی تھی۔ معاملہ آخر کُرسی کا تھا۔ جس کی جیت اُس کی کُرسی اور جس کی کُرسی اُس کی حکومت۔
 باغ کے وسط کے رنگا رنگ ماحول میں آج قوسِ قزح اُتر آئی تھی۔ مشرقی جانب انگور، سنترا، موسمبی، مالٹا اور لیموں اپنی بزم سجائے ہوئے تھے۔ یہ پہلی جماعت تھی جو وقت سے پہلے آ کر اطمینان سے براجمان تھی۔ یہ دیر سے آنے کے قائل نہیں تھے۔ سبز نو خیز ڈالیوں کے بیچ پیلے اور نارنجی رنگوں کی یہ شوخیاں دیکھنے والوں پر قیامت ڈھا رہی تھیں۔ باغ کے دوسری طرف مغربی گوشے میں ناشپاتی، خربوزے اور پپیوں نے کافی جگہ گھیر رکھی تھی۔ یہ سابق صدر کے خاص تھے۔ شمالی حصے میں سیب، انجیر اور اناروں کا میلہ لگا تھا تو جنوب میں امرود، جامن اور بیر دائروں کی شکل میں پھیلے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
 درمیان میں ٹھیک اسٹیج کے سامنے آموں کی سیج سجی تھی۔ ہاپوس، راجا پوری، کیسر، چوسا، ملغوبہ وغیرہ شانِ بے نیازی سے درمیانی حصے میں بیٹھے تھے۔ بی نیلم اور بی رومالی آم نازو انداز لئے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اپنے بزرگان کی دلجوئی میں لگی تھیں۔ شریفہ بی بی داخلی دروازے پر کھڑی انجمن میں آنے والوں کا استقبال کر رہی تھیں۔ کدّو صاحب منتظمین کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اِس انجمن کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مجمع تھا جہاں دُنیا کے مختلف علاقوں سے انواع و اقسام کے پھل آئے ہوئے تھے۔ تغیر پذیری نے ہمیشہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔ اِس لئے آج خوب گہما گہمی تھی۔ اس کے علاوہ دوسری اہم بات یہ تھی کہ صدر کی دوڑ میں شامل پھلوں نے اپنی اہمیت و افادیت کو بذاتِ خود ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ عام لوگوں تک صحیح معلومات پہنچے اور مناسب رسائی ہو۔
 اسٹیج کیا تھا ؟ ایک عالیشان مسند تھی۔ اسٹیج پر ناریل صاحب نے قدم رکھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہوگئے۔ ’’میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں!‘‘ وہ گویا ہوئے،
’’حسین محفل سجی ہے
دلکشی چھا گئی ہے
آپ کیا آئے بزم میں
چہار سو کہکشاں بکھر گئی ہے!‘‘
 واہ واہ! آواز آئی۔
 ’’محترم حضرات! آج ہم یہاں ایک نئے صدر کے انتخاب کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ ہمارے سابق صدر جناب تربوز صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں بہت ہی سلیقے سے کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔ اِس کی ایک مثال یہ عظیم الشان جلسہ بھی ہے۔ چونکہ تربوز صاحب کی میعاد ختم ہوگئی ہے اِس لئے آپ سبھی سے گزارش ہے کہ آپ اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے ذاتی شعور سے اپنا اگلا صدر چنیں۔ میں سب سے پہلے محترمہ موسمبی صاحبہ سے درخواست کروں گا وہ یہاں آئیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں۔‘‘
ہلکے پیلے رنگوں والی نرم مزاج موسمبی خراماں خراماں چلتی ہوئی اسٹیج پر پہنچی اور کہا، ’’میرے معزز ساتھیو! میں شکر گزار ہوں اُن عزیز ہستیوں کی جنہوں نے آج اِس انجمن کا انعقاد کیا اور مجھے اپنی بات کہنے کا یہ سنہرا موقع فراہم کیا۔ دوستو! صدر چاہے جو ہو، ضروری یہ ہے کہ وہ ہمدرد و غمگسار ہو۔ چھوٹوں سے پیار تو بڑوں کی عزت کرے۔ ہماری بھلائی کے لئے کام کرے، ہماری ضرورتوں کا خیال رکھے اور ہماری آنے والی نسلوں کا محافظ و امین بنا رہے۔ میں اپنی بات اِس شعر کے ذریعے ظاہر کرنا چاہوں گی کہ:
طوفاں سے ڈریں گے نہ منجدھار سے ڈریں گے
نا خدا کوئی مل جائے تو سمندر پاٹ لیں گے!‘‘
 مہمانان نے جوش سے تالیاں بجائیں۔ اب باری تھی انناس صاحب کی۔
کانٹے بھرے تاج کے ساتھ انناس صاحب اسٹیج کے عقب سے نمودار ہوئے۔ احتیاط برتنے کے باوجود محترم دیگر ممبران سے ٹکراتے، اُلجھتے سلجھتے مائیک تک پہنچے۔ اپنے ناہموار وجود کو سنبھالنے میں اُنہیں کافی دقت ہو رہی تھی اُکھڑی سانسوں کے درمیان اُنہوں نے کہا، ’’معزز اراکین بزم! میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں بہت قابل ہوں، بہت لائق و فائق ہوں اِس لئے آپ مجھے ہی اپنا صدر بنائیں بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کی قابلیت دیکھنی ہو تو اُسے موقع دینا ہوگا، منتخب کرنا ہوگا۔ اپنا رہنما بنانا ہوگا۔ جب تک میری رسائی آپ تک نہیں ہوگی تب تک میں یہ ثابت نہیں کر سکوں گا کہ میں آپ لوگوں کے لئے کیا کیا کر سکتا ہوں۔ باقی آپ سب خود سمجھدار ہیں۔
پانی کی موج سے نہ پوچھ سمندر کی گہرائی
سر پر کفن باندھ لیتے ہیں ساحل کے دیوانے!‘‘
اتنا کہہ کر انناس صاحب تالیوں کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اُترے۔ پھر ناریل صاحب نے کیلے صاحب کو بلایا۔ مٹیالے ہرے پیلے لبادے میں کیلے صاحب اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ جلد بازی میں اُن کا پاؤں پھسلا اور وہ گر پڑے۔
’’سنبھل کے!‘‘ ایک طرف سے آواز اُٹھی۔ کچھ ہنس پڑے۔ کچھ مدد کیلئے دوڑے۔ کیلے صاحب جلد ہی سنبھل گئے پھر مائیک تھامے اس طرح گویا ہوئے۔
’’حضرات! آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ اب ہم میں اور ہماری قوم میں وہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ ہم صدارت قبول کریں۔‘‘ کسی کونے سے ہنسی کی آواز آئی۔ کسی نے کانا پھوسی کی۔ لیکن خربوزے صاحب کی سرزنش نے خلل بڑھنے نہیں دیا، ’’ ہاں تو حضرات! میں یہ کہہ رہا تھا کہ: نرم روی کا خطاب رکھتے ہیں طبیعت بحال رکھتے ہیں/ ارزاں ہو کر بھی زود انہضام میں مہارت رکھتے ہیں!‘‘ ’’واہ! واہ!‘‘ مجمع میں سے چند نے داد دی۔
’’حضرات! ہم میں سے ایسے کتنے ہیں جنہیں بچے بوڑھے آسانی سے کھا سکتے ہیں۔ نہ چھیلنے میں پریشانی اور نہ کھانے میں زحمت۔ اللہ نے ہمیں رحمت بنا کر بھیجا اور ہم ان شاء اللہ آپ لوگوں کے لئے رحمت ہی بنے رہیں گے اِس لئے آپ مجھے اپنا صدر بنائیں۔‘‘
منتشر تالیوں کے بیچ ناریل صاحب نے چیکو کو مائیک پر آنے کی دعوت دی، چیکو صاحب کب مائیک تک پہنچ گئے کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ خاکی رنگ کے چھوٹے گول مٹول چیکو صاحب کے حوصلے بلند تھے۔ باغ میں اُن کی مسکین آواز گونجی، ’’صاحبان! یوں تو ہم چھوٹے سے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ اپنا اثر رکھتے ہیں۔‘‘
پیچھے سے دو چار انگوٹھے ہوا میں لہرائے۔ جس کے جواب میں چیکو صاحب نے جوش بھرے انداز میں کہا، ’’میرے ہم خیال دوستو! آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیماری میں مبتلا افراد ہمیں کھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا اپنا ذائقہ ہے جو ہمیں اوروں سے منفرد بناتا ہے۔ مٹھاس ایسی کہ منہ میں شہد سا گھل جائے۔ ہماری خوبی یہ بھی ہے کہ ہم آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں نہ آپ کی جیب پر بھاری اور نہ ہی دل پر۔ ہمارے رنگ پر نہ جائیں، ظاہری حسن نظر کا دھوکہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر میں صدر بن گیا تو آپ لوگوں کو سستا صدر مل جائے گا۔‘‘
 باغ میں سیٹیاں بجنے لگیں۔
’’صاحبان! ہمیشہ ایسا صدر چننا چاہئے جس کی رسائی عام لوگوں تک عام ہو۔ یقین کریں میں اُن میں سے ایک ہوں....‘‘ تالیاں بج اُٹھیں۔
چیکو صاحب نے فخریہ انداز میں جاتے جاتے یہ شعر پڑھا:
خوبصورتی بھی دیکھی دلنشینی بھی دیکھی
اک سیاہ تل جو کسی کو حور بنا دیتا ہے
اب انگور صاحبہ کو بلایا گیا۔ انگور صاحبہ نے اپنے رسیلے انداز میں ہونٹوں کو جنبش دی اور آغاز اس شعر سے کیا:
نہ جائیں میری ہئیت پر چھوٹی ہوں تو کیا
پانی کی ایک بوند سیپ کو انمول بنا دیتی ہے!
’’ناظرین! میں جانتی ہوں کہ آپ یہاں مجھے اِس طرح تنہا دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے کہ گچھوں میں رہنے والی کو بھلا اِس طرح آنے کی کیا ضرورت پڑ گئی، تو میں آپ کو بتا دوں کہ میں یہاں اپنے انگوری بھائیوں اور بہنوں کے اصرار پر آئی ہوں تاکہ اُن کا پیغام آپ تک پہنچا سکوں۔ میرے عزیزو! ہماری اتنی ہی التجا ہے کہ ہم صدارت کے جنوں کو ختم کرتے ہوئے ملک کی ترقی کے متعلق سوچیں۔ ایک ایسی دنیا بسائے جہاں سبھی پیار و محبت سے آزادانہ زِندگی گزاریں۔ سکھ سے جئیں اور اوروں کو بھی چین سے جینے دیں اور اپنے ہم وطنوں کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ بولیں، ’’ذرا دیکھیں ! آج یہ بزم کس طرح دُلہن کی طرح سجی ہے۔ جس کے ہر پہلو اور ہر گوشے سے خوشبو اٹھ رہی ہے۔ کیوں نہ ہم بھی اپنے ملک کو اسی طرح سجائیں۔ اپنے دلوں میں انسانیت اور اپنائیت کی شمع روشن کر لیں تاکہ ہماری یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔‘‘
 ہر سمت سے تالیاں بجنے لگیں۔
انگور صاحبہ کی تقریر سن کر ایسے پھل جن کے درمیان کافی عرصے سے من مٹاؤ چل رہا تھا وہ آپس میں بغلگیر ہونے کے لئے آگے بڑھے۔ کوئی خوش تھا تو کسی کی آنکھیں نم تھیں۔ انگور صاحبہ کی خراج تحسین کا یہ عالم ہوا کہ بہت سے پھل جوش میں آکر بیک وقت اسٹیج پر چڑھ گئے۔ جس کے سبب اسٹیج پہلے تو کانپا پھر دھڑام سے ایک طرف بیٹھ گیا۔ ایک شور سا بلند ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اَن گنت پھل مدد کے لئے بڑھے، عینی شاہدین نے اتحاد کا ایک انوکھا منظر دیکھا۔ جو شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دیر سے ہی سہی کسی نے تو اُن کی آنکھوں سے نفرت، بغض، عناد اور حسد کا پردہ چاک کر دیا تھا اور اُنہیں تاریکی و ظلمت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی و اُجالے کی سمت موڑ دیا۔ تاریخ ایسے رہنما کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
 شور و غل ہونے پر اِرم ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی، روشن ہوتی آنکھوں سے اُس نے دیکھا اُس کی امی اُسے اِسکول جانے کے لئے جگا رہی ہیں۔ اِرم خوشی سے اپنی امی کے گلے لگ گئی۔ اسكول کے سالانہ جلسے کے لئے آخر اُسے ایک خوبصورت ڈرامہ جو مل گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK