Updated: January 07, 2023, 10:39 AM IST
| Mumbai
ہادیہ کی تحریریں مختلف رسالے میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ اسے حوصلہ افزاء باتیں لکھنے کا بے حد شوق تھا۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتی تھی۔ ایک دن اس کی سہیلی سعدیہ شاپنگ کرنے بازار جاتی ہے اور حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ہادیہ کا مزاج بدل جاتا ہے اور پھر
شام کو جب مَیں گھر واپس پہنچا تو کچھ جلنے کی بو آرہی تھی۔ مَیں سمجھ گیا کہ آج پھر ہادیہ پر کوئی نئی ڈش بنانے کا بھوت سوار ہوا ہوگا۔ وہ اکثر کھانوں کی نت نئی ترکیبیں آزماتی ہے اور زیادہ تر جلا ہی لیتی ہے۔ پھر جب غلطی کی دلیلیں پیش کرتی ہے تو اس سے سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ میرے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ مَیں نے سوچا آج پھر کسی مرغی بیچاری کی شامت آئی ہوگی مگر وہ بو کھانا جلنے کی نہیں تھی۔ غیر ارادی طور پر میرے قدم باورچی خانے کی طرف اٹھ گئے۔ وہاں ہادیہ ہی کھڑی تھی۔ اس کے بال الجھے، چہرے پر کرب اور آنکھوں میں ویرانی تھی۔
’’ہادیہ بیٹے یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ میرے پوچھنے پر وہ چونک گئی۔
’’السلام علیکم ابو جی! آپ کب آئے؟‘‘ میری بات کا جواب دینے کے بجائے اس نے اپنی طرف سے سوال کر دیا۔
’’مَیں تو ابھی آیا ہوں مگر تم یہ کیا جلا رہی ہو؟‘‘ مَیں نے پھر متجسس ہو کر پوچھا۔ اس کے ہاتھ میں تحریر تھی جو چند دن پہلے اس نے مجھے دکھائی تھی۔ ہادیہ پہلے تو اپنے کالج کے رسالے میں چھوٹے چھوٹے مضمون لکھا کرتی تھی پھر آہستہ آہستہ اس نے مختلف رسالوں میں بھی لکھنا شروع کر دیا تھا جہاں سے اسے حوصلہ افزائی ملتی اور وہ مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ کچھ دیر تو خاموش رہی پھر کہنے لگی، ’’ابو! مَیں اپنی ساری تحریریں جلا رہی ہوں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ مَیں نے اس کے ہاتھ سے وہ صفحات چھین لئے۔
’’ابو لفظوں میں اثر نہیں تو پھر خالی دعوؤں سے کیا فائدہ نہ، ہی یہ کسی کے احساست کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔‘‘ وہ بہت چبا چبا کر اور فیصلہ کن انداز میں کہہ رہی تھی، ’’مَیں کچھ نہیں لکھنا چاہتی۔ اب مَیں کچھ لکھ ہی نہیں سکتی۔ موت کی کہانی لکھ دینا بہت آسان ہے مگر موت کو دیکھنا بہت مشکل کام ہے۔‘‘
مَیں اسے باورچی خانے سے باہر لے آیا۔
’’ابو جان کیا سعدیہ کا دکھ لفظوں میں بیان ہوسکتا ہے؟‘‘ وہ آہستہ آہستہ اس طرف آ رہی تھی جس کی بنیاد پر وہ یہ سب کر رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں سے ایک بڑا حادثہ اور صدمہ دیکھا تھا۔ مگر وہ اتنا اثر لے گی یہ مَیں نے سوچا بھی نہ تھا۔ میری آنکھوں میں بھی وہ منظر گھوم گیا۔ سعدیہ اس کے بچپن کی سہیلی تھی۔ سعدیہ کے بھائی کی شادی تھی، ہادیہ کے اصرار پر سعدیہ نے ڈھولک رکھی۔ دونوں کا خیال تھا کہ خوشی کو اس کے حق کے مطابق منانا چاہئے چونکہ شادی ہے تو خوب ہنگامہ اور ہلا گلا ہونا چاہئے۔ رات گئے تک انہوں نے خوب ہنگامہ کیا، گیت گایا، صبح سعدیہ کا فون آگیا کہ ہادیہ سے کہئے تیار رہے کچھ چیزیں خریدنا ہیں۔
ہادیہ ابھی سو کر بھی نہیں اٹھی تھی۔ سو مَیں نے معذرت کر لی۔ میری بھی شام کی ڈیوٹی تھی لہٰذا مَیں بھی سوگیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب ہم ناشتہ ہی کر رہے تھے کہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز آگئی کہ شہر کے مصروف ترین بازار میں خودکش دھماکہ ہوا ہے۔ کئی جانوں کا نقصان ہوا تھا۔ زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جا رہا تھا۔ ہادیہ نے لپک کر سعدیہ کو فون کیا۔ مگر اس کا نمبر بند تھا، مَیں نے خالد صاحب کو فون کیا مگر ان کا بھی نمبر مل نہیں رہا تھا۔ میرے دل میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ مَیں ان کے گھر جانے لگا تو ہادیہ بھی جلدی سے گاڑی میں آبیٹھی کہ مَیں بھی چلوں گی مَیں اسے روکتا رہا مگر وہ نہ رکی۔ بس یہی موقع تھا جس نے ہادیہ کو توڑ پھوڑ دیا۔ سعدیہ کے گھر سے پتہ چلا کہ وہ حادثے کا شکار ہوگئے ہیں۔
جب ہم اسپتال پہنچے تو ماحول اتنا دردناک تھا کہ اللہ کی پناہ، عجیب چیخ و پکار تھی، کراہتے ہوئے زخمی، آہ و بکا کرتے مرنے والوں کے لواحقین سعدیہ کا بھائی موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ اس کی امی راستے میں زخموں کی تاب نہ لانے سے جان ہار گئیں۔ سعدیہ زخمی تھی۔ بات بہت دکھ کی تھی۔ خوشیوں بھرا گھرانہ لمحوں میں ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا تھا۔
اسی بات نے ہادیہ پر گہرا اثر کیا تھا۔ وہ سعدیہ کی عیادت کے لئے جاتی۔ کئی کئی گھنٹے ادھر رکتی، مَیں دیکھ رہا تھا کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ غمزدہ اور بکھرتی جا رہی تھی۔ وہ پھر کہنے لگی، ’’ابو! مَیں کچھ لکھنے لگتی ہوں تو وہی چیخیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ سعدیہ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان لوگوں کا کیا قصور تھا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے، آواز رُندھ گئی تھی مگر وہ ضبط کئے جا رہی تھی۔ ’’مجھے تو اب ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اب کوئی گھر سے باہر نہ جایا کرے۔‘‘ مَیں نے اسے سمجھایا کہ ’’موت ویسے ہی آتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔‘‘ وہ بھی مجھ سے کہنے لگی، ’’مَیں جانتی ہوں مگر وہ مالک ہے اس کو اختیار ہے لیکن کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ یوں بے دردی سے لوگوں سے ان کی زندگیاں چھین لے۔‘‘
کہتے کہتے بالآخر وہ رو ہی پڑی اور اسے رونا ہی چاہئے تھا۔ سعدیہ کو دلاسہ دیتے دیتے وہ خود پتھر ہوگئی تھی۔ کافی دیر تک وہ روتی رہی۔ یاسیت کا جو صحرا اس کے اندر سمو گیا تھا وہ آنسوؤں سے ہی دریا میں بدل سکتا تھا۔ مَیں نے اسے سمجھایا کہ ’’حق چھین لینے والے ہی ظالم کہلاتےہیں۔ قوموں پر مشکل وقت تو آتا جاتا ہے اور جب سے دنیا بنی ہے خیر و شر تو ساتھ ساتھ ہی چلتے آرہے ہیں۔ ظالم جتنا بھی طاقتور ہو بالآخر شکست ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ وحشی تاتاری، جنگجوہلا کو خاں اور چنگیز خاں نہیں رہے، عظیم جنگوں کا یاسیت بھرا زمانہ گزر گیا تو یہ حالات بھی نہیں رہیں گے۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ بے سکونی کا جو یہ دور ہم پر آیا ہے امن میں بدل جائے گا۔ ایسے موقع پر تو ہر طبقہ کو اپنی اپنی ذمہ داری دیانتداری سے پوری کرنی چاہئے، جیسے فوج کا طبقہ وطن کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ ڈاکٹروں کا طبقہ مظلوموں کی خبر گیری میں مصروف ہے تو اہل قلم کا طبقہ الفاظ کے ذریعے اُمید تو دلا سکتا ہے۔ زخموں پر مرہم تو رکھ سکتا ہے۔‘‘
وہ سسکیاں بھرتی میری باتیں سن رہی تھی۔ میٹھے اور پُر اُمید الفاظ سے بڑا کوئی مرہم نہیں ہوتا جو مایوس لوگوں کو ایک جہاں دکھاتا ہے۔ جو اس جہاں سے مختلف ہوتا ہے اور بہتر ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں۔
میری بیٹی کو میری بات سمجھ میں آگئی کہ خوفزدہ اور مایوس ہو کر تو ہم ظالموں کو اور تقویت پہنچا دیں گے۔ ان کو ان کے مقصد میں کامیاب کر دیں گے اس نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور ان اوراق کو ایک قیمتی اثاثے کی طرح سنبھال لیا جن میں اُمید تھی، آس تھی، جو مایوسی کا توڑ ہوتی ہے۔