وہ ہندوستان اور امریکہ کی نو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریسی عہدوں پر فائز رہے،امریکہ میں انگریزی غزل کے رجحان سازوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 13, 2024, 4:25 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
وہ ہندوستان اور امریکہ کی نو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریسی عہدوں پر فائز رہے،امریکہ میں انگریزی غزل کے رجحان سازوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
آغا شاہد علی (Agha Shahid Ali) ہندوستانی نژاد امریکی شاعر تھے۔وہ امریکہ ہجرت کر گئے تھے اور وہاں کی ادبی تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے جسے امریکی شاعری میں نیو فارملزم کہا جاتا ہے۔ ان کے مجموعوں میں’واک تھرو دی پیلو پیجز‘ ،’ ہاف اِنچ ہمالیہ‘ اور’ دی کنٹری وِڈ پوسٹ آفس‘ شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف یوٹاہ پریسان کی یاد میں ہر سال ’آغا شاہد علی پوئٹری پرائز‘ دیتی ہے۔
آغا شاہد علی۴؍ فروری۲۹۴۹ء کونئی دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ان کا تعلق سری نگر، کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک نامور قزلباشی آغا خاندان سےتھا۔ان کی پرورش کشمیر میں ہوئی لیکن وہ ۱۹۷۶ءمیں امریکہ چلے گئے۔ شاہد کے والد آغا اشرف علی جموں کشمیر کے معروف ماہر تعلیم تھے۔ شاہد کی دادی بیگم ظفر علی ، ماہر تعلیم تھیں ، وہ کشمیر کی پہلی خاتون تھیں جنہوںنے میٹرک کیا تھا۔ شاہد علی کی تعلیم برن ہال اسکول ، بعد ازاں یونیورسٹی آف کشمیر اور ہندو کالج ، دہلی یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ انہوں نے۱۹۸۴ء میں پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور۱۹۸۵ء میںایریزونا یونیورسٹی سے ایم ایف اے کیا۔وہ ہندوستان اور امریکہ کی نو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریسی عہدوں پر فائز رہے۔
آغا شاہدعلی اردو شاعر فیض احمد فیض کے مترجم تھے۔ انگریزی میں ۱۰۷؍شعراء کی غزلوں پر مشتمل ان کی انتھولوجی ’ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش‘ کے نام سے ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی تھی جس میں امریکہ کے بعض نامور شعرا جیسے ڈبلیو ایس میرون، ولیم میتھیوز، ڈیان ایکرمین، ایلن برائنٹ ووئگٹ اور جان ہولینڈر کی غزلیں بھی شامل ہیں۔یہ آغا شاہد علی کی ایک ایسی پہل تھی جس کا مقصد نہ صرف انگریزی کے شاعروں کو غزلیں لکھنا سکھانا تھا بلکہ مستقبل کے شاعروں کیلئے نمونہ عمل بھی چھوڑنا تھا۔
آغا شاہد علی نے انگریزی میں غزل کو بطور صنف اور فن مقبول کیا۔ آئرش شاعر تھامس مور نے بھی ۱۹؍ویں صدی میں انگریزی میں کچھ شاعرانہ تحریریں لکھیں جن کا نام انہوں نے غزل رکھا، لیکن ان کی یہ تحریریں غزل کی صنف کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہیں۔آغا شاہد علی نے امریکہ میں جو غزلیں لکھیں وہ نہ صرف اسپرٹ بلکہ صنف کے لحاظ سے بھی فارسی اور اردو کی غزلوں سے ہم آہنگ ہیں۔اپنی انہی کوششوں کی وجہ سے آغا شاہد علی انگریزی میں غزلیں لکھنے کے رجحان ساز بن گئے۔ اس کے بعد شاہد علی کو جن شاعروں نے زیادہ فالو کیا وہ امریکی شعرا تھے۔انگریزی زبان کے نوجوان کشمیری شاعر وانی نذیر کہتے ہیں کہ ’ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش‘ ایک ایسا مجموعہ کلام ہے جس نے امریکہ میں انگریزی غزل کے آغاز کی داغ بیل ڈالی۔
آغا شاہد علی کے تقریباً ۹؍ انگریزی شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ان کی آخری کتاب’ کال می اسماعیل ٹونائٹ : اے بُک آف غزلس ‘تھی جو ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی تھی ۔ان کی دیگرشعری تخلیقات میں ’امریکن الفابیٹس: ۲۵؍ کنٹیمپریری پوئٹس (۲۰۰۶ء) اور دیگر انتھالوجیز میں شامل ہیں۔انہیں متعدد اعزازات اور فیلو شپ سے نوازا گیا تھا جن میں پش کارٹ پرائز، بریڈ لوف رائٹرز کانفرنس فیلوشپ،انگرام-میرل فاؤنڈیشن فیلو شپ اورنیو یارک فاؤنڈیشن فار آرٹس فیلوشپ وغیرہ قابل ذکر ہے۔آغا شاہد علی کا انتقال ۸؍ دسمبر ۲۰۰۱ء کوبرین کینسر کی وجہ سے ہوا تھا۔ انہیں میساچوسٹس میں دفن کیا گیا تھا۔