شیخ چلّی کے پاس تھوڑی سی رقم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ کچھ کاروبار کیا جائے۔ اسی خیال سے وہ اپنے گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
EPAPER
Updated: April 26, 2025, 3:22 PM IST | Mumbai
شیخ چلّی کے پاس تھوڑی سی رقم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ کچھ کاروبار کیا جائے۔ اسی خیال سے وہ اپنے گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
شیخ چلّی کے پاس تھوڑی سی رقم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ کچھ کاروبار کیا جائے۔ اسی خیال سے وہ اپنے گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جنگل پڑا۔ وہاں بہت سے لوگ اونچے اونچے درختوں پر چڑھے شہد کے چھتے توڑ رہے تھے۔ شیخ چلّی رُک گئے اور ایک شخص سے پوچھا، ’’اس شہد کا کیا کرو گے؟‘‘
اُس نے جواب دیا، ’’بیچوں گا۔‘‘
شیخ چلّی نے اس سے کہا کہ میرے پاس کچھ روپے ہیں۔ اگر مجھے بیچ دو تو پھر تمہیں شہر جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ آدمی تیار ہوگیا۔ شیخ چلّی نے شہد خرید کر مٹی کے گھڑے میں بھرلیا۔ سر پر گھڑا رکھا، دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑا اور شہر کی طرف چلے۔
چلتے چلتے خیالی پلاؤ پکانے لگے کہ مَیں یہ شہد بیچ کر بہت پیسہ کماؤں گا۔ پھر اس پیسے سے مرغیاں خریدوں گا۔ مرغیاں اندے دیں گی۔ بہت سے انڈے جمع کرکے مرغیوں کو انڈوں پر بٹھاؤں گا۔ بہت سارے چوزے نکلیں گے۔ ذرا بڑے ہوں گے تو لے جا کر بازار میں بیچ دوں گا۔ انہیں بیچ کر بکریاں لاؤں گا۔ ہوتے ہوتے بہت ساری بکریاں ہوجائیں گی تو انہیں بیچ کر گائے بھینس خریدوں گا۔ ان کا دودھ بیچ کر خوب پیسہ کماؤں گا۔ شاندار گھر بناؤں گا۔ بڑا آدمی بن جاؤں گا۔ پھر کسی اچھے گھر میں شادی کر لوں گا۔ پھر میرے گھر ایک بیٹا پیدا ہوگا۔ مَیں اپنے بیٹے سے بہت محبّت کروں گا۔ اسے پڑھاؤں، لکھاؤں گا۔ اسے کبھی نہیں ماروں گا۔ میری بیوی اسے دھمکائے گی تو اسے منع کروں گا۔ اگر وہ بچے کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھائے گی تو مَیںا س کا ہاتھ پکڑ لوں گا.... یہ سوچتے سوچتے شیخ چلّی نے پہلے تو بیوی کو منع کرنے کے لئے سَر ہلانا شروع کیا، پھر اس کا ہاتھ پکڑنے کیلئے اپنے دونوں ہاتھ گھڑے پر سے ہٹا لئے۔ گھڑا دھڑام سے نیچے آ پڑا۔ ساری مرغیاں، انڈے، بکریاں، گائے بھینس، بیوی، بچّہ سب شہد کے ساتھ مٹی میں مل گئے۔