• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کشتی کی دلچسپ سیر

Updated: December 12, 2019, 11:28 PM IST | Herminder Ohri | Mumbai

کنارے پر ایک کشتی بانس سے بندھی ہوئی تھی۔ وہ دونوں اس کی رسّی کھولنے بھاگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کشتی میں سوار ہوکر سیر کا مزہ لے رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں کشتی ندی میں ہچکولےکھاتی، پیڑوں کے بغل سے ہلتی ڈولتی آگے بڑھی۔کشتی ندی میں رواں دواں تھی۔ موسم بہت خوبصورت تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔

گلہریوں کی کہانی
گلہریوں کی کہانی

شہر کے ایک چھوٹے سے باغ میں پیپل کا ایک بڑا سا پیڑ ہے۔ اس پیڑ پر گلہریوں کا ایک خاندان رہتا ہے۔ وِکی اس کنبے کا سب سے بڑا شیخی ماررکن ہے۔ اس کا چچیرا بھائی کاٹو دوسرے شہر سے اس سے ملنے آیا ہے۔ وہ وکی کا دوست بھی ہے۔
 وِکی نے کاٹو سے کہا’’ آج ہم ایک بڑی کشتی میں گھومنے جائیں گے۔‘‘ کاٹوگھبرا گیا اور ہکلاتے ہوئے کہنے لگا ’’ل… ل … لیکن مجھے تو پانی سے بہت ڈر لگتا ہے اور تیرنا بھی نہیں آتا ہے۔‘‘ ’’رہنے بھی دے ڈرپوک !وِکی کے رہتے تجھے کس بات کا ڈر؟ میں تو کتنی بار گیاہوں!‘‘ آگے آگے وِکی اکڑتے ہوئے چلا۔ کنارے پر ایک کشتی بانس سے بندھی ہوئی تھی۔ وہ دونوں اس کی رسّی کھولنے بھاگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کشتی میں سوار ہوکر سیر کا مزہ لے رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں کشتی ندی میں ہچکولےکھاتی، پیڑوں کے بغل سے ہلتی ڈولتی آگے بڑھی۔کشتی ندی میں رواں دواں تھی۔ موسم بہت خوبصورت تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔
  کاٹو نے پانی پر بہت سی بطخوں کو تیرتے ہوئے دیکھا۔ مچھلیاں بھی پانی سے سرنکال کر ہونٹ گول کر کے ’ہیلو‘ بولتیں۔
 ہنسوں کا ایک جوڑا بھی اپنی لمبی خوبصورت گردن مٹکاتے ہوئے پاس سے گزرا۔
 کاٹو نے چاہا کہ اُچک کرانہیں چھولے لیکن ایسا کرتے ہی وہ پانی میں جاگرا اور گرتے گرتے کاٹو نے کچھ مچھلیوں کو اس کا راستہ کاٹتے ہوئے دیکھا۔ ’’مجھےبچاؤ، مجھے بچاؤ‘‘ پانی میں ڈوبتے ہوئے کاٹونے زور سے آواز لگائی۔ 
 وکی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ وہ کشتی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اُچھلتا کودتا رہا اور چلاّیا ’’ ارے کوئی بچاؤ! میرا دوست پانی میں ڈوب رہا ہے۔‘‘ ہنس نے اس کی پکارسنتے ہی پانی میں اپنا سرڈبویا اور بڑی آسانی سے کاٹو کو اپنی چونچ میں اٹھاکر کشتی میں ڈال دیا۔
 کاٹو کافی گھبرایا ہوا تھا۔ ٹھنڈ کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو دھوپ میں سُکھانے کی کوشش کررہا تھا۔ پاس میں وِکی خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ جب کاٹو کے بال تھوڑے سوکھ گئے اورجسم میں تھوڑی گرمی آگئی تو وہ بولا ’’ کتنا مزہ آیا! جب میرے دوست اس قصّے کو سنیں گے توانہیں یقین ہی نہیں آئے گا۔‘‘ کاٹو کو لگ رہا تھا جیسے وہ ایک بہت بڑا ہیرو اورجہاز کا جانبازکپتان بن گیا ہے۔
 وہ چاہ رہا تھا کہ جلد سے جلد وہ گھر پہنچے اور سب کو اپنے کارنامے کی داستان سنائے ۔ لیکن پورے دن کے حادثے کے بعد کاٹو کا سرکشتی کی طرح چکر کھارہا تھا۔
  کھانے کی میز پر جیسے ہی اس نے سررکھا، اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ گہری نیند میں سوگیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK