• Tue, 11 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

الوداع مادرِ علمی، الوداع

Updated: February 08, 2025, 4:33 PM IST | Mumbai

سر سیّد اُردو گرلز ہائی اسکول، شہادہ کی طالبات امروزہ اور منزہ کی یہ مشترکہ تحریر اسکول سے وداع ہونے پر اُن کے جذبات و احساسات کی غماز ہے۔ کچھ طلبہ کو اسکول چھو‘ٹنے کا غم نہیں ہوتا مگر بہت سوں کیلئے یہ بڑا جذباتی مرحلہ ہوتا ہے۔ ایک ہی جماعت کی اِن دو طالبات کا بھی یہی عالم ہے۔

Amrozah and Manzah (sixth and seventh in the middle row) with their school teachers. Photo: INN
امروزہ اور منزہ (درمیانی صف میں چھٹے اور ساتویں نمبر پر) اپنے اسکولی اساتذہ کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این

اسکول سے محبّت اور اس سے دوستی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اسکول واحد ایسی جگہ ہے جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جو کالج کی زندگی میں اور پھر بعد کی عملی زندگی میں بہت یاد آتی ہے۔ اس لئے وقت رہتے اس کی قدر کرنی چاہئے۔ ہم اپنی کلاس کی اوسط طالبات ہیں مگر ہمیں تعلیم اور اسکول سے بہت لگاؤ ہے۔ ہم نے اول تا دہم جماعت تک اسکول میں دس سال گزارے۔ یہ دس سال ہمارے لئے بہت اہم ہیں کیونکہ ہم نے اس عرصہ میں ذہنی نشوونما پائی۔ یہی وہ مدت ہے جس میں ہم نے صحیح غلط اور اچھے برے میں فرق کرنا سیکھا۔ یہ دس سال اس لئے ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں کیونکہ ان دس برسوں میں ہم اسکول سے جذباتی طور پر وابستہ رہے۔
 اب ہمیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ اسکول سے ہماری وداعی میں چند ہی روز باقی ہیں۔ بظاہر دس سال کا سفر بہت طویل تصور کیا جاتا ہے مگر جب ہم نے اس کو گزارا اور وقت کے زاویے سے دیکھا تو یہ طویل وقت چند لمحات کی طرح گزر گیا۔ دس سال اسکول میں مکمل کرنا، دراصل ایک ایسا سنگ میل ہے جو ہماری زندگی میں مختلف یادوں، تجربات اور سیکھنے کے مواقع کا مجموعہ تھا۔ جب ہم نے پہلی بار اسکول میں قدم رکھا تھا تو ہمیں ہر چیز نئی اور اجنبی لگی تھی۔ شروع کے دنوں میں ہمیں اس نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگا تھا مگر آہستہ آہستہ یہ سب ہمارا معمول بن گیا۔

امروزہ الطاف کھاٹک۔


منزہ رضوان سیّد۔

 دس سال کے عرصے نے ہمیں نہ صرف تعلیمی لحاظ سے تیار کیا بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کی۔ پہلے سال میں ہمارے لئے سب کچھ نیا تھا، نئے دوست، نئے اساتذہ اور نئے مضامین، ہمیں خوف بھی تھا اور تجسس بھی۔ وہ لمحہ کبھی نہیں بھلایا جاسکتا جب ہم پہلی بار کلاس روم میں بیٹھے تھے اور استاد سے پہلا سبق اور پہلا ہوم ورک لیا تھا۔ جیسے جیسے ہم اس سفر میں آگے بڑھتے گئے ہمیں مختلف چیلنجز اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ دوسری سے پانچویں کلاس ہمارا وہ دور تھا جب ہم نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کا لطف اٹھایا۔ اور جب ہم چھٹی سے آٹھویں کلاس کے دور میں تھے، تب پڑھائی کا دباؤ بڑھنے لگا، مضامین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ہر مضمون میں مزید محنت درکار تھی۔ دوستوں کے ساتھ ہونے چھوٹا موٹا مذاق، ہلکی پھلکی شرارتیں، پڑھائی کی سختیوں میں سکون کا باعث بنتی تھیں مگر اب محنت حاوی تھی جو رائیگاں نہیں گئی۔ محنت کے نتائج سے کامیابی کا جذبہ بڑھا۔
 نویں اور دسویں کلاس کی پڑھائی سب سے زیادہ چیلنجنگ تھی۔ اس میں نیا علم سیکھنے کے ساتھ ساتھ امتحانات کی تیاری کا دباؤ بھی تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں اپنی محنت کا صلہ ملنا شروع ہوا تھا۔ اس مرحلہ پر ہمیں احساس ہوا کہ تعلیم محض کتابوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ زندگی کے مختلف چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت بھی عطا کرتی ہے۔
 اسکول کے دس سالہ سفر نے نہ صرف ہمیں تعلیمی طور پر مضبوط بنایا بلکہ ہمیں انسانیت، دوستی، محنت اور صبر کے بارے میں بھی سکھایا۔ یہ سفر ہمارے لئے ایک یادگار تجربہ ہے جسے ہم ہمیشہ اپنے دل میں محفوظ رکھیں گے۔ اس نے ہماری شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا اور ہماری زندگی کے اگلے مرحلے کیلئے ہمیں تیار کیا۔ یہ دس سالہ سفر ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ ایک طالب علم کی نشوونما میں اسکول کا کردار کتنا اہم ہے؟ یہ سوال کوئی ہم سے پوچھے۔ یہاں سکھائی جانے والی باتیں ہمیں زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ والدین بچوں کے پہلے استاد ہوتے ہیں۔ یہ غلط نہیں ہے مگر اساتذہ ان کے دوسرے والدین ہوتے ہیں۔ ہم نے اسکول میں اساتذہ کے ساتھ اتنا ہی وقت گزارا ہے جتنا اپنے گھر میں والدین کے ساتھ۔ اسکول نے ہمیں منظم تعلیم فراہم کی ہے۔ یہاں ہم نے سیکھا کہ ٹیم ورک کیا ہے۔ اچھا اخلاق کیا ہوتا ہے۔ اشتراک کسے کہتے ہیں اور ذمہ داریاں کیسے نبھائی جاتی ہیں۔ اور یہ سب ہمیں اپنے اساتذہ نے سکھایا ہے۔ اسکول کی تربیت سے ہمارے کردار میں نکھار پیدا ہوا ہے جو عمر بھر ہمارے ساتھ رہے گا۔ ان دس برسوں میں اسکول کے احاطے میں ہم نے اپنی فطری صلاحیتوں کو دریافت کیا اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کی۔ ان تجربات کی وجہ سے ہمارا اعتماد بڑھا جو عملی زندگی میں ایک کامیاب انسان بننے میں معاون ہوگا۔
 اکثر طلبہ ایک ایسی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں جس میں ابتدائی عمر میں کرنے کے لئے کچھ نہ ہو، خاص طور پر اسکول نہ ہو۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر اسکول نہ ہوتا تو ہم ابتدائی عمر میں اپنے آپ کو تعمیری سمت میں مشغول نہ رکھ پاتے۔ پھر کامیاب زندگی کی راہ پر گامزن کس طرح ہوتے؟ ہمیں نہ بات چیت کا سلیقہ آتا اور نہ ہی حساب کتاب کرنا، اسی لئے بچوں کو ابتدائی عمر سے اسکول سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ بچوں کو اسکول جانا پسند نہیں ہوتا۔ ایسے بچے اسکول جانے والے بچوں سے مختلف نظر آتے ہیں کیونکہ انہیں اسکول کی اہمیت و قدر معلوم نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی ہماری طرح اسکول سے لگاؤ ہوتا ہے۔
 اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اکثر طلبہ اپنے اسکول کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ وہی اسکول جو ہر انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، وہ صرف ایک عمارت بن کر رہ جاتا ہے ہمارے لئے اسکول صرف ایک عمارت نہیں بلکہ دوسرے گھر کی مانند ہے۔ یہاں کی ہر چیز سے ہماری جذباتی وابستگی ہے، اسی لئے اب جبکہ ہم اسکول سے رخصت ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں، ایک ایک دن گراں گزر رہا ہے۔ اسکولی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہم کالج میں ہونگے اور اسکول کا احاطہ، اس سے جڑی اشیاء جیسے کتابیں، کمپاس باکس یا اسکول کا گیت، صبح کی دُعا، اسکول کا ترانہ، عمارت، میدان، چھٹی میں بجنے والی گھنٹی کی آواز یا یونیفارم اور اسکول کی وین یہ تمام چیزیں تاعمر ہماری یادوں کا حصہ اور ہمارا قیمتی اثاثہ ہوں گی۔
 آخر میں ہم اپنے تمام اساتذہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے نہ صرف ہمیں علم دیا بلکہ ہماری شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK