انہوںنے اپنی شاعری اور تحریر میں تصور کا سہارا بہت کم لیا اور حقیقت کو نمایاں رکھا،انہوں نے آزادانہ طور پر بھی مضامین اور ترجمے کا کام کیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 13, 2025, 5:04 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
انہوںنے اپنی شاعری اور تحریر میں تصور کا سہارا بہت کم لیا اور حقیقت کو نمایاں رکھا،انہوں نے آزادانہ طور پر بھی مضامین اور ترجمے کا کام کیا ہے۔
سوریاکانت ترپاٹھی(Suryakant Tripathi)جن کا تخلص’نرالا‘ ہے، ہندی شاعری کے چھاياواد دور (ہندی ادب میں جدید رومانیت کا عہد یعنی ۱۹۲۲ء تا ۱۹۳۸ء) کے چار بڑے ستونوں( جے شنکر پرساد، سوریاکانت ترپاٹھی، سمترا نندن پنت اور مہادیوی ورما ) میں سے ایک ہیں۔اس کے علاوہ وہ مصنف، کمپوزراور خاکہ نگاربھی تھے۔ انہوں نے شاعری میں تصور کا سہارا بہت کم لیا ہے اور حقیقت کو نمایاں رکھا ہے۔ وہ ہندی میں آزاد نظم کے موجد بھی مانے جاتے ہیں۔
سورياكانت ترپاٹھی `نرالا کی پیدائش ۲۱؍ فروری ۱۸۹۶ء میںبنگال میں ہوئی تھی۔ان کے والد پنڈت رام سہائے تیواری اُناؤ کے رہنے والے تھے اور مہیشدل میں سپاہی کی نوکری کرتے تھے۔ ان کی والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ کم سن تھے۔سوریا کانت کی تعلیم بنگالی میڈیم میں مہیشدل راج ہائی اسکول میں ہوئی تھی۔اس کے بعد وہ لکھنؤ اور وہاں سے اناؤ میں منتقل ہوگئے ۔
ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے ہندی، سنسکرت اور بنگالی کا آزادانہ مطالعہ کیا۔انہیں بچپن ہی سے دلت استحصال کا احساس اور کسانوں کے ساتھ ہمدردی تھی۔ ۲۰؍ برس کے ہوئے تو والد کا انتقال ہو گیا۔ اپنے بچوں کے علاوہ مشترکہ خاندان کا بھی بوجھ نرالا پر پڑا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جو وبا پھیلی اس میں نہ صرف بیوی منوهرا دیوی کا، بلکہ بیٹی سروج، چچا، بھائی اور بھابھی کا بھی انتقال ہو گیا۔
سوریہ کانت ترپاٹھی کی ساری زندگی معاشی جدوجہد میں گزری۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بوہیمین روایت میں گزرا۔ انہوں نے معاشرے میں سماجی ناانصافی اور استحصال کے خلاف پرزور لکھا۔ سورياكانت ترپاٹھی `نرالا کی پہلی تقرری مہیشدل ریاست میں ہی ہوئی تھی۔ اس کے بعد ادارت، آزاد انہ تحریر اور ترجمے کے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۳ءکے دوران کولکاتا سے شائع سَمَِنوَے کی ادارت کی،اگست ۱۹۲۳ء سے ’متوالا‘ کے ادارتی بورڈ میں کام کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ میں گنگا پُستَک مالا کے دفتر میں ان کی تقرری ہوئی جہاں وہ ادارے کی ماہانہ میگزین سُدھا سے۱۹۳۵ء کے وسط تک منسلک رہے۔ ۱۹۳۵ءسے۱۹۴۰ء تک کا کچھ وقت انہوں نے لکھنؤ میں بھی گزارا۔ اس کے بعد ۱۹۴۲ءسے مرتیو پرينت میں الہٰ آباد میں رہ کر آزادانہ طور پر لکھتے رہے اور ساتھ ہی ترجمے کا کام کیا۔
نرالا کا پہلا شعری مجموعہ۱۹۲۳ء میں ’انامیکا‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ان کے شعری مجموعوں میں انامیکا کے علاوہ ’پریمل‘ ، ’گيتیكا‘ ، تلسی داس‘، ’انیما‘،’ بیلا ‘،’نئے پتے‘، ’ارچنا ‘ ، ’آرادھنا‘،’ گیت کنج‘ اور سندھياكاكلی‘ قابل ذکر ہیں۔ان کے ناولوں میں ’اپسرا‘، ’الکا‘، ’پربھاوتی‘، ’نروپما‘ اور ’چمیلی‘ شامل ہیں۔ افسانوی مجموعوں میں ’للی‘، ’چتری چمار‘، ’سكل کی بیوی‘،’ سکھی‘ اور’ دیوی‘ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نےکئی کہانیاں، مضامین اور خاکے بھی لکھے ہیں لیکن ان کی شہرت خاص طور سے شاعری کی وجہ سے ہی ہے۔
وسیع تر ادبی خدمات کے باوجود، نرالا کو ان کی زندگی میں کسی بھی شہری یا ادبی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ اس کی ممکنہ وجہ ان کی باغیانہ طبیعت یا تحائف اور اعزازات سے گریز بھی ہوسکتی ہے۔ ۱۹۹۸ء میں فلمز ڈویژن آف انڈیا نے نرالا کی زندگی پر ایک۲۰؍ منٹ کی مختصر دستاویزی فلم تیار کی تھی جس کے ہدایت کار راجیو کمار تھے۔اس میں ان کی کامیابیوںکا جائزہ لیا گیا تھا۔ سوریہ کانت کا انتقال ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء کوالہٰ آباد میں ہوا تھا۔