ملئے آصف مجتبیٰ سے جنہوں نے بطور پروفیسر کریئر کا آغاز کیا اور آج ’مائلز ٹو اسمائیل‘ این جی او کے بانی ہیں۔
’’ اِسکل (Skill) تعلیمی نظام کا سب سے اہم عنصر ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہم چیزیں سیکھتے ہیں اور سیکھی ہوئی باتوں کا عملی تجربہ ہی اِسکل ہے۔ دُنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ آپ کامیاب تبھی ہوں گے جب اس ترقی اور تبدیلی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ہر طالب علم کو اپنی اسکلز کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔‘‘
آصف مجتبیٰ فی الحال گیسٹ لیکچرار ہیں۔ تصویر : آئی این این
این جی او کے ذریعے منعقدہ پروگرام میں لوگوں سے ملاقات کرتے ہوئے۔
’’مائلز ٹو اسمائیل‘‘ این جی او کے بانی اور ڈائریکٹر نیز سماجی رضاکار آصف مجتبیٰ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آئی آئی ٹی (دہلی) جیسے نامور اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے بطور پروفیسر کریئر کا آغاز کیا تھا مگر اب گیسٹ لیکچرار کے طور پر قومی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کا دورہ کرتے ہیں نیز ایک سماجی رضاکار کا بھی فریضہ انجام دیتے ہیں۔
پروفیشنل زندگی میں توازن کیسے رکھتے ہیں؟
پروفیشنل زندگی میں توازن رکھنے کی پوری کوشش ہوتی ہے مگر یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر آج محنت نہیں کی تو آنے والی نسل کیلئے مشکلات پیش آئیں گی۔ زیادہ وقت سماجی کاموں کیلئے وقف کر رکھا ہے۔
این جی او شروع کرنے کا مقصد کیا تھا؟
ملک میں موجود بیشتر این جی اوز غربا کی خودداری ختم کررہی ہیں۔ اس طرح انہیں مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ غریبوں کو مانگنے کی عادت نہ پڑے اس لئے این جی او شروع کیا جس کا مقصد ضرورت مندوں کو طویل مدتی فائدہ پہنچانا ہے، مثلاً کسی کیلئے دکان کھول دی، کسی کو سلائی مشین دلوا دی، کسی کو آٹو رکشا دے دیا تاکہ یہ افراد آگے کسی کے محتاج نہ رہیں بلکہ ان چیزوں کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کریں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہم صرف بنیادی مدد فراہم کریں گے۔ نارتھ ایسٹ دہلی میں ہمارا ’’ثبات‘‘ نامی ایک سینٹر ہے جہاں غریب خواتین کام کرتی ہیں۔ وہ طلبہ جو اسکول نہیں جاسکتے، ہم نے ان کیلئے ایک چھوٹا سا اسکول ’’سن رائز‘‘ قائم کیا جہاں ۴۵۰؍ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ یونیفارم بنانے کیلئے ہمیں ثبات سینٹر میں کام کرنے والی غریب خواتین سے مدد ملتی ہے۔ اس طرح ہم نے بیک وقت دو کام انجام دیئے ہیں۔
مستقبل میں کامیاب ہونے کیلئے طلبہ کیلئے لازمی صلاحیت؟
طلبہ میں سوال پوچھنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ یہی صلاحیت آپ کو لیڈر بناتی ہے اور کچھ ایجاد کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جب تک آپ سوال نہیں کریں گے آپ میں غوروفکر کی عادت پروان نہیں چڑھے گی۔یہی صلاحیت آپ کو دیگر طلبہ میں ممتاز بنائے گی۔
کوئی شوق جس نے ذاتی ترقی میں آپ کی مدد فراہم کی؟
مجھے کتابوں کے مطالعہ کا شوق ہے۔ میری ذاتی لائبریری میں ۵۰۰؍ سے زائد کتابیں ہیں۔ کتابیں دراصل ادیبوں کی ۵۔۴؍ سال کے تجربات پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ تجربات آپ ۴؍ سے ۵؍ دن میں پڑھ کر حاصل کرسکتے ہیں۔ کتابوں کے ذریعے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔علاوہ ازیں، اخبارات بھی پڑھیں تاکہ حالات حاضرہ سے باخبر رہیں۔ مَیں طالب علمی کے زمانے میں روزانہ کسی نہ کسی کتاب کے ۲۰؍ صفحات ضرور پڑھتا تھا۔ طلبہ کو چاہئے کہ وہ روزانہ کم سے کم ۵؍ صفحات پڑھیں، اور پھر رفتہ رفتہ صفحات کی تعداد بڑھاتے جائیں۔
طلبہ کیلئے پیغام
آج کے طلبہ کل کے لیڈر ہیں۔ آج جن مسائل کا سامنا ہم کر رہے ہیں، ان کے حل یہی نکالیں گے۔ اس لئے انہیں سوال پوچھنا چاہئے کہ یہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے اور اسے کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوال کسی بھی مضمون اور موضوع کا ہوسکتا ہے۔ طلبہ کو محنتی اور مستقل مزاج ہونا چاہئے۔ ایک محنتی اور مستقل مزاج طالب علم، ذہین طالب علم کو بآسانی شکست دے سکتا ہے۔