• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آج ’’طلبہ سے باتیں‘‘ نہیں، ڈھیر ساری باتیں، ۷؍ ویں سالگرہ جو ہے!

Updated: September 06, 2024, 5:06 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اس گفتگو کا اصل موضوع یہ ہے کہ ایک طالب علم کی زندگی میں اسلام کہاں کہاں ہے۔ کیا پڑھائی لکھائی بھی اسلام ہے؟ یہ باتیں اکثر طلبہ نہیں جانتے۔ پڑھائی کا بھی اسلام سے تعلق ہے اور امتحان کا بھی، تعلیمی سرگرمیوں میں کوئی چیز دنیوی نہیں اگر اسٹوڈنٹس چند باتیں ذہن نشین کریں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

عزیز طلبہ، آپ نے پڑھا ہوگا کہ اسلام مکمل ضابطہ ٔحیات ہے۔ مکمل ضابطہ ٔحیات کا معنی کیا ہے؟ اس کا معنی ہے کہ انسان، جو اشرف المخلوقات ہے، وہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے لے کر ہوش گنوانے یعنی آخری سانس لینے تک جو حیات یعنی زندگی گزارتا ہے اُس کا مکمل ضابطہ اسلام پیش کرتا ہے۔ وہ چاہے کاروباری شخص ہو یا ملازمت پیشہ، نوجوان ہو یا بزرگ، خاتون ہو یا مرد، تدریسی شعبے سے تعلق رکھتا ہو یا غیر تدریسی شعبے سے، حتیٰ کہ وہ طالب علم ہی کیوں نہ ہو، اسلام اُس کیلئے ضابطہ پیش کرتا ہے کہ اُسے اپنے شعبے کی سرگرمیوں میں اسلامی فکر اور تعلیمات کو کس طرح ملحوظ رکھنا چاہئے۔ 
 اکثر لوگ عبادات ہی کو اسلام سمجھتے ہیں چنانچہ اُن کے خیال میں نماز اسلام ہے، تلاوت اسلام ہے، صدقہ و خیرات اسلام ہے، نیکی اسلام ہے، بُرائی سے بچنا اسلام ہے یا والدین کی فرمانبرداری اسلام ہے۔ بلاشبہ یہ سب اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے مگر اسلام انہی کو محیط نہیں ہے۔ اسلام اگر سونے جاگنے میں ہے، کھانے پینے میں ہے، اُٹھنے بیٹھنے اور لوگوں سے ملنے میں ہے تو طالب علم کی پوری زندگی میں بھی ہے۔ اُس کے پڑھنے میں بھی اسلام ہے، لکھنے میں بھی اسلام ہے، یاد کرنے میں بھی اسلام ہے، اساتذہ کا کہا ماننے میں بھی اسلام ہے حتیٰ کہ کھیل کود اور اسپورٹس میں بھی اسلام ہے۔ کوئی سرگرمی اسلام سے ماورا یعنی دور نہیں ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ طالب علم ایک اہم بات ذہن نشین کرلے۔ وہ علم حاصل کررہا ہے انسانوں کو فیض پہنچانے کیلئے، معاشرہ کا بااثر فرد بن کر بُرائی کو ختم کرنے اور بھلائی کو عام کرنے کیلئے، وہ اس لئے پڑھ رہا ہے کہ اگر ڈاکٹر بنا تو صحت ِ عامہ کی فکر کرے گا اور جہاں جہاں تک اُس کی رسائی ہوگی وہ لوگوں کو فیض پہنچائے گا، اگر وہ انجینئر بن رہا ہے تو اپنی پیشہ جاتی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرکے انسانیت کو نفع پہنچائے گا، اگر وہ سائنسداں بننا چاہتا ہے تو یہ عزم کرے کہ سائنسداں بن کر سائنس کے فروغ کے ذریعہ انسانی زندگی کی مشکلات کو دور کرے گا اور اس طرح انسانیت کو نفع پہنچائے گا۔ اگر وہ پڑھ لکھ کر نیز ڈگری حاصل کرکے معلمہ یا معلم بننا چاہتا ہے تو یہ عزم کرے کہ وہ اپنے شاگردوں کو بھلائی سکھانے، بُرائی سے بچانے، اُن کی صحیح رہنمائی کرنے اور اُن کی ذہن سازی کیلئے ہر وقت حاضر رہے گا بلکہ خود کو وقف کردے گا۔
 عزیز طلبہ، آپ جانتے ہیں کہ سرکار دوعالم محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایک چبوترے پر عالم اسلام کی پہلی درس گاہ قائم کی تھی۔یہ چبوترا صفہ کہلاتا ہے۔ اسی پر بیٹھ کر صحابہ کرام نے اسلام کی تعلیمات کو سمجھا اور پھر پوری دُنیا پر اس طرح چھا گئے کہ اُن کے جو بدترین دشمن تھے بہترین دوست بن گئے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کیا اُس زمانے میں ایسی کسی درس گاہ کی ضرورت تھی؟ اور کیا وہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی؟ پھر یہ بھی سوچئے کہ آپؐ نے نوجوان صحابی زید بن ثابتؓ کو یہودیوں کی زبان سیکھنے کی کیوں تاکید کی تھی؟ اس پس منظر میں اگر آپ انگریزی، ہندی اور مراٹھی سیکھتے ہیں تو کیا وہ اسلام نہیں ہے؟ اسی لئے ہم نے کہا کہ طالب علم اگر تعلیم کے حقیقی مقصد کو ذہن نشین کرلے تو اُس کی ہر سرگرمی دائرۂ اسلام میں ہوگی اور طالب علم کے ذہن میں ہلکا سا بھی ایسا کوئی خیال نہیں آئے گا کہ پڑھائی کررہا ہوں جو عبادت نہیں ہے بلکہ ابھی نماز کیلئے اُٹھوں گا وہ (نماز) عبادت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز تو عبادت ہے ہی، پڑھائی بھی عبادت ہے اگر اوپر بیان کی گئی شرط پوری کی جائے۔ 
 اس طرح اسکول میں گزرنے والا وقت نیک کام میں گزرنے والا وقت ہے، اساتذہ کے حکم کی تعمیل نیکی ہے، امتحان کی تیاری نیکی ہے، امتحان دینا نیکی ہے اور امتحانات پاس کرکے کسی عہدہ پر پہنچ کر جذبۂ اسلامی کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی بھی نیکی ہے۔ 
 ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب انسان اس دُنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے، وہ منقطع نہیں ہوتے: (۱) صدقہ جاریہ (۲) ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور (۳) نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرے۔ اس حدیث (صحیح مسلم ۱۶۳۱) سے معلوم ہوا کہ ’’ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے‘‘ یعنی جو انسانیت کیلئے مفید ہو، اُس کا حاصل کرنا بھی نیکی ہے اور اُسے دوسروں تک پہنچانا بھی نیکی ہے اور اس کو بروئے کار لانا بھی نیکی ہے۔ 
 اس میں اور بھی پرتیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ سائنس لیباریٹری میں ہیں اور نباتات پر کوئی تجربہ کررہے ہیں یا فلکیات کے بارے میں معلومات حاصل کررہے ہیں تو نصاب کے اعتبار سے جو ضروری ہوگا وہ تو آپ جان ہی لیں گے، اس دوران اگر آپ کوشش کریں تو یہ بھی ذہن میں رہے گا کہ رب العالمین نے نباتات کو کیوں پیدا کیا، اجرام فلکی کس لئے تخلیق کئے گئے، انسان کی اینا ٹومی کتنی پیچیدہ ہے اور نظام تنفس سے لے کر نظام انہضام تک، رب العالمین نے ہمیںکن کن نعمتوں سے نوازا ہے، وغیرہ، تو اس سے آپ میں غوروخوض اور تدبر کی عادت پیدا ہونا شروع ہوگی اور شکر کا جذبہ تقویت پائے گا جو بنیادی طور پر اللہ کا حکم ہے کہ تم غور کرو، تدبر کرو، اور شکر کرو۔ اس طرح آپ کا سائنس لیب میں گزرنے والا وقت سیکھنے اور امتحان دے کر پاس ہونے کے لحاظ سے تو پڑھائی لکھائی کا کام ہے ہی (اور جیسا کہ بتایا گیا، نیکی ہے)، مزید برآں رب العالمین کی نشانیوں پر غور کرنا بھی عبادت ہے۔ 
 عزیز طلبہ، ہمیں ایک بار پھر کہنے دیجئے کہ ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اسلام کے بنیادی ارکان ہیں مگر اسلام ایمان سے شروع ہوکر حج پر ختم نہیں ہوجاتا یہ زندگی کے ایک ایک عمل میں ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے والدین کی طرف محبت کی نظر سے دیکھنا بہت بڑا کارِ ثواب ہے، اللہ تعالیٰ، والدین کو محبت سے دیکھنے والے شخص کی ہر نظر کے بدلے ایک حج مبرور کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنے والدین کو دن میں سو مرتبہ محبت کی نظر سے دیکھے تو کیا ۱۰۰؍ حج مبرور کا ثواب ملے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا اور پاکیزہ ہے۔ حدیث کے اِس مفہوم کو سامنے رکھ کر سوچئے کہ استاد کو مجازاً طالب علم کا باپ (معلمہ ہے تو مجازاً ماں) قرار دیا جاتا ہے چنانچہ اگر آپ نیت رکھیں تو اُن کی طرف محبت اور تعظیم سے دیکھنا بھی کارِ ثواب ہوگا۔ آپ ہی بتائیے ہوگا یا نہیں؟
 بہرکیف، ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر سلسلۂ تعلیم آگے بڑھائیے، ہماری دُعا ہے کہ مالک ارض و سماء آپ کو علم نافع کی تحصیل میں کامیاب فرمائے، آپ کے علمی درجات بلند فرمائے، آپ کو ملت اسلامیہ کی سرخروئی کیلئے قبول فرمائے اور آپ کو نظر بد سے بچائے۔ ایں دُعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK