برطانوی ادیب ہیکٹر ہیو منرو کی شہرۂ آفاق کہانیThe Lumber Room کا اُردو ترجمہ
EPAPER
Updated: June 23, 2023, 4:15 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai
برطانوی ادیب ہیکٹر ہیو منرو کی شہرۂ آفاق کہانیThe Lumber Room کا اُردو ترجمہ
تفریح کی غرض سے بچوں کو جاگبوروف ساحل پر لے جانے کا منصوبہ تھا لیکن نکولس وہاں نہیں جانا چاہتا تھا لہٰذا اس نے صبح ہی سے بہانے بنانے شروع کر دیئے۔ اس نے ناشتے میں بریڈ اور دودھ نہ کھانے کی توجیہہ پیش کی کہ اس میں مینڈک ہے۔ نرسری (برطانیہ میں اس مکان کو کہتے ہیں جہاں یتیم بچوں کی پرورش ہوتی ہے) کی آیاؤں نے اسے سمجھایا کہ بریڈ اور دودھ میں مینڈک نہیں ہے لیکن وہ اپنی بات پر اَڑا رہا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ مینڈک کا رنگ کیسا تھا۔ اس واقعے کا ڈرامائی حصہ یہ تھا کہ بریڈ اور دودھ میں واقعی مینڈک تھا جسے نکولس نے خود صبح باغ سے تلاش کرکے ناشتے کے پیالے میں ڈالا تھا۔ اس واقعے کے بعد نکولس کو اندازہ ہوگیا کہ بڑے اور سنجیدہ لوگ ہمیشہ سچ نہیں بولتے اور جس بات پر انہیں یقین ہو ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو۔ چونکہ مینڈک اسی نے ڈالا تھا اس لئے وہ حقیقت سے واقف تھا۔
’’آپ نے کہا کہ میرے ناشتے میں مینڈک نہیں ہے، لیکن اس میں مینڈک ہے۔‘‘ نکولس نے پھر وہی بات دہرائی۔ چونکہ نکولس آیاؤں کی نافرمانی کررہا تھا اس لئے نکولس کو ساحل پر نہ لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسے نرسری ہی میں چھوڑ دیا گیا جبکہ دیگر بچوں کو جلدی جلدی تیار کیا جانے لگا۔ ان کی دیکھ ریکھ کرنے والی آیا، جسے وہ آنٹی کہتے تھے، کی عادت تھی کہ اگر کوئی بچہ پریشان کرتا تو اسے تفریح کی غرض سے سرکس، ساحل، میلہ یا پکنک وغیرہ پر نہیں لے جایا جاتا تھا۔ جب سبھی ساحل کی طرف روانہ ہونے لگے تو نکولس کی آنکھوں سے بمشکل چند آنسو گرے۔ تاہم، تمام بچے خوشی خوشی نرسری کی دوسری آنٹیوں کے ساتھ ساحل کی جانب روانہ ہوگئے۔
نکولس دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا۔
’’تمام بچے جب سفید ریت پر کھیلیں گے تو انہیں بڑی خوشی ہوگی۔‘‘ آنٹی نے کہا۔
’’بابی، زیادہ لطف اندوز نہیں ہو گا، اور وہ زیادہ دوڑ بھی نہیں سکتا۔‘‘ نکولس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’اس کے جوتے کافی تنگ ہیں۔‘‘ ’’اس نےکیوں نہیں بتایا کہ جوتے تنگ ہیں؟‘‘ آنٹی نے تڑپتے ہوئے پوچھا۔
’’اس نے آپ سے دو بار کہا تھا لیکن آپ نے اس کی بات نہیں سنی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم آپ کو اہم باتیں بتاتے ہیں تو آپ نہیں سنتیں۔‘‘
’’کیا تمہیں آملے کے باغ میں نہیں جانا ہے؟‘‘ آنٹی نے نکولس کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’کیوں نہیں؟‘‘ نکولس نے جلدی سے کہا۔
’’لیکن تم نے آج ناشتے کی میز پر کافی پریشان کیا ہے اس لئے تمہیں آملے کے باغ میں بھی جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔‘‘ آنٹی نے بلند آواز میں کہا۔
نکولس نے آنٹی کی بات نظر انداز کردی۔ اس کے چہرے پر ضدی تاثرات نمایاں تھے۔ آنٹی پر واضح ہوگیا کہ نکولس کو آملے کے باغ میں جانے کی جلدی ہے۔ چونکہ آنٹی نے کہہ دیا تھا کہ اسے نہیں جانا ہے اس لئے وہ جانے کیلئے مزید بے تاب ہوگیا تھا۔
آملے کے باغ میں جانے کے دو دروازے تھے۔ ایک چھوٹا اور ایک بڑا۔ چھوٹے دروازے سے بچے آسانی سے اندر جاسکتے تھے۔ دوپہر میں آنٹی کئی کام انجام دینے والی تھی لیکن اس نے جان بوجھ کر باغ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا اور آملے کے باغ پر نظر رکھی کہ کہیں نکولس باغ میں نہ چلا جائے۔
نکولس نے آملے کے باغ کے سامنے کئی چکر لگائے لیکن اسے اندر جانے کا صحیح موقع نہیں ملا۔ درحقیقت، اس کا آملے کے باغ میں جانے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا لیکن وہ آنٹی کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ اسے باغ میں جانا ہے۔ جب اسے اندازہ ہوگیا کہ آنٹی اسے آملے کے باغ میں جانے نہ دینے کیلئے سامنے والے باغ میں کافی وقت صرف کرے گی تو وہ جلدی سے نرسری میں آگیااور اپنے اس منصوبے پر عمل کرنے لگا جس کے متعلق وہ کئی دنوں سے سوچ رہا تھا۔
لائبریری میں کرسی پر کھڑے ہو کر کوئی بھی اُس شیلف تک پہنچ سکتا تھا جس پر ایک موٹی اور اہم نظر آنے والی چابی رکھی ہوئی تھی۔ یہ چابی کافی اہم نظر آتی تھی۔ یہ لکڑی کے ایک کمرے کی چابی تھی جس میں صرف آیاؤں اور اہم لوگوں کو جانے کی اجازت تھی۔ نکولس کو تالے کھولنے کا زیادہ تجربہ نہیں تھا لیکن پچھلے چند دنوں سے وہ اسکول کے دروازوں کو کھولنے کی مشق کررہا تھا۔ اس نے تالے میں چابی گھمائی اور تھوڑی سی کوشش سے دروازہ کھل گیا، اور نکولس ایک نامعلوم سرزمین پر پہنچ گیا جس کے سامنے آملے کا باغ کچھ بھی نہیں تھا۔
نکولس اکثر سوچتا تھا کہ نہ جانے اس کمرے میں کیا ہے لیکن یہ کمرہ اس کے تخیل سے کافی مختلف تھا۔ اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ لکڑی کا یہ کمرہ اندر سے ایسا نظر آئے گا۔ کمرے میں ہلکی روشنی تھی اور ایک اونچی کھڑکی آملے کے باغ میں کھلتی تھی۔ کمرے میں قدرتی روشنی کی آمد کا یہ واحد ذریعہ تھی۔ آیاؤں کا ماننا تھا کہ چیزیں استعمال کرنے سے خراب ہوجاتی ہیں اس لئے وہ بہت سی چیزوں کو اس کمرے میں بند کرکے رکھتی تھیں۔ کمرہ حیرت انگیز چیزوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہاں موٹے فریم میں لگی ہوئی ایک تصویر نظر آئی۔ یہ محض ایک پینٹنگ تھی لیکن نکولس کیلئے سانس لینے والی ایک زندہ کہانی تھی۔ وہ دھول سے اَٹے قالین پر بیٹھ کر اس پینٹنگ کا جائزہ لینے لگا۔
ایک شکاری دو گز کے فاصلے پر موجود ایک ہرن پر نشانہ سادھے ہوئے تھا جبکہ ہرن شکاری سے بے خبر گھاس پر منہ مارنے میں مصروف تھا۔ دو شکاری کتے شکاری کے پاس چوکنا کھڑے تھے جبکہ شکاری کے کمان میں تیر لگا ہوا تھا۔ ایک نظر دیکھنے پر ایسا ہی لگتا تھا کہ بس چند سیکنڈ میں تیر ہرن کے گلے میں پیوست ہوجائیگا اور شکاری اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہوگا لیکن شکاری کو کیا وہ نظر آرہا تھا جو نکولس دیکھ رہا تھا؟
چار بھیڑیئے لکڑی کے پل پر تیزی سے دوڑتے ہوئے شکاری کی طرف آرہے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ جھاڑیوں کے پیچھے اور بھی بھیڑیئے چھپے ہوں۔ اگر سبھی بھیڑیئے باہر آگئے تو کیا شکاری اور اس کے دو کتے ان کا مقابلہ کرسکیں گے؟ شکاری کے ترکش میں صرف دو تیر تھے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی بھی تیر نشانے پر نہ لگے۔ نکولس کافی دیر تک اس پینٹنگ کو غور سے دیکھتا رہا اور یہی سوچتا رہا کہ اگر بھیڑیئے حملہ کردیں تو شکاری اور اس کے دونوں کتے شکست سے دوچار ہوں گے۔
لیکن کمرے میں خوشی اور دلچسپی کی دوسری چیزیں بھی تھیں۔ وہاں سانپوں کی شکل کا موم بتیوں کا ایک اسٹینڈ بھی تھا اور لمبی گردن والی بطخ کی طرح ایک کیتلی بھی تھی۔ نکولس سوچنے لگا کہ نرسری کی چائے کتنی پھیکی اور سادہ ہوتی ہے۔ کمرے میں صندل کی لکڑی کا ایک ڈبہ بھی تھا جس میں خوشبو دار روئی بھری ہوئی تھی اور روئی کی تہوں میں پیتل کی چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے بیل، مور اور کپ وغیرہ لپٹے ہوئے تھے۔ یہ تمام ہی کافی خوبصورت تھے۔ نکولس کو سیاہ کور والی ایک مربع نما بڑی سی کتاب بھی ملی۔ نکولس نے جب اسے کھولا تھا اس میں رنگین پرندوں کی دنیا آباد تھی۔ خوشنما رنگوں والے پرندے یہاں سے وہاں اڑتے پھر رہے تھے۔ کبوتر، بگلے، ہنس، چیل، ٹرکی، طوطے، سنہری پرندے، مینڈرین بطخیں وغیرہ۔ وہ انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ باغ کی جانب سے آنٹی کی تیز آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اسے کافی دیر سے نہ دیکھ کر وہ مشکوک ہوگئی تھی، اور اب سوچ رہی تھی کہ نکولس دیوار پر چڑھ کر آملے کے باغ میں نہ کود گیا ہو۔
’’نکولس، نکولس!‘‘ اس نے چیخ کر کہا، ’’فوراً باہر آجاؤ۔ وہاں چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں؛ تم جانتے ہو میں تمہیں ہر طرف سے دیکھ سکتی ہوں۔‘‘
۲۰؍ برس میں ایسا شاید پہلی بار ہوا تھا کہ لکڑی کے کمرے میں کوئی مسکرایا ہو۔
جب آنٹی کی چیختی ہوئی آواز مسلسل آنے لگی تو نکولس نے کتاب بند کردی، اسے احتیاط سے ایک جانب رکھ دیا۔ پھر وہ کمرے سے نکلا، دروازہ بند کیا اور چابی کو اسی جگہ رکھ دیاجہاں سے اٹھایا تھا۔ آنٹی اب بھی اسی کو پکار رہی تھی۔’’کون بلا رہا ہے؟‘‘ نکولس نے سامنے والے باغ میں قدم رکھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’میں،‘‘ دیوار کے دوسری طرف سے جواب آیا۔ ’’کیا تمہیں میری آواز نہیں سنائی دے رہی ہے۔ مَیں تمہیں آملے کے باغ میں تلاش کررہی تھی کہ پھسل کر پانی کے ٹینک میں گر گئی۔ خوش قسمتی سے اس میں پانی نہیں ہے لیکن ٹینک میں پھسلن کی وجہ سے میں باہر نکلنے سے قاصر ہوں۔ چیری کے درخت کے پاس ایک چھوٹی سی سیڑھی ہے، اسے اٹھا لاؤ!‘‘
’’مجھ سے کہا گیا ہے کہ آملے کے باغ میں نہیں جانا ہے۔‘‘ نکولس نے فوراً کہا۔
’’میں نے تمہیں منع کیا تھا، لیکن اب مَیں تمہیں اجازت دے رہی ہوں کہ آملے کے باغ میں آجاؤ۔‘‘ پانی کے ٹینک سے آنٹی کی بے صبر آواز آئی۔
’’آپ کی آواز میری آنٹی جیسی نہیں ہے،‘‘ نکولس نے اعتراض کیا۔ ’’ہو سکتا ہے کہ تم ایک شیطان ہو جو مجھے نافرمان بنانے پر آمادہ کر رہا ہو۔ آنٹی اکثر مجھے کہتی ہیں کہ شیطان مجھے نافرمانی پر آمادہ کرتا ہے اور ہر بار میں اس کا شکار بن جاتا ہوں۔‘‘
’’بکواس مت کرو،‘‘ ٹینک سے آواز آئی، ’’جاؤ سیڑھی لاؤ۔‘‘’’کیا چائے کے وقت مجھے اسٹرابیری جیم ملے گا؟‘‘ نکولس نے معصومیت سے پوچھا۔
’’یقیناً ملے گا۔‘‘ آنٹی نے جلدی سے کہا۔
’’اب میں جان گیا ہوں کہ تم شیطان ہو، میری آنٹی نہیں،‘‘ نکولس خوشی سے چلایا۔ ’’کل جب ہم نے آنٹی سے اسٹرابیری جیم کے متعلق پوچھا تھا تو انہوںنے کہا تھا کہ جیم نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پتھر کی الماری میں چار مرتبان میں اسٹرا بیری جیم بھرے ہوئے ہیں۔ یہ بات مجھے معلوم ہے اور تمہیں لیکن آنٹی کو نہیں معلوم ہے کیونکہ اگر انہیں یہ پتہ ہوتا تو وہ ہم سے جھوٹ نہیں بولتیں۔ اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ تم شیطان ہی ہو۔‘‘
نکولس زندگی میں پہلی مرتبہ آنٹی سے اس طرح بات کررہا تھا۔ اس نے ایسے ہی بات کی جیسے کسی شیطان سے بات کررہا ہو۔ نکولس نے اپنی معصومیت اور بچپن کی سوجھ بوجھ کے ساتھ آنٹی سے کافی دیر تک بات کی، اس کے بعد وہ باورچی خانے کی ملازمہ پارسلی کو بلا لایا جس نے آنٹی کو ٹینک سے نکالا۔
شام کی چائے کے دوران میز پر خوفناک خاموشی تھی۔ جب بچے جاگبوروف ساحل سے لوٹے تو وہ بھی خاموش اور مایوس تھے کیونکہ وہاں ساحل تھا ہی نہیں۔ آنٹی نے ہمیشہ کی طرح بچوں سے جھوٹ بولا تھا۔ جوتے تنگ ہونے کی وجہ سے بابی کی پکنک برباد ہوگئی تھی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ بچے پکنک سے لطف اندوز نہیں ہوئے ہیں۔ آنٹی پانی کے ٹینک میں ۳۵؍ منٹ قید رہی تھیں، اس لئے وہ بالکل خاموش تھیں۔ جہاں تک نکولس کا تعلق ہے، وہ بھی خاموش تھا مگراس کے پاس سوچنے کیلئے بہت کچھ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے شکاری اپنے کتوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جائے اور بھیڑیئے مارے ہوئے ہرن پر ٹوٹ پڑیں۔