سرسید احمد خان ۱۹؍ ویں صدی کے معروف فلسفی اور ماہر تعلیم تھے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی بنیاد ڈالی تھی جس کا شمار ملک کے معروف تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ سرسید احمد خان ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو مغلیہ سلطنت کے دور میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی وفات ۲۷؍ مارچ ۱۸۹۸ء کو علی گڑھ میں ہوئی تھی۔ جانئے ماہر تعلیم اور مسلمانوں کی تعلیم کی فکر کرنے والے سرسید احمد خان کے بارے میں ۱۰؍ اہم باتیں۔ تمام تصاویر: آئی این این، یوٹیوب، ایکس، انسٹاگرام
سرسید احمد خان نے جدید تعلیمی اداروں اور جرنلس کی بنیاد ڈال کر مغرب کی سائنسی تعلیم کو فروغ دیا تھا۔ انہوں نے ۱۸۶۳ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول کی بنیاد ڈالی تھی۔ علاوہ ازیں ۱۸۶۴ء میں ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ قائم کی تھی جس کے ذریعے سالانہ کانفرنس منعقد کی جاتی تھی اور اردو اور انگریزی میں سائنسی مشمولات شائع کئے جاتے تھے۔
۱۸۷۸ء میں اس وقت کے وائسرائے نے انہیں قانون ساز کاؤنسل کیلئے نامزد کیا تھا۔ سر سید احمد خان نے سول سروسیز اور حکومت میں ہندوستانیوں کی نمائندگی حاصل کرنے کیلئے دادا بھائی نوروجی اور سریندر ناتھ بنرجی کی معاونت کی تھی۔
۱۸۷۵ء میں سر سید احمد خان نے محمدن اینگلو اورینٹل کالجیٹ اسکول کی بنیاد ڈالی تھی۔ ۲؍ سال بعد یعنی ۱۸۷۷ء میں اسے ’’محمدن اینگلو اورینٹل کالج ‘‘میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کالج کے نصاب میں مغربی، سائنسی اور مذہبی مضامین شامل کئے گئے تھے۔ اس کالج کی پہلی چانسلر سلطان شاہ جہاں بیگم تھیں۔ سر سید احمد خان نے برطانوی ماہر تعلیم ’’تھیوڈور بیک‘‘ کو پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دینے کیلئے مدعو کیا تھا۔
۱۹۲۰ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج کو ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ یونیورسٹی نے ۲۰؍ ویں صدی میں اپنا میگزین شروع کیا تھا۔ اسی درمیان یونیورسٹی میں لاء اسکول قائم کیا گیا تھا۔ اس یونیورسٹی سے کئی مشہور شخصیات نے تعلیم حاصل کی ہے۔
سرسید احمد خان نے اپنی تحریک کے آئیڈیاز کے فروغ کیلئے آل انڈیا محمد ایجوکیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کا ہیڈکوارٹرس علی گڑھ میں تھا۔ کانگریس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ۱۸۸۶ء میں مولوی سمیع اللہ خان کی صدرات میں منعقد کیا گیا تھا۔
سرسید احمد خان کو ’’فادر آف ٹو نیشن تھیوری‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کیلئے مخصوص ملک کی تعمیر کیلئے اس تھیوری کو فروغ دیا تھا۔
۱۸۳۸ء میں سرسید احمد خان ایسٹ انڈیا کمپنی میں شامل ہوگئے تھے۔ انہوں نے ۱۸۶۷ء میں ’’اسمال کوزیز کورٹ‘‘ میں جج کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ ۱۸۷۶ء میں وہ جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
سر سید احمد خان نے ریاضی، فلکیات،الجبرا اور اردو کی تعلیم کے علاوہ حکیم غلام حیدر خان سے طب کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ انہوں نے سوئمنگ، شوٹنگ اوراسپورٹس کی دیگر سرگرمیوں میں بھی مہارت حاصل کی تھی۔ وہ مغل کورٹ کی ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
سیرسید احمد خان نے مسلم سوسائٹی میں اصلاح کو فروغ دینے اور جدید مضامین کی تعلیم کے تعلق سے آگاہی پھیلانے کیلئے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ نامی جرنل شائع کرنے کی شروعات کی تھی۔ ۱۸۷۱ء میں میگزین کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا تھا۔
سرسید احمد خان کی مشہور کتابوں میں ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ قابل ذکر ہے۔ یہ کتاب ۱۸۵۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ ۶؍ اگست ۱۸۶۹ء کو برطانوی حکومت نے انہیں ’’آرڈر آف دی اسٹار آف انڈیا‘‘ کے اعزاز سے نوازا تھا۔ ۱۹۷۳ء اور ۱۹۹۸ء میں ہندوستانی پوسٹ نے ان کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کئے تھے۔