ہندوستانی ایجادات اور دریافتوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ ہمارے ملک نے فن تعمیرات ، فلکیات، نقاشی، تصورات، منطق، ریاضی اور معدنیات جیسے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کے نوجوان سائنس اورتکنالوجی، آٹوموبائل، انجینئرنگ، انفارمیشن تکنالوجی اور خلائی سائنس جیسے کئی اہم اور ابھرتے ہوئے میدانوں میں ایجادات اور دریافت کررہے ہیں۔ جانئے ایسی ۵؍ اہم چیزوں کے بارے میں جو ہندوستان میں ایجاد کی گئیں۔ تمام تصاویر: آئی این این
زیرو (صفر): صفر کا باقاعدہ اعلان پانچویں صدی میں آریہ بھٹ نے کیا۔ آریہ بھٹ ایک ماہر علم نجوم اور ریاضی داں تھے جو پاٹلی پتر (پٹنہ) میں ۴۸۶ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صفر کو ایک نشان کے طور پر ہندوستان میں صدیوں سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایجاد ہونے سے قبل زیرو لکھنے کیلئے ایک لکیر استعمال کی جاتی تھی۔ بیشتر مؤرخین کا خیال ہے کہ زیرو کا نشان سب سے پہلے برہما گپتا نے دوسری صدی میں بنایا تھا۔ ان کا تعلق بھی ہندوستان سے تھا۔
آیورویدک: آیور وید برصغیر کا ایک قدیم طبی نظام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام ہندوستان میں ۵؍ ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا۔ آیور وید دو سنسکرت الفاظ ’’آیوش‘‘ جس کا معنی ’’زندگی‘‘ ہے اور ’’وید‘‘ جس کا معنی ’’سائنس‘‘ ہے، سے مل کر بنا ہے، اس لئے اس کا لغوی معنی ہے ’’زندگی کی سائنس۔‘‘ ہندوستان میں بابائے آیوروید اچاریہ چرک کو کہا جاتا ہے۔
شطرنج: شطرنج کا کھیل ہندوستان میں ایجاد اور تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ کھیل ذہنی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس کا قدیم نام’’ چَتُرنگ‘‘ تھا جو سنسکرت کے الفاظ چتو (چار) اور رانگا (بازو) سے نکلا ہے۔ چونکہ عربی میں ’’چ‘‘ اور ’’گ‘‘ کے حروف تہجی نہیں ہوتے اسلئے عربوں اور ایرانیوں نے اسے شطرنج کا نام دیا اور پھر یہ اسی نام سے مشہور ہوگیا۔ شطرنج کو دنیا بھر میں پھیلانے کا سہرا سعودی عرب اور ایران کے سر ہی بندھتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس کھیل کی ایجاد شمالی ہند کی گپتا سلطنت سے ہوئی تھی۔
بٹن: آج ہر قسم کے لباس میں بٹن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مؤرخین کےمطابق بٹن سب سے پہلے وادی سندھ کی تہذیب میں بنایا گیا تھا۔اس وقت اسے سیپوں سے بنایا جاتاتھا۔کچھ بٹن کو جیومیٹری کی اشکال میں بنایا جاتا تھا اور ان میں صرف ایک سوراخ بنایا جاتا تھا تاکہ اسے دھاگے کی مدد سے کپڑے میں لگایا جاسکے۔ قدیم دور میں بٹن کو ایک زیور کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا اور امیر افراد ہی اسے پہن سکتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تقریباً ہر قسم کے لباس کا لازمی حصہ بن گئے۔
شیمپو: شیمپو کو اردو میں ’’مصفی زلف‘‘ کہا جاتا ہے۔ شیمپو انگریزی لفظ ہے۔ تاہم، یہ ہندی لفظ چمپو سے نکلا ہے۔ شیمپو ۱۷۶۲ء میں مختلف جڑی بوٹیوں کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ شیمپو کو یورپ میں پھیلانے کا سہرا مغربی بنگا ل کے شیخ دین محمد کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں شیمپو کی ایک فیکٹری قائم کی تھی اور اس طرح شیمپو پوری دنیا میں پھیل گیا۔