کسی کردار کو تخلیق کرنا اور لوگوں کے درمیان اسے مقبول بنانا ایک مصنف کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ مصنف برسوں کی محنت کے بعد اپنے تخلیق کردہ کردار کی چھاپ لوگوں کے دل و دماغ پر نقش کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ذیل میں ایسے ہی ۵؍ کرداروں کے بارے میں مختصراً بتایا گیا ہے جن کی کہانیاں اور حکایات طلبہ، خاص طور پر بچوں کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ تمام تصاویر: آئی این این
ملا نصیرالدین: ملا نصیر الدین، ترکی کے ایک مسخرے تھے۔ وہ۱۳؍ ویں صدی کے مشہور درویش اورذہین انسان تھے۔ ان کی قبر ترکی کے شہر قونیہ کے قریب ’اک‘ شہر میں ہےجہاں ہر سال ۵؍ سے ۱۰؍ جولائی تک ملا نصیر الدین انٹرنیشنل فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے۔ ملا نصیر الدین پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان کے متعلق سب سے قدیم ترین مسودہ ۱۵۷۱ء کا ہے۔ تُرک ملا نصیر الدین کو ”حوجا“ یعنی استاد کے نام سے بلاتے ہیں۔
حاجی بغلول: وہ دیکھئے حاجی بغلول چلے آتے ہیں۔ ان کا قد چھوٹا ہے اور توند بڑی ہے۔ آنکھیں اندر کو گھسی ہوئی ہیں اور کان لمبے۔ ناک چپٹی ہے اور نتھنے خوب چوڑے، رنگ سیاہ ہے اور ڈاڑھی سفید۔ حاجی بغلول ٹخنوں تک جھولتی اچکن پہنتے ہیں۔ سر پر سبز پگڑی باندھتے ہیں۔ ایک ٹانگ بڑی ہے دوسری چھوٹی۔ چلتے میں لنگڑاتے ہیں اور اپنی لمبی اچکن کے دامن میں الجھتے جاتے ہیں۔ حاجیوں کے جہاز پر نوکری کی تھی۔ خود کبھی حج پر نہیں گئے، پھر بھی حاجی مشہور ہوگئے۔انہیں غصہ بہت جلدی آتا ہے۔ شہر میں سب انہیں چھیڑتے ہیں مگر منا بھی لیتے ہیں۔ دل کے سادہ اور زبان کے کھرے ہیں۔
منشی منقیٰ: منشی منقی تھے تو ڈیڑھ پسلی کے دھان پان انسان کہ پھونک مارو تو ہوا میں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لہرائیں لیکن اکڑ باز اتنے کہ رستم زماں گاماں پہلوان سے بھی کشتی لڑنے کو تیار۔ منشی صاحب کا اصل نام تو کہیں درج نہیں ہے لیکن وہ قصبے بھر میں منشی منقیٰ کے نام سے مشہور تھے شاید اس لئے کہ ان کی
چچا چھکن: چچا چھکن کی تخلیق امتیاز علی تاج نے کی، جن کا شمار اردو کے بڑے اور مشہور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ چچا چھکن ایک مزاحیہ کردار ہے۔ وہ خود کو ہر چیز کا ماسٹر خیال کرتے ہیں اور جب اپنی ماسٹری دکھانے کیلئے کوئی کام شروع کرتے ہیں تو وہ کام اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ پان کھانے کےشوقین ہیں۔ لمبی ٹوپی پہنتے ہیں۔ ناک لمبی ہے۔ چہرے پر ڈاڑھی ہے۔بھنویں گہری ہیں۔آنکھوں پر ہر وقت عینک ہوتی ہے۔ چچا چھکن ۲؍ منٹ سے زیادہ کسی کی بات نہیں سنتے۔ ہر چیز میں مین میخ نکالنا ان کی عادت ہے۔ بات کاٹے بغیر ان سے رہا نہیں جاتا۔ اگر لفظ کا تلفظ ٹھیک سے ادا نہیں کرو تو فوراً ٹوک دیتے ہیں اور اسے صحیح کروا کر ہی آگے کی بات سنتے ہیں۔ چچا کبھی کبھار کوئی کام اپنے ذمے کیا لے لیتے ہیں گھر بھر کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔
تینالی رامن: تینالی رامن کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ تینالی رامن ۱۵۰۹ء تا ۱۵۲۹ء وجے نگر کے راجہ کرشنا دیواریا کے دربار میں شاعر تھے۔ جس طرح اکبر کے ۹؍ رتن تھے اسی طرح راجہ کرشنا کے ۸؍ مشہور شاعر تھے۔ تینالی رامن کی پیدائش ۱۶؍ وی صدی میں ہوئی تھی۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ تینالی رامن کوئی حقیقی کردار نہیں تھا۔ جس طرح بیربل اپنی ذہانت اور حاضر جوابی کیلئے مشور تھے اسی طرح تینالی رامن بھی اپنی عقلمندی کیلئے کافی مقبول تھے۔