آج کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اِس دور میں طلبہ کیلئے صرف اسکول کی تعلیم حاصل کرنا ہی ضروری نہیں رہ گیا ہے۔ انہیں اس کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اہم چیزوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسی کئی چیزیں ہیں جو تعلیمی اداروں میں نہیں سکھائی جاتیں لیکن طلبہ کو چاہئے کو وہ اپنے طور پر ان چیزوں کو سیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو یہ یقیناً ان کے کام آئیں گی۔ تصویر: آئی این این
سیلف ڈیفنس کی کلاسیس: طلبہ کوسیلف ڈیفنس (اپنی حفاظت آپ کرنا) کی بنیادی تکنیک اسکول ہی میں سکھائی جانی چاہئے۔ چونکہ اب خطرات بڑھ گئے ہیں اس لئے لڑکے اور لڑکیوں، دونوں ہی کیلئے اپنی حفاظت کے طریقوں کے بارے میں جاننا ضروری ہو گیا ہے۔اس کے متعلق آن لائن کئی ویڈیوز دستیاب ہیں۔ طلبہ انہیں دیکھ کر اپنے طور پر یہ تکنیک سیکھ سکتے ہیں نیز دوسروں کو بھی سکھا سکتے ہیں۔
بینک اکاؤنٹ کھولنا اور پیسے ٹرانسفر کرنا: آج بھی ہمارے ملک میں ایسے کئی افراد ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرلینے کے باوجود بینک میں اکاؤنٹ کھولنے اور پیسے ٹرانسفر کرنے کے متعلق نہیں جانتے۔ طلبہ کو چاہئے کہ وہ نویں اور دسویں جماعت میں آنے کے بعد ہی اس جانب توجہ دیں۔ بینک میں کھاتہ کس طرح کھولا جاتا ہے، اور اس کے ذریعے پیسے کس طرح منتقل کئے جاتے ہیں، ان کے بارے میں سیکھیں۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی افراد ہیں جو بینک کانام سن کر ہی گھبرا جاتے ہیں لیکن بینک اکاؤنٹ کھولنا اور پیسے منتقل کرنا بہت ہی آسان ہے۔
سفری آداب اور عوامی مقامات پر صفائی کا خیال: سفر کے دوران اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آ س پاس کے مسافر (بڑے ہوں یا بچے) سفری آداب سے واقف نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو سفر کے دوران ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنی سیٹ کے اطراف کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں یا سامنے مسافر کی سیٹ پر پیچھے سے پاؤں مارتے ہیں۔ یہ بری عادتیں ہیں۔ کیا آپ ایسا مسافر بننا پسند کریں گے جو سفر کے دوران دوسروں کو تکلیف دیتا ہو؟ یقیناً نہیں۔اس لئے سفری آداب سیکھنا ضروری ہے کہ کس طرح دیگر مسافروں کو تکلیف دیئے بغیر بلکہ ان کو سہولیات دیتے ہوئے سفر کیسے کیا جاتا ہے۔ سفر کے دوران کسی ضرورت مند کو اپنی نشست پیش کرنا، ٹرین یا بس وغیرہ میں بچوں، خواتین اور بزرگوں کو پہلے داخل ہونے کا موقع دینا، وغیرہ، یہ ایسے آداب ہیں جو سبھی کو آنے چاہئیں۔ اسی طرح کسی بھی عوامی مقام (باغات، پارک، پبلک واش روم وغیرہ) میں صفائی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ کوشش کریں کہ آپ سے کسی قسم کی گندگی نہ ہو۔یہ ایسے آداب ہیں جو تعلیمی اداروں میں نہیں سکھائے جاتے لیکن اگر ان کے متعلق طلبہ کو سکھایا جائے یا طلبہ خود سیکھیں تو یہ کافی سود مند ثابت ہوگا۔
بجٹ بنانا: طلبہ کو ایک مقررہ مدت تک ایک ہزار روپے میں گزر بسر کیسے کرنی ہے، اس کےمتعلق طلبہ کو علم ہونا چاہئے۔ در حقیقت، انہیں بچپن ہی سے کفایت شعاری سیکھنا چاہئے۔ ہاسٹل کی زندگی یا عملی زندگی میں طلبہ جیسے ہی قدم رکھتے ہیں انہیں سب سے پہلے بجٹ ہی بنانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مہینے کے ۳؍ ہزار روپے ملتے ہیں تو پہلے بجٹ بنائیں کہ ان روپوں کو کیسے خرچ کریں گے، اور کون سی غیر اہم چیزیں نہیں خریدیں گے۔ اس سے آپ کی غیر ضروری خرچ کی عادت ختم ہوگی۔
کھانا پکانا: اسکول کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی طلبہ کو کم از کم ایک پکوان بنانا آجانا چاہئے۔ ہاسٹل میں یا کرائے پر رہنے والے طلبہ کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ چند آسان پکوان بنانا سیکھ لیںتاکہ انہیں باہر کے پکوان نہ کھانا پڑیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کے دوران ایسے کئی مواقع آئیں گے جب آپ کو گھر سے دور رہنا پڑے گا۔ اس لئے ابتدائی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی چند آسان پکوان بنانا ضرور سیکھ لیں۔
مختلف ٹیکس اور ان کی ادائیگی: ٹیکس کیا ہیں؟ ہم ان کی ادائیگی کیوں کرتے ہیں؟ ان کی ادائیگی کیسے کریں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی طلبہ کو ملنے چاہئیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لاکھوں بالغ افراد ہیںجو آج بھی مختلف ٹیکس اور انہیں کیسے ادا کیا جاتا ہے، کی بابت نہیں جانتے۔ ہماری زندگی کی ہر سرگرمی کسی نہ کسی طرح ٹیکس سے جڑی ہوئی ہے، اسلئے چھوٹی عمر ہی سے اس کی معلومات حاصل کرنا چاہئے۔
ووٹ، اور ملک پر اس کے اثرات: ہمارے ملک میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو ووٹ دینا اہم خیال نہیں کرتے۔طلبہ کو اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی ووٹ کے متعلق یہ باتیں معلوم ہونی چاہئیں: ووٹ دینے کی اہمیت، ووٹ کیسے دیا جاتا ہے، اور ووٹ دینے کے ملک پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
سائبر لاء اینڈ کرائم: آج انٹرنیٹ ہر شخص کی ضرورت بن گیا ہے، خاص طور پر نوعمر افراد اس کا زیادہ استعمال کررہے ہیں۔ اس دنیا کی معلومات نہ ہونے کے سبب وہ انجانے میں سائبر جرائم کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اسلئے طلبہ کو سائبر قوانین کی بابت جاننا ضروری ہے تاکہ وہ انٹرنیٹ کے استعمال کے محفوظ طریقے کو یقینی بناسکیں۔