ممبئی: لوکل ٹرین اسٹیشنوں کے نام کی دلچسپ کہانیاں!
Updated: Apr 23, 2025, 9:13 PM IST | Aliya Sayyed
لوکل ٹرینیں ممبئی کی لائف لائن کہلاتی ہیں۔ ممبئی کی لوکل ٹرینوں کی ۶؍ مین لائنس ہیں جن میں ویسٹرن لائن، سینٹرل لائن اور ہاربر لائن قابل ذکر ہیں۔ لوکل ٹرینوں کے ۱۵۰؍ سے زائد اسٹیشن ہیں جن میں سے چند ایسے ہیں جن کے نام کسی نہ کسی وجوہات کی بناء پر تجویز کئے گئے ہیں۔ پڑھئے ایسے ہی ۱۰؍ اسٹیشنوں کے ناموں کی دلچسپ کہانی۔ تمام تصاویر: آئی این این، انسٹاگرام، فیس بک۔
X
1/10
چھترپتی شیواجی مہاراج ٹرمنسشیواجی مہاراج کا شمار ہندوستان کے عظیم حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل یہ اسٹیشن ملکۂ برطانیہ وکٹوریہ سے موسوم تھا۔ آج بھی کئی لوگ اسے وی ٹی کے نام سے پکارتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں اسے بوری بندر اسٹیشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں ایک بندرگاہ تھی۔ چونکہ سمندری راستوں سے یہاں بوریوں میں اجناس وغیرہ آتے تھے اس لئے یہ بوری بندر کے نام سے مشہور تھا۔ تاہم، ۱۹۹۶ء میں اسے شیواجی مہاراج سے موسوم کیا گیا۔
X
2/10
کاٹن گرین اسٹیشنکہتے ہیں کہ کاٹن گرین ایک تاریخی علاقہ ہے۔ یہیں سے ملک میں کپاس کی تجارت شروع ہوئی تھی۔ یہاں سے لے کر قلابہ تک گھاس کے میدان تھے جبکہ آج کے بدھوار پارک پر کپاس کی تجارت کیلئے ایک عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ چند برسوں بعد عمارت کو کاٹن گرین اسٹیشن کے پاس منتقل کردیا گیا۔ آج یہ عمارت اسٹیشن کے سامنے ہے۔ اطراف کے گھاس کے میدانوں کے پیش نظر اس عمارت پر سبز رنگ کیا گیا تھا۔ لہٰذا اس اسٹیشن اور علاقہ کا نام کاٹن گرین رکھ دیا گیا۔
X
3/10
سائن اسٹیشناس علاقے کو پہلے صیون کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ ممبئی شہر کی حد کہلاتا تھا۔ پرتگالیوں کی شہر کے شمالی حصے پر حکومت تھی جبکہ برطانویوں کی جنوبی حصے پر۔ اسے ’’شیو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ مراٹھی زبان میں اس کا معنی ہے ’’سرحد۔‘‘ پرتگالیوں نے یہاں کی پہاڑی (جہاں آج سائن اسٹیشن ہے) پرایک چرچ بنایا تھا جسے ماؤنٹ صیون کا نام دیا گیا۔ لیکن جب پرتگالیوں اور برطانویوں کا غلبہ ختم ہونے لگا تو لوگوں نے اس علاقے کو سائن کہنا شروع کردیا اور آج یہ اسی نام سے جانا جاتا ہے۔
X
4/10
ودیا ویہار اسٹیشنسومیا خاندان نے ۱۹۶۰ء میں اس علاقے میں ایک بڑا تعلیمی ادارہ ’’سومیا کالج‘‘ قائم کیا تھا۔ یہ ایک بڑا کیمپس ہے جس میں مختلف کورسیز کے کئی کالجز ہیں۔ اس ادارے کو پہلے ’’سومیا ودیا ویہار‘‘ کہا جاتا تھا جو کرلا اور گھاٹکوپر کے درمیان کا علاقہ تھا۔ طلبہ کی بڑھتی تعداد اور کمرشیل آبادی کی وجہ سے یہاں اسٹیشن تعمیر کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ اس لئے اس اسٹیشن اور علاقے کو ’’ودیا ویہار‘‘ کا نام دیا گیا۔ تاہم، سومیا خاندان نے کالج کے نام سے ودیا ویہار نکال دیا ہے۔
X
5/10
گھاٹکوپر اسٹیشنشمال مشرقی ممبئی میں گھاٹکوپر کو ایک اہم علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ ممبئی کی پہلی میٹرو ٹرین بھی یہیں سے چلائی گئی۔ آج سے ۵۰؍ سال قبل یہ علاقہ یکسر مختلف تھا۔ ممبئی کی آبادی میں اچانک اضافہ کے سبب لوگ مضافات کے حصوں میں آباد ہونے لگے تھے۔ چونکہ گھاٹکوپر قریب تھا اس لئے یہ علاقہ جلد ہی آباد ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ مغربی گھاٹ اس علاقے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت یہ ’’گھاٹ کوپرا‘‘ کہلاتا تھا۔ تاہم، آج یہ گھاٹکوپر کے نام سے مشہور ہے۔
X
6/10
چرچ گیٹ اسٹیشنیہ ممبئی کا ایک مشہور اور مصروف لوکل ریلوے اسٹیشن ہے۔ برسوں پہلے ممبئی میں داخل ہونے کے ۳؍ گیٹ تھے جن میں سے ایک فلورا فاؤنٹین کے قریب واقع تھا۔ اس دوران اس علاقے میں سینٹ تھامس کیتھڈرل تھا۔ لہٰذا فلورا کے قریب بڑے گیٹ کو مقامی لوگوں نے ’’چرچ گیٹ‘‘ کا نام دے دیا۔ ۱۹؍ ویں صدی کے وسط میں جب شہری علاقے میں توسیع کی گئی تو دروازوں کو توڑ دیا گیا لیکن یہ علاقہ چرچ گیٹ کے نام سے مشہور ہوگیا اس لئے اسٹیشن کو یہی نام دیا گیا۔
X
7/10
چرنی روڈ اسٹیشن۱۸۰۰ء کی دہائی میں یہ علاقہ گنجان نہیں تھا۔ یہاں چرواہوں کی آبادی تھی جن کے مویشی علاقے کی زمین پر چرتے رہتے تھے۔ یہ افراد روزی روٹی کیلئے ان مویشیوں پر انحصار کرتے تھے۔ اس میں تبدیلی اس وقت آئی جب انگریزوں نے مویشیوں کو چرانے کیلئے ٹیکس عائد کر دیا جو بہت سے چرواہے ادا نہیں کرسکتے تھے۔اس دوران سر جمشید جی نے مویشیوں کو مفت چروانے کیلئے یہاں ایک بڑی زمین خریدی اور یہ علاقہ چرنی روڈ کے نام سے مشہور ہوگیا۔
X
8/10
باندرہ اسٹیشنممبئی پہلے ۷؍ جزیروں کا مجموعہ تھا۔ باندرہ وہ علاقہ تھا جہاں پرتگالیوں نے ایک قلعہ تعمیر کیا تھا جسے آج بھی باندرہ فورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس وقت باندرہ اپنی پاش عمارتوں، شاپنگ سینٹر ز اور کارپوریٹ کمپنیوں کے سبب نہیں جانا جاتا تھا۔ چونکہ یہ علاقہ سمندر کے کنارے تھا اس لئے یہاں بندرگاہ واقع تھی۔ مقامی افراد بندر گاہ کو بندرگاہ نہیں بلکہ اسے بگاڑ کر بندر کہتے تھے۔ یہ لفظ بگڑتا گیا اور آہستہ آہستہ باندرہ میں تبدیل ہوگیا۔
X
9/10
ولے پارلے اسٹیشناس علاقے میں پارلے جی بسکٹ کی ایک فیکٹری ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ اسی مناسبت سے اس علاقے کو ولے پارلے کہا جاتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بسکٹ کا نام اس علاقے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ولے پارلے کے باشندوں نے اپنے ۲؍ مقدس دیوتا کے مندر یہاں بنوائے تھے۔ ان دونوں کے نام تھے ’’ولیشور‘‘ اور ’’پارلیشور۔‘‘ دونوں ہی دیوتا کے ناموں کے ابتدائی حصوں کو ملا کر یہ علاقہ ولے پارلے کہلانے لگا۔
X
10/10
گوریگاؤں اسٹیشنکہتے ہیں کہ یہ علاقہ پہلے کیشو اور مرنل گورے جیسے جنگجوؤں اور اصلاح کاروں کیلئے مشہور تھا۔ یہ خاندان ایک عرصہ تک اس علاقے کو اپنے خاندانی نام سے پکارتا رہا۔ چونکہ گورے خاندان یہاں کا بااثر اور طاقتور خاندان تھا اسلئے مقامی اور بیرونی لوگ اسے ’’گورے کا گاؤں‘‘ یعنی گورے خاندان کا گاؤں کہتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ نام اتنا مشہور ہوگیا کہ اسے ’’گوریگاؤں‘‘ کہا جانے لگا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ۱۶؍ ویں صدی سے یہاں موجود تھا۔