Inquilab Logo

فاروق شیخ فلم کی تعداد کے بجائے اس کے معیار پر توجہ دیتے تھے

Updated: June 20, 2024, 12:41 PM IST | Mumbai

۷۰ء کی دہائی میں بطور اداکار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے کیلئے فاروق شیخ ممبئی آئے۔ وہ یہاں تقریبا ً۶؍سال تک جدوجہد کرتے رہے۔ انہیں یقین دہانی تو سبھی کراتے رہے لیکن کام کرنے کا موقع کوئی نہیں دیتا تھا۔

Farooq Sheikh.Photo: INN.
فاروق شیخ۔ تصویر: آئی این این۔

فاروق شیخ کی۲۵؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو گجرات کے شہر بدولی کے قریب ایک گاؤں نشوالی، امراہلی ضلع بڑودہ میں پید اہوئے تھے۔ ان کے والد مصطفی شیخ ممبئی کے معروف وکیل تھے۔ فاروق شیخ ۵؍ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے سینٹ میری اسکول، ممبئی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سینٹ زیوئر کالج، ممبئی اور بھر قانون کی سند سدھارتھ کالج سے حاصل کی۔ وہ کچھ دن اپنے والد کے ساتھ وکالت کرتے رہے مگر وہ وکالت کے میدان میں کامیاب نہ ہوسکے۔ فاروق شیخ نے قانون کے پیشے میں ناکام رہنے کے بعد تھیٹر کا رخ کیااور پونے فلم انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے دنوں میں وہ اداکاری اور اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیتے تھے اور یہیں پر ان کی ملاقات ان کی مستقبل کی شریک حیات، روپا سے ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں ثناء شیخ اور شائستہ شیخ ہیں۔ وہ بہت شستہ اردو میں گفتگو کیا کرتے تھےاور ان کا طرز تحریربھی بہت خوبصورت تھا۔ کئی فلمی مکالمہ نگار، اپنی اسکرپٹ میں زبان و بیان کی اصلاح فاروق شیخ سے کرایا کرتے تھے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں ان کا ذوق بہت اعلی تھا۔ اکثر ولی دکنی، غالب، میر، مومن، فیض، مخدوم محی الدین اور مجاز کے شعر گنگناتے تھے۔ 
۷۰ء کی دہائی میں بطور اداکار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے کیلئے فاروق شیخ ممبئی آئے۔ وہ یہاں تقریبا ً۶؍سال تک جدوجہد کرتے رہے۔ انہیں یقین دہانی تو سبھی کراتے رہے لیکن کام کرنے کا موقع کوئی نہیں دیتا تھا۔ پھر فاروق شیخ کو۱۹۷۳ء میں ہندوستان کی آزادی پر بننے والی فلم ’گرم ہوا‘ میں کام کرنے کا موقع ملا اور یہیں سے ان کے فلمی کریئر کا آغاز ہوا۔ اس فلم میں کام کرنے کا معاوضہ انہیں ۷۵۰؍ روپے ملا تھا۔ يوں تو پوری فلم اداکار بلراج ساہنی پر مبنی تھی لیکن اس فلم سے فاروق شیخ ناظرین کے درمیان کچھ حد تک اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ ا س کے بعد عظیم ڈائریکٹر ستیہ جیت رے کی فلم شطرنج کے کھلاڑی میں انہیں کام کرنے کا موقع ملا لیکن اس سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ فاروق کی قسمت کا ستارہ ہدایت کار یش چوپڑہ کی۱۹۷۹ءکی فلم نوری سے چمکا۔ بہترین نغمے، موسیقی اور اداکاری سے سجی اس فلم کی کامیابی نے نہ صرف ان کو بلکہ اداکارہ پونم ڈھلوں کو بھی اسٹار بنادیا۔ فلم میں لتا منگیشکر کی آواز میں ‘ آجا رے آجا رے میرے دلبر آجا’ نغمہ آج بھی سامعین کو مسحور کر دیتا ہے۔ ۱۹۸۱ءمیں فاروق کے فلمی کریئر کی اہم فلم امرا ؤ جان ریلیز ہوئی۔ مرزا ہادی رسوا کے مشہور اردو ناول پر مبنی اس فلم میں انہوں نے نواب سلطان کا کردار نبھایا جو امرا ؤ جان سے محبت کرتا ہے۔ اپنے اس کردار کو انہوں نے اتنی سنجیدگی سے نبھایا جسے ناظرین آج بھی بھول نہیں پائے ہیں۔ اس فلم کے سدا بہار نغمے آج بھی ناظرین اور سامعین کی زبان پر ہیں۔ ۱۹۸۲ءمیں ان کے فلمی کریئر کی ایک اور اہم فلم بازار پردہ سمیں کی رونق بنی۔ ساگر سرحدی کی ہدایت میں بنی اس فلم میں ان کے مد مقابل آرٹ فلموں کے افسانوی کردار سمتا پاٹل اور نصيرالدين شاہ جیسی مایہ ناز شخصیات تھیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے کردار کے ذریعے ناظرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔ 
۱۹۸۳ءمیں فاروق شیخ کو ایک سائی پرانجبے کی فلم كتھا میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کی کہانی میں جدید کچھوے اور خرگوش کے درمیان ریس کی لڑائی کو دکھایا گیا تھا، اس میں وہ خرگوش کے کردار میں دکھائی دیئے جبکہ نصيرالدين شاہ كچھوے کے کردار میں نظر آئے تھے۔ اس فلم میں انہوں نے کسی حد تک منفی کردار ادا کیا، اس کے باوجود وہ شائقین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK