• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آج کی نئی نسل سوچتی ہے اورہم میں سے بیشتر ’بڑوں‘ سے زیادہ سوچتی ہے اور زیادہ باشعور ہے

Updated: December 10, 2019, 11:32 PM IST | Prof Syed Iqbal | Mumbai

یوم اطفال تو گزرچکا لیکن ہم نے بچوں پر کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ پڑھی تو جی چاہا کہ آپ کوبھی اس رپورٹ کے نتائج سے آگاہ کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی بچوں کے مزاج کوکوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی، نہ والدین کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو بچے گھر کے گوشوں میں بیٹھ کر اسٹڈی کرنے کا ڈراما کررہے ہیں یا اپنے موبائل میں مصروف ہیں

آج کی نسل پرانی نسل سے زیادہ باشعور ہے۔ جاگرن
آج کی نسل پرانی نسل سے زیادہ باشعور ہے۔ جاگرن

 یوں تو عالمی سطح پر یوم اطفال ۲۰؍ نومبر کو منایا جاتا ہے مگر اکثر ممالک نے اس تاریخ میں ردوبدل کرلی ہے اوراپنے کسی اہم واقعے کی یادمیں یوم اطفال منانے لگے ہیں۔ ہم نے بھی جواہر لال نہرو کی یادمیں ان کے یوم ولادت(۱۴؍ نومبر) کو یوم اطفال قراردے دیا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سال میں کم از کم ایک بار بچوں کی تعلیم وتربیت کے کاموں کا جائزہ لے کر اندازہ لگاسکیں کہ واقعی ملک میں ان کی فلاح وبہبود کے لئے ٹھوس کام ہورہے ہیں۔ویسے تویہ بات بڑی روایتی ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن ذرا رُک کر سوچیں تو ہرجانے والی نسل اپنا ملک نوجوانوں کے حوالے کرکے جاتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لئے اچھی روایتیں ، صحت مند اقدار ، بہترتعلیمی اور صحت کا نظام نہ چھوڑسکے تویہی نسل ہمیں الزام دے گی کہ یہ کیسے لوگ تھے جنہیں بچوں کے مستقبل کا کوئی خیال نہیں کیا۔ یاد رکھئے، پچھلی نسلوں کے مقابلے میں موجودہ نسل کچھ زیادہ ذہین اورحساس ہے اور صاف گو بھی ہے۔ وہ اشاروں کنایوں میں بات نہیں کرتی۔ جو سوچتی ہے، وہ کھل کر کہہ دیتی ہے۔ آپ اسے ایک حد تک بے ادب بھی کہہ سکتے ہیں مگر جس طرح کی بے ادبی ( جسے وہ خوداعتمادی کا نام دیتے ہیں ) ان کے خمیر میں رچی ہوئی ہے اس کے پیش نظر ہی ہمیں اس نسل کا رویہ بڑی حد تک صحیح نظرآتا ہے۔
 یوم اطفال تو گزرچکا لیکن ہم نے بچوں پر کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ پڑھی تو جی چاہا کہ آپ کوبھی اس رپورٹ کے نتائج سے آگاہ کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی بچوں کے مزاج کوکوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی، نہ والدین کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو بچے گھر کے گوشوں میں بیٹھ کر اسٹڈی کرنے کا ڈراما کررہے ہیں یا اپنے موبائل میں مصروف ہیں، ان کے اندر کتنا طوفان برپا ہے؟ دس گیارہ سال کے وہ بچے جنہیں ہم نادانی سے ’بچہ‘کہہ کر اہمیت نہیں دیتے، وہ بھی اپنی پسند ناپسند کے معاملے میںکتنی ٹھوس رائے رکھتے ہیں،ہم نہیں جان پاتےحالانکہ ان بچوں کی بڑی تعداد متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے .... مگر اس کچی عمر میں بھی یہ بچے خواب دیکھتے ہیں اوراپنے خوابوں کی منزل کو پانے کے لئے منصوبےبھی بناتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہم میں سے اکثر والدین انہیں سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایک معیاری اسکول میں داخلہ دلوا کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا۔ اب یہ بات یقینی ہے کہ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوں گے اور انہیں کسی اچھے کالج میں داخلہ مل جائے گا۔ یہی نہیں فارغ التحصیل ہونے کے بعد بالآخر کچھ نہ کچھ بن ہی جائیں گے۔ اس سارے مرحلے میں بچوں کی پسند ناپسند کیا ہے؟ ان کے رجحانات کیا ہیں؟ وہ مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اور اپنے لئے کس راہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں؟ والدین کی اکثریت اپنی مصروفیت، لاعلمی یا بیجا پیارکے سبب جان ہی نہیں پاتی لہٰذا ذیل کی رپورٹ میں گیارہ سے پندرہ سال کے بچوں کے خیالات جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہم میں سے بیشتر ’بڑوں‘ سے زیادہ باشعور ہیں۔
  ملک کے سات بڑے شہروں، ممبئی، دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، کلکتہ، چندی گڑھ اور پونے کے نوجوانوں..... نہیں... بلکہ بچوں کے انٹرویوز پر مشتمل یہ رپورٹ چشم کشا ہے۔ اس رپورٹ میں کوئی صاحبزادے ’سوس‘ کھانے کے متمنی ہیں تو کوئی بہتر روزگار کا متلاشی ہے۔ کسی کو یہ فکر ستارہی ہے کہ وہ اپنے وقت کا مناسب استعمال نہیں کرپاتا تو کوئی ناکامیابی سے خوفزدہ ہے۔ یہ بچے ملک سے غربت، کرپشن اور ذات پات ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اچھا تعلیمی نظام لانا چاہتے ہیں تاکہ معاشرے میں خوشگوار تبدیلیاں نظرآئیں۔ ان معصوم ذہنوں کے جوابات پڑھ کر احساس ہوا کہ ملک کی آلودہ فضاؤں میں آج بھی چند گوشے ہیں جہاں صاف ستھری ہوائیں چل رہی ہیں۔
  جب ان سے پوچھا گیا کہ اسکول کے اوقات کے بعد آپ کو کون سی بات پریشان کرتی ہے؟ تو ان میں سے اکثر نے بتایا کہ انہیں وقت کے ضیاع کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ فکر بھی کہ ہمارے بزرگ سارا وقت بچوں کی نگرانی کرتے ہیں اور ذرا سی لغزش پر برس بھی پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں اکثر بچے سماجی دباؤ سے بھی فکر مند رہتے ہیں جو انہیں اپنے انداز  میں جینے نہیں دیتا۔ انہیں اپنے غیر واضح مستقبل کی فکر بھی ہردم ستاتی ہے۔ ایک بچہ تو اپنے چھوٹے بھائی کیلئے فکرمند تھا جو پڑھائی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اکیلے اپنے گھر سے دور کہیں گئے ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ اکثر بچوں کو اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہوںنے محلے کی کرانہ کی دکان تک یا قریبی بازار تک کا ’سفر‘کیا ہے ۔ جانا ہوا بھی تو والدین کے ساتھ کسی مذہبی مقام یا کسی عزیز کے گھر تک گئے ہیں۔ ان بچوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کون سی اشیاء اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان میں قلم ، رنگین پنسلیں ، دوستوں کی تصویریں اور گٹار شامل ہے۔ موبائل فون تو لازم وملزوم تھے اورنئے سینڈلیز،جینز اورنئے کپڑے بھی انہیں محبوب ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ۱۸؍ سال کے ہوجانے کے بعد کیا کرنا چاہیں گے تو ایک صاحبزادے نے کہا کہ وہ سب سے پہلے ڈرائیورنگ لائسنس کے لئے درخواست دیں گے تاکہ کارچلاسکیں۔کسی نے کہا کہ جدید ترین فون خریدوں گا، کوئی صاحب کھلی جگہ پر ایک خوبصورت باغ بنوانا چاہیں گے، ایک درد مند صاحبزادے پارٹ ٹائم کام کی تلاش کرکے اپنے ذاتی اخراجات پورے کرنے چاہیں گے۔ کسی کو ملک کے تاریخی مقامات کی سیر کرنے کی خواہش ہے۔ جب ان بچوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز سے نفرت کرتے ہیں؟ تو ایک صاحبزادے نے کہا کہ انہیں جھینگروں سے نفرت ہے۔ کسی نے کہا انہیں زور زور سے ہارن بجانے والوں سے چڑہے، سنجیدہ مزاج رکھنے والے بچوں نے کہا کہ جھوٹ ، دغا بازی اور تشدد سے نفرت ہے، بے ترتیبی اور بدسلیقگی سے نفرت ہے اور کچھ کو ان لوگوں سے نفرت ہےجو دوسروںکے معاملات میں خواہ مخواہ اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ ایک صاحبزادے نے کہا کہ انہیں وہ لوگ بھی ناپسند ہیں جو لڑکوں اور لڑکیوں میں امتیاز برتتے ہیں۔
  سروے کے دوران بچوں سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ انہیں ایک ہزار روپے دیئے جائیں تو وہ اسے کیسے خرچ کریں گے؟ جو ابات کچھ اس طرح تھے۔میںپارٹی کروں گا،میں ان پیسوں سے کہانیوں کی کتابیں خریدوں گا، میں سوس اور بریانی منگوا کر کھاؤں گا، میں اسے بہن کو تحفے میں دوں گا جس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے ، میں ایک نیا گیم خریدوں گا، ایک صاحبزادی بولیں کہ وہ اسے مستقبل کے لئے محفوظ رکھے گی۔ اگلا سوال بچوں کی خواہشوں سے متعلق تھا ۔ کوئی خواہش جوہنوز پوری نہ ہوئی ہو؟ جواب تھا، یوں تو ہزاروں خواہشیں ہیں جو ابھی تک تشنۂ تکمیل ہیں مگر جی چاہتا ہے کہ جلدہی اس قابل ہوجاؤں کہ اپنے گھر کی مرمت کراسکوں، ایک مرسیڈیز کارخریدلوں، پرندوں کی طرح اڑنے لگوں، آئی اے ایس افسر بن جاؤں ، ساری دنیا میں مشہور ہوجاؤں، دنیا کے سارے انسانوں کے دُکھوں کو ایک صندوق میں جمع کرکے اسے زمین میں دفن کردوں، ایک بڑا سا یتیم خانہ تعمیر کرکے دنیا کے سارے یتیم بچوں کو ایک اچھی زندگی دوں، اپنے گھروالوں کو ہرطرح کی خوشیوں سے مالا مال کردوں، غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے کے قابل بن سکوں، ایک شاندار کتب خانہ بناؤں ، ایک ایسی دنیا بناؤں جس میں کسی بچے کو اپنی آرزؤں کی تکمیل کے لئے دوسروں کا دست نگر نہ بننا پڑے اور ایک صاحبزادے تو یہاں تک کہہ گئے کہ میں ایسی دنیا کی تعمیر کرنا چاہتا ہوں ، جہاں ہر شخص خوش رہے اور لمبی عمر پائے۔
  جب ان بچوں سے پوچھا گیا کہ وہ زندگی میں کون سا پیشہ اپنانا چاہتے ہیں توکسی نے کہا کہ وہ فوج میں اعلیٰ افسر بننا چاہتا ہے ، کوئی مصور بننا چاہتا تھا ، کسی کو طبلہ نواز بننے میں دلچسپی ہے، کوئی اداکار بننے کا خواہش مند ہے اورکوئی سیاستداں بننا چاہتا ہے۔ سیاستداں کیوں؟ اس سوال کے جواب میں بچوں نے کہا کہ آج سیاست زندگی کے ہر شعبے پر غالب ہے اورجب تک آپ کے پاس سیاسی طاقت نہ ہو، آپ معاشرے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ جب ان سے آخری سوال کیا گیا کہ ان کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو ان ننھے منے بچوں نے بڑی سمجھداری سے کہا کہ آج لوگ اتنے خودغرض ہوچکے ہیں کہ لوگوں نے دوسروں کے متعلق سوچنا ہی چھوڑدیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خود غرضی اورانا پسندی کو اس دنیا سے ختم کیاجائے۔ جب تک خیر خواہی اور بھائی چارگی کو فروغ نہیں ملتا، اس دنیا میں مختلف مسائل سرابھارتے رہیں گے۔ کچھ کے نزدیک کرپشن سب سے اہم مسئلہ تھا، کچھ بچوں نے ذہنی تناؤ، تشنج اور لاعلاج بیماریوں کو انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ کچھ نے فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کو مسئلہ ٹھہرایا۔ کچھ بیروزگاری کو سارے مسائل کی جڑسمجھتے ہیں اورکچھ نے حُبّ مال کو انسانوں کے لئے زہر قراردیا کیونکہ دولت کی حرص نے لوگوں کو محبت، دوستی وفاداری ایسی ساری قدروں سے بیگانہ کردیا ہے جو ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں معاون ہوسکتی ہیں۔
  اپنے اپنے گھروں کی چاردیواروں میں محفوظ یہ گیارہ تا پندرہ سال کے بچے جنہیں ابھی تک زندگی کے دکھ درد کا احساس نہیں ہے ، جنہیں تین وقت کھانا میز پر سجا ہوا مل جاتا ہے ، جنہیں اسکول کی فیس ، یونیفارم ، کتابیں اور جیب خرچ بآسانی دستیاب ہے، اس کے باوجود وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور آس پاس کی دنیا کے دکھوں کا شعور رکھتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو ہم سلام کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم سے پڑھنے والی مغربی تہذیب کی پروردہ یہ نسل ہمیشہ اپنے ہندوستانی ہونے کے احساس سے معمور رہے اوراپنے عزیزوں ، پڑوسیوں اور ہم وطنوں کی خیرخواہی کرتی رہے۔ اردو ذریعہ تعلیم سے پڑھنے والوں کا ایسا سروے ہماری نظروں سے نہیں گزرا مگر ہمیں امید ہے کہ ہمارے بچے بھی اتنے ذہین اور باشعور اور مثبت سوچ کے حامل ہوں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK