محمد رفیع ایک ایسا نام اور ایک ایسی آواز جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتاکیوں کہ ان کی آواز دل سے نکلتی تھی اور ہر سننے والے کے دل میں سماجاتی ہے۔
EPAPER
Updated: July 31, 2024, 11:46 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
محمد رفیع ایک ایسا نام اور ایک ایسی آواز جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتاکیوں کہ ان کی آواز دل سے نکلتی تھی اور ہر سننے والے کے دل میں سماجاتی ہے۔
محمد رفیع ایک ایسا نام اور ایک ایسی آواز جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتاکیوں کہ ان کی آواز دل سے نکلتی تھی اور ہر سننے والے کے دل میں سماجاتی ہے۔ آج ان کو ہم سے جدا ہوئے ۴۴؍سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے لیکن آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہیں کہیں ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کے گیت ہمیں محظوظ کررہے ہیں۔ ان کے گیتوں کو جب بھی سنو وہ نئے جیسے لگتے ہیں اور ان میں وہ کشش ہوتی ہے کہ انہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ آج بھی لاکھوں گیت بن رہے ہیں، ان میں سے جو عوام کے کانوں کو بھلے لگتے ہیں وہ بھی زیادہ سے چند ماہ ہی سنائی دیتے ہیں اس کے بعد کہیں غائب ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں سننے کا دل بھی نہیں چاہتالیکن محمد رفیع کے گیت کئی دہائیوں بعد آج بھی جب کہیں سنائی دیتے ہیں تواسے پورا سنے بغیر کوئی بھی شخص ان سے کان نہیں ہٹا پاتا۔
محمد رفیع امرتسر کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں ۲۴؍دسمبر ۱۹۲۴ء کوپیدا ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے بچپن میں ایک فقیر ان کی گلی میں آتاتھا اوربھیک مانگنے کیلئےبلند آوازمیں گیت گاتا تھا۔ جس طرح عام طور پر بچے ایسی چیزوں سے متاثر ہوجاتے ہیں اسی طرح محمد رفیع بھی اس سےمتاثر ہوتے تھے اور اس کے ساتھ اس کے گیتوں کو گانے لگتے تھے۔ محمدرفیع نے استاد عبدالوحید خان، پنڈت جیون لال مٹو اور فیروز نظامی سے کلاسیکل موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔
ایک مرتبہ ان کے بڑے بھائی حمید محمدرفیع کو لے کر کے ایل سہگل کےموسیقی کےپروگرام میں گئے تھے، لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سےسہگل نےگانےسےانکار کر دیا۔ حمید نے پروگرام کے منتظین سےگزارش کی کہ وہ ان کے بھائی کو پروگرام میں گانے کا موقع دیں۔ منتظمین کے راضی ہونے پررفیع نےپہلی بار محض ۱۳؍سال کی عمرمیں اپنا پہلا نغمہ اسٹیج پر پیش کیا تھا۔ سامعین کے درمیان اس وقت کے مشہور موسیقارشیام سندر بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہیں رفیع کا نغمہ پسند آیا اور انہوں نے رفیع کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔
شیام سندر نے محمد رفیع کوپنجابی فلم’گل بلوچ‘میں زینت بیگم کے ساتھ گیت’سونیے نی ہیریئے ‘ گانے کا موقع دیا۔ اس کے بعد موسیقار نوشاد نے انہیں فلم’پہلے آپ‘ کیلئے گیت’ہندوستان کے ہم ہیں ‘ گانے کا موقع دیا۔ ۱۹۴۹ءمیں نوشاد کی موسیقی میں فلم دلاری کیلئےگائے ہوئےگانے’سهانی رات ڈھل چکی…‘کے ذریعے ان پر کامیابی کے دروازےکھل گئے۔ اس کے بعدایک سے ایک گیت منظر عام پر آتے گئے اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے رہے۔
دلیپ کمار، دیو آنند، شمی کپور، راجندر کمار، ششی کپور، راجکمار جیسے نامور ہیرو کی آوازکہے جانے والے رفیع نے اپنے طویل کریئر میں تقریباً۷۰۰؍فلموں کے لیے۲۶؍ہزارسے بھی زیادہ گانے گائے۔
جو لوگ ان سے ملے یا جنہوں نے انہیں دیکھا وہ ان کی گلوکاری سے زیادہ ان کی انسانیت کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ جتنے اچھے گلوکار تھے اس سے کہیں زیادہ نیک انسان تھے۔ ان کادردمند دل ہر اس شخص کیلئے دھڑکتا تھا جوکسی پریشانی میں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ۳۱؍جولائی۱۹۸۰ء کو جب ان کا انتقال ہوا تواطلاعات کے مطابق ۱۰؍ہزار سے زیادہ افراد نے ان کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ ایک طرف تیز بارش ہورہی تھی گویا آسمان بھی ان کے انتقال پر رورہا تھا اوردوسری جانب ان کے چاہنے والے دور دور سے اپنے چہیتے فنکار کا آخری دیدار کرنےکیلئے بے قرار تھے۔