وزارت اقلیتی امور نے حلف نامہ داخل کرکے کہا کہ مقدمہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے
EPAPER
Updated: April 19, 2025, 11:25 PM IST | Ajmer
وزارت اقلیتی امور نے حلف نامہ داخل کرکے کہا کہ مقدمہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے
راجستھان کے تاریخی شہر اجمیر میں واقع عالمی شہرت یافتہ صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی تاریخی درگاہ کے خلاف داخل کئے گئے مقدمےمیں سنیچر کو ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔مرکزی حکومت نے ہندو سینا کے مقدمے پر اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے اور سفارش کی ہے کہ یہ کیس فوری طور پر خارج کیا جائے کیوں کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ اس مقدمہ میں کوئی دَم ہے۔
واضح رہے کہ ہندو سینا کی جانب سے داخل اس مقدمے میں درگاہ کو قدیم شیو مندر قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقدمے پر کافی لے دے ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے مرکزی حکومت نے سخت موقف اپناتے ہوئے مقدمہ خارج کرنے کی سفارش کی ہے۔یہ سفارش جمعہ ۱۹؍اپریل کو اجمیر کی ضلع عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے دی گئی۔ وزارت نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ ہندو سینا کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ قانونی طور پر ناقابل سماعت ہے اور اس میں کوئی معقول بنیاد موجود نہیں ہے جس پر عدالت غور کرے۔وزارت نے مزید کہا کہ مقدمہ صرف عوامی توجہ حاصل کرنے کے لئے داخل کیا گیا ہے۔اس کا کوئی آئینی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزارت نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ مقدمے میں حکومت ہند کو فریق نہیں بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ انگریزی میں دائر مقدمے کا درست ہندی ترجمہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔وزارت کے مطابق مقدمے کے اصل متن اور اس کے ترجمے میں فرق پایا گیا ہے جبکہ گزشتہ برس ۲۷؍ نومبر کو عدالت میں ہونے والے سماعت کے دوران مخالف فریقین کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر حکومت نے عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی سفارش کی ہے۔مرکزی حکومت کے اس مؤقف کو دیکھتے ہوئے عدالت نے جمعہ کو سماعت ملتوی کردی تھی اور اس معاملے کی اگلی سماعت کیلئے ۳۱؍مئی کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
اب عدالت میں آئندہ سماعت کے دوران ہندو سینا کو مرکز کی سفارش پر اپنا جواب داخل کرنا ہوگا۔اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے ہندو سینا کے صدر وشو گپتا نے کہا کہ مقدمے میں اگر کوئی تکنیکی خامی پائی گئی ہے تو اسے دور کیا جائے گا اور قانونی مشورے کے بعد مناسب جواب عدالت میں داخل کیا جائے گا۔دوسری طرف مسلم فریق نے مرکزی حکومت کے مؤقف کا خیرمقدم کیا ہے۔ درگاہ کے خادموں کی نمائندہ تنظیموں کے وکیل آشیش کمار سنگھ نے کہا کہ ہم شروع سے ہی مقدمے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے آئے ہیں۔ ان کے مطابق، اس مقدمے کا مقصد صرف عوامی مقبولیت حاصل کرنا تھا اور اس کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔مسلم فریق نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ مرکز نے سچائی پر مبنی اور قانون کے مطابق مؤقف اختیار کیا ہے اور عدالت سے ایک بار پھر اس مقدمے کو خارج کرنے کی اپیل کی ہے۔