Inquilab Logo

بے خوف اور بہادر ایڈوکیٹ کی سچائی کیلئے قانونی لڑائی

Updated: June 03, 2023, 11:49 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

منوج باجپئی نے اپنی اداکاری سے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی کردار میں آسانی سے ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں

An inspiring scene from Manoj Bajpayee`s film "Sher Ek Banda Kafi Hai".
منوج باجپائی کی فلم ’’صرف ایک بندہ کافی ہے‘‘ کا ایک متاثر کن منظر

جودھپور کا ایک عام مگر پوکسو قانون کا ماہر وکیل سمجھا جانے والاایڈوکیٹ پی سی سولنکی (منوج باجپائی) ملک کے شہرت یافتہ وکلاء سے اپنی ۱۶؍ سالہ کلائنٹ (ادریجا شرما) کیلئے لڑ رہا ہے جس نے ایک مشہور بابا (سوریہ موہن کل شریتھا) پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنےآشرم میں اس کی عصمت دری کی ہے۔ یہ ایک کورٹ ڈراما اور جرائم پر مبنی فلم ہے ۔ ’نو‘(ادریجا) اور ایڈوکیٹ سولنکی، اور ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، اور یہ مقدمہ جودھپورکے سیشن کورٹ میں ۵؍ سال تک چلتا ہے۔
موضوع: فلم میں پوکسو اور عصمت دری جیسے موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے اس لئے اس کا بیشتر حصہ عدالت میں شوٹ ہواہے۔ یہ فلم حقیقی کہانی اور کرداروں پر مبنی ہے۔ فلم رائٹر دیپک کنگرانی نے ۵؍ سال چلنے والے اس مقدمے کے حوالے سے قانون کے اہم پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے لیکن فلم دیکھنے کے دوران کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ کچھ موضوعات کو ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے، یا، مختلف چیزوں کو ایک ساتھ دکھانے کی کوشش میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ 
ہدایتکاری: اپورو سنگھ کارکی نے اپنی ہدایتکاری سے فلم کی کہانی کے ساتھ انصاف کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ انہوں نے ’’دی عام آدمی فیملی‘‘ اور ’’اسپیرنٹ‘‘ جیسی عوام میں پسند کی جانے والی ویب سیریز کی ہدایتکاری کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ تاہم، اپورو سنگھ فلم کے چند مناظر کو مزیدبہتربناسکتے تھے۔ 
 فلم کی ابتداء متاثر کن ہے کہ کس طرح پولیس فورس بابا کو گرفتار کرنےکیلئے ان کے آشرم کو گھیر لیتی ہے جبکہ ان کے بھکت انہیں پولیس کے گھیرے سے نکالنے کی کوشش میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں لیکن پولیس کے آگے ان کی ایک نہیں چلتی۔ 
اداکاری: منوج باجپائی ایک شاندار اداکار ہیں، اور اس فلم میں انہوںنے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ انہوں نے ایک جودھپوری ایڈوکیٹ کاکردار بخوبی نبھایاہے۔فلم کے کسی بھی منظر میں اُن کی اداکاری کمزور پڑتی دکھائی نہیں دیتی۔ ادریجا شرما کے مناظر کم ہیں مگر اپنی بہترین کارکردگی سےانہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اداکاری کے میدان میں ان کا مستقبل روشن ہے۔ وِپن شرما نے ایڈوکیٹ شرما (وکیل دفاع ) کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اپنی منفرد اداکاری سے فلم شائقین کے ذہنوں پر اچھا نقش قائم کیا ہے۔ فلم میں چھوٹے کردار نبھانےوالے تمام اداکاروں نے اتنی اچھی اداکاری کی ہے کہ کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھردیا ہے۔ پولیس کا کردار نبھانے والے اداکاروں نے اپنے مختصر رول کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ اسی طرح کمرۂ عدالت میں موجود افراد اور وکلاء نے بھی اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کیا ہے کہ ایک سنگین مقدمہ کی سماعت ہورہی ہے۔
ایڈیٹنگ: فلم کا آغاز بہترین ہے لیکن ابتدائی ۱۵؍ منٹوں کے بعد مناظر کے درمیان تسلسل محسوس نہیں ہوتا، اور اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ بیچ میں کہیں کچھ چھوٹ گیا ہے، یا ہوسکتا ہے کہ سینسر بورڈ نے اُسے کاٹ دیا ہو۔ اگر شارپ ایڈیٹنگ ہوتی، فلم میں رونما ہونے والے چند مناظر کو تھوڑا اسکرین ٹائم اور دیا جاتا، اور مناظر میں تسلسل ہوتا تو یہ ایک بہترین فلم ثابت ہوسکتی تھی۔
سنیماٹو گرافی (منظر نگاری): منظرنگاری کمال کی ہے۔ ایڈوکیٹ سولنکی کے گھر کا منظر ہو، عدالتی کمرے ہوں، جودھپور کےمختلف علاقے ہوں یا بابا کا آشرم، فلم میں منظر نگاری عمدہ ہے۔ کسی بھی سین میں نہ تو جھول ہے نہ ہی کسی طرح کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے کمروں کے درمیان جو فرق نظر آیا، وہ یقیناً سنیماٹوگرافی ہی کا کمال ہے۔اسی طرح جودھپورکے چھوٹے چھوٹے جنرل اسٹور، نیم تاریک گلیاں اور وہاں چلائی جانے والی عوامی گاڑیاں، ہر منظر میں نہایت مؤثر ہے۔ 
موسیقی: سنگیت، سدھارتھ اور رائے کی موسیقی فلم کے مناظر، ڈائیلاگ، اداکاروں کے تاثرات اور جذبات سےمیل کھاتے ہیں۔ہرمنظر پر ایک الگ دھن ہے۔ موسیقی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلم میں چلنے والا منظر کس نوعیت کا ہے۔ فلم میں صرف ایک نغمہ ’’بندیا‘‘ ہے جسے سونو نگم نے آواز دی ہے۔ اس کی موسیقی راجستھان کی لوک موسیقی کی طرز پر ترتیب دی گئی ہے۔
 ہندوستانی پولیس کا روایتی انداز، وکلاء کا رویہ، جج صاحبان کے نظریات، بابا کے حامیوں کا جم غفیر، گواہوں کو قتل کرنے کی سازشیں، غرضیکہ۲؍ گھنٹے ۱۲؍ منٹ میں کئی مناظر کافی دلچسپ ہیں تو بعض ایسے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر تھوڑی بہت اکتاہٹ ہوتی ہے۔ فلم کے کچھ حصے پرکشش ہیں تو کچھ کافی سست محسوس ہوتے ہیں۔ 
 جن شائقین ِ فلم کو ایکشن، رومانس اور ایڈونچر فلمیں دیکھنے کا شوق ہے ، وہ اس فلم کو سرسری انداز میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ 
 فلم ’’صرف ایک بندہ کافی ہے‘‘ میں جیت ۱۶؍ سالہ متاثرہ کی ہوتی ہےیا اس بابا کی جس نے ملک کی ترقی کیلئے کئی اسکول، اسپتال ، مندر اور آشرم بنوائے؟ یہ جاننے کیلئے فلم ضرور دیکھئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK