فلم ، ٹی وی اور ویب سیریز اداکار ابھیشیک بنرجی کا کہنا ہے کہ میرے لُک کی وجہ سے کئی بار مجھے رول دینے سے انکار کیا گیا لیکن میں کبھی ہمت نہیں ہارا، جدوجہدکرتا رہا۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 1:25 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
فلم ، ٹی وی اور ویب سیریز اداکار ابھیشیک بنرجی کا کہنا ہے کہ میرے لُک کی وجہ سے کئی بار مجھے رول دینے سے انکار کیا گیا لیکن میں کبھی ہمت نہیں ہارا، جدوجہدکرتا رہا۔
۲۰۰۶ء سے فلم اور ویب انڈسٹری میں سرگرم اداکار ابھیشیک بنرجی اس وقت ہٹ فلموں میں نظرآرہے ہیں اور کیریکٹر رول نبھا کر اپنی شناخت مضبوط کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کریئر کی شروعات ’رنگ دے بسنتی‘ سے کی تھی، اس کے بعد وہ بالی ووڈ کی کامیاب فلمو ں جن میں نو وَن کلڈ جیسیکا، گوگوا گون، پھلوری، ڈریم گرل، بالا، میڈ این چائنا، رشمی راکٹ، ہائی وے، ڈریم گرل۔ ۲، آنکھ مچولی، ویدا اور استری اور استری ۲؍ شامل ہیں، میں اچھے رول نبھاکر شائقین کی توجہ مبذول کروائی۔ اس سال ان کی فلم سوریہ۴۴؍ بھی ریلیز ہونے والی ہے۔ انہوں نے او ٹی ٹی پر بہت سی اچھی ویب سیریز میں کام کیاہے جن میں پاتال لوک اور مرزا پور اہم ہیں۔ وہ اچھے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ کاسٹنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے کئی ویب سیریز اور فلموں میں کاسٹنگ ڈائریکشن کیاہے۔ نمائندہ انقلاب نے فلم، ویب سیریز اور ٹی وی اداکار ابھیشیک بنرجی سے بات چیت کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
دوفلموں کی ایک ساتھ ریلیز کے بعد کیسا محسوس ہوتاہے؟
ج:بہت اچھا لگ رہا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میری دونوں فلمیں ۱۵؍ اگست کے موقع پر ریلیز ہوئی ہیں۔ دراصل کسی نے مجھ سے کہا تھاکہ ۲۶؍جنوری، ۱۵؍ اگست، ۲؍اکتوبر، دیوالی اور عید ایسے مواقع ہوتے ہیں جن پر بڑی فلمیں ہی ریلیز ہوتی ہیں۔ جب میری فلمیں ۱۵؍اگست کو ریلیز ہورہی ہیں تو آپ خود سوچئے کہ میں کیسا محسوس کررہا ہوں۔ میری ۲؍ فلمیں ویدا اور استری۔ ۲؍ یوم آزادی کے موقع پر ریلیز ہوئی ہیں جس سے میں بہت خوش ہوں۔ یہ دونوں بڑ ے بجٹ اور بڑے اسٹار کاسٹ کی فلمیں ہیں۔ فلموں کے کاروبار کے تعلق سے میں زیادہ بات چیت نہیں کرسکتالیکن خوشی ہوتی ہے کہ میں نے اپنی جدوجہد کے بعد اس مقام کو حاصل کیاہے۔ آج ایسا لگ رہا ہے کہ میری لگن، محنت اور ہمت کا مجھے صلہ ملا ہے۔
کامیڈی کرنا کتنا مشکل ہوتاہے ؟
ج:بڑے بڑے اداکاریہی کہتے ہیں کہ کامیڈی کرنا بہت مشکل ہوتاہے جبکہ شائقین کو لگتاہے کہ کوئی بھی اداکار آسانی سے ایسے کردار نبھا لیتاہے۔ آپ کسی بھی طرح کے جذبات اپنی اداکاری میں آسانی سے لے آسکتے ہیں کیونکہ جذبات ہمارے اندر ہوتے ہیں اور یہ فطری ہوتے ہیں جبکہ کامیڈی کیلئے ہمیں اپنے اندر موجودبہت سی چیزوں کو چھپا کرعوام کے سامنے پیش کرنا ہوتاہے۔ میں بھی کئی بار ایسے دور سےگزرا ہوں جب مجھے بہت تکلیف تھی اورمیں پریشانی میں مبتلا تھا اس کے باوجود میں اس پریشانی اور تکلیف کے احساسات کو چہرے پر لائے بغیرہی کامیڈی کررہا تھا۔ کامیڈی کیلئے ٹائمنگ بہت ضروری ہوتاہے اسلئے جب بھی مجھے مزاحیہ رول آفر کیا جاتاہےتو میں اپنی ٹائمنگ پر بہت توجہ دیتاہوں۔ بہرحال شائقین کو کامیڈی جتنی آسان نظرآتی ہے اتنی ہوتی نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے آپ کے والد آپ کے اداکار بننے پر ناراض تھے؟
ج:یہ بات بالکل درست ہے۔ میرے والد مجھے آئی اے ایس افسر بنانا چاہتے تھے۔ میرے والد فوج سے وابستہ رہے ہیں اور میں نے بھی انہیں ہمیشہ وردی ہی میں دیکھا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی سرکاری ملازمت اختیار کرلوں۔ میں نے بچپن ہی سے اپنے والد کو یونیفارم میں دیکھا ہے، تب میں سوچا کرتا تھا کہ یہ کام میرے سے نہیں ہوگا۔ میں اپنے والدین کا اکلوتابیٹا تھا اوراکیلے ہی کھیلتے کھیلتے یہ سوچتا تھا کہ میں بھی اداکار بنوں گا۔ جب میں نے اپنے والد سے کہاکہ میں اداکار بننا چاہتا ہوں تو وہ پہلے بہت غصہ ہوئے تھے کیونکہ مڈل کلاس فیملی یہی چاہتی ہے کہ ان کا بیٹا اچھا روزگار حاصل کرے اور ریٹائرمنٹ تک کام کرے۔ اداکاری کے پروفیشن میں آدمی کبھی بھی ریٹائرڈ ہوجاتا ہے۔ انہیں یہی فکر لاحق تھی کہ میں کماؤں گا کیا اور کھاؤں گا کیا۔ بہرحال جب میں نے خود کو ثابت کردیاکہ میں اچھا کما رہا ہوں تو وہ بھی مطمئن ہوگئے۔ ایک بات یہاں کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم کتنی بھی ترقی کرلیں ہمارا ملک غریب ہے جہاں دو وقت کی روٹی کیلئے آدمی کو سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ بس میرے والدین کو بھی یہی فکر تھی۔
کیا آپ نے اپنے والدین کیلئے بھی کچھ کیاہے ؟
ج: میری اتنی اوقات نہیں ہے کہ میں اپنے والدین کیلئے کچھ کروں بلکہ انہوں نے میرے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ میری بھی خواہش تھی کہ میں اپنے والدین کو پُر سکون زندگی فراہم کروں اسلئے میں نے انہیں کھڑگ پور میں ایک گھر خرید کردیاہے۔ اس وقت اتنے روپے نہیں تھے لیکن آج جب آمدنی بڑھ گئی ہے تو میری یہی کوشش رہتی ہے کہ انہیں خوش رکھوں۔ ہم پہلے ہی سے کھڑگ پورمیں مقیم تھے۔ آج بھی میرے والدین وہیں رہتے ہیں اور میں اب میں ممبئی آگیا ہوں جس کی وجہ سے ان کی یاد بہت آتی ہے۔ آپ کو ایک قصہ ضرور سنانا چاہوں گا کہ آپ کے والدین آپ کا خیال کس طرح رکھتے ہیں۔ بار بار اصرار کرنے پرمیرے والدین نے ایک بار یہ طے کرلیا تھاکہ وہ میرےپاس ممبئی میں آکر رہیں گے۔ انہوں نے اس بات کیلئے ہامی بھری اور میں نے اندھیری میں ایک مکان خریدلیا۔ اس مکان کو بہتر انداز میں بنانے کے بعد جب میں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ ممبئی آجائیں اور میرے پاس رہیں، تب انہوں نے جو جواب دیا وہ میرے لئے بہت اہم تھا۔ انہوں نے کہاتھا کہ ہم کھڑگ پور میں ہی پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں اور ہم یہیں رہیں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ تمہارا پیسہ اچھی جگہ لگایا جائے، اس لئے ہم نے تم سے مکان خریدنے کیلئے کہاتھا۔ اس وقت مجھے ایک بات سمجھ میں آگئی کہ ہم کتنے بھی بڑے ہوجائیں ہم ان کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ وہ ہمارے بارے میں سوچتے ہیں ۔
کیا آپ کے لُک کے بارے میں بھی باتیں ہوتی تھیں ؟
ج:سبھی نے میرا لُک دیکھا ہے اور سبھی کو لگتا تھاکہ میں کہیں سے بھی اداکار نظر نہیں آتاہوں کیونکہ آج کے دور میں جن افراد کالُک بہتر ہوتاہے سبھی انہیں ہی اداکار سمجھتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا کئی بار ہوا کہ بہت سے فلمسازوں اور ڈائریکٹرس نے میرے لُک کی وجہ سے مجھے موقع نہیں دیا۔ اس وقت میں نے بلند حوصلے سے کام لیا اور جدوجہد کرتا رہا۔ دوسری بات عرفان خان، منوج باجپئی اور نوازالدین صدیقی نے لُک کا طلسم توڑ دیا تھا اور ہم جیسے اوسط نظرآنے والے فنکاروں کیلئے بھی راہ ہموار کردی تھی۔ بہرحال میں پہلا اداکار نہیں ہوں جس کے چہرے مہرے اور قدو قامت کے بارے میں کچھ کہا گیا ہو۔ مجھ سے پہلے امیتابھ بچن جیسے مایہ ناز اداکار کو بھی ایسے طعنے سننے کو ملے ہیں۔
آپ کا جدوجہد کا دور کیسا تھا؟
ج:یہ اچھا بھی تھا اورتکلیف دہ بھی۔ جدوجہد کے دور میں آدمی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ میں نے بھی اس دوران بہت سی چیزوں کو سیکھا۔ افسوسناک اس لئے تھا کہ مجھے کوئی اداکار نہیں سمجھتا تھابلکہ یہ کہا جاتا تھا کہ میں کاسٹنگ ڈائریکٹر اس لئے بنا ہوں کہ مجھے کام مل سکے، لیکن کبھی کبھی میرے کاسٹنگ ڈائریکٹر ہوتے ہوئے بھی میں چھوٹے سے رول کیلئے تڑپ جاتا تھا۔ اس وقت میں نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ بہت سے ایسے فلمساز اور ہدایتکار تھے جو مجھے رول دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ایک قصہ مجھے یاد آرہا ہے کہ میرے ایک دوست تھے، وہ مجھے اپنے شناسا سے ملانے لائے تھے، تعارف کرتے ہوئے میرے دوست نے کہا تھاکہ یہ ابھیشیک ہے اور یہ بھی اداکار ہے۔ اس وقت میرے دوست کے شناسا نے میرے منہ پر کہا تھاکہ میں کاسٹنگ ڈائریکٹر تو ہو سکتا ہوں لیکن اداکار نہیں۔ اس وقت میں نے حوصلہ دکھایا تھا۔ چند برسوں کے بعد جب وہی صاحب مجھے ملے اور میری کامیابی کو دیکھا تو انہوں نے تسلیم کیاکہ وہ اس وقت غلط تھے۔ کریئر کے ابتدائی دنوں میں مسلسل انکار کے بعداپنے اداکار ہونے پر بھی شبہ ہوتا تھااور اپنے تھیٹر کے دنوں میں ملنے والی پزیرائی پر بھی شک ہوتا تھا۔ بہرحال بہت سے اچھے ہدایتکاروں کی وجہ سے مجھے موقع ملا اور میں نے شوبز انڈسٹری میں اپنی شناخت قائم کی۔