• Sun, 20 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اگر اہل خانہ کا مکمل تعاون نہ ہوتو آپ فلم انڈسٹری میں نہیں رہ سکیں گے‘‘

Updated: October 20, 2024, 1:14 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

فلم اور ٹی وی اداکارآدتیہ سیل کا کہنا ہےکہ انہوں نے ۱۱؍سال کی عمر میں اداکاری کا فن سیکھا اور ۱۴؍سال کی عمرمیں انہیں فلم مل گئی، اس کے بعد بھی وہ اداکاری سے متعلق تربیت حاصل کرتے رہے۔

Aditya Seal. Photo: INN
آدتیہ سیل۔ تصویر : آئی این این

آدتیہ سیل نے ۲۰۰۲ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ایک چھوٹی سی لواسٹوری‘ سے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس میں وہ منیشا کوئرالاکے ساتھ نظرآئے تھے۔ امسال ان کی ۲؍فلمیں کھیل کھیل میں اور امر پریم کی پریم کہانی ریلیز ہوئی ہیں۔ شروعات فلموں سے کرنے کے بعد انہوں نے کریئر میں ۳؍ٹی وی شوز بھی کئے جس میں فطرت، فوربڈن لو اور دی امپائر شامل ہیں۔ آدتیہ سیل نے پرانی جینس، تم بن ۲، نمستے لندن، اسٹوڈنٹ آف د ی ایئر ۲، ۹۹؍سانگس اور راکٹ گینگ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں۔ نمائندہ انقلاب نے فلم اور ٹی وی اداکارآدتیہ سیل سے بات چیت کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
فلموں کے انتخاب میں کس چیز پر زیادہ توجہ ہوتی ہے ؟
 ج: اب میں اس حالت میں ہوں کہ میں فلموں کا انتخاب کرسکتاہوں۔ ورنہ کریئر کے آغاز میں فلموں کے انتخاب کا زیادہ موقع نہیں ملتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں فلموں کے انتخاب کے وقت اپنے کردار کے بارے میں زیادہ توجہ دیتاہوں۔ میں نہیں چاہتاکہ میں کیمرے کے سامنے جاؤں اور گانے گاکر رومانس کروں۔ میں ایسے کرداروں کا انتخاب کرتاہوں جو مجھے چیلنجنگ لگیں۔ ایسے رول نبھاتا ہوں جو فلم شائقین کے ذہن پر نقش کرجائیں۔ میں اپنے رول کیلئے کافی تیاری کرتاہوں اور مسلسل ریہرسل کرتا رہتاہوں۔ میں نے ہمیشہ ایسے ہی رول ادا کرنے کو ترجیح دی ہے جس کے ذریعہ میں اپنی چھاپ چھوڑ سکوں۔ بطور مثال میری فلم امرپریم کی پریم کہانی لے لیجئے۔ 
کیا فلمیں سماج کا آئینہ ہوتی ہیں ؟
 ج:یہ بات بالکل صحیح ہے۔ سماج میں جو کچھ بھی ہورہاہے، ہم اسے ہی پردے پر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کا جو سنیما ہے وہ حقیقت پسندانہ ہے اور لکھنے والے بھی اپنے اطراف رونما ہونے والے واقعات کو پردے پر پیش کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ امرپریم کی پریم کہانی اس کی اچھی مثال ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سی ویب سیریز بھی سچائی پر مبنی کہانیاں دکھا رہی ہیں۔ سنیما ہر دور میں بدلتا رہتاہے، اس بار اس میں تصوراتی کہانیوں کے بجائے سچائی پر مبنی کہانیاں دکھانے کا رجحان ہے۔ 
 فلموں میں کس طرح آئے اور پہلا موقع کس طرح ملا؟ 
 ج:دراصل میں کرکٹر بننا چاہتا تھا لیکن’ انجریز‘ کی وجہ سے اپنا خواب پورا نہیں کرسکا۔ اس وقت میرے والد نے ایک گڑھ والی فلم بنائی تھی، جس میں انہو ں نے اداکاری بھی کی تھی۔ میرے والدتو کامیاب نہیں ہوسکے لیکن انہوں نے میرے لئے کریئر کا ایک دروازہ کھول دیا۔ ان کا جو خواب ادھورا رہ گیا تھا میں نے اسے پورا کیا۔ پہلے بریک کے بارے میں کیاکہوں۔ میں نے والد کو دیکھا ہے جو آڈیشن کے وقت بچوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ میں انہیں دیکھ کر نروس ہوجاتا تھا اوراپنے مکالمے بھول جاتا تھا۔ میرا حوصلہ پست ہوجاتا تھا اور میں آڈیشن میں ناکام ہوجاتا تھا۔ ایک دن ہمارے ایک شناسا کا فون آیا کہ ایک فلم بن رہی ہے، اس میں نوجوان ادا کار کیلئے آڈیشن ہورہے ہیں تو میں بھی آکر آڈیشن دے دوں۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور آڈیشن دینے پہنچ گیا۔ اس آڈیشن کی خاص بات یہ تھی کہ مکالمے یاد نہیں کرنے تھےبلکہ کاغذ کو ہاتھ میں لے کر ڈائیلاگ کہنے تھے۔ میں نے آڈیشن دے دیا اور اسی رات مجھے پروڈکشن سے کال آگیا۔ اس طرح مجھے ایک چھوٹی سی لواسٹوری میں پہلا بریک مل گیا۔ 
کیا اس کے بعد بھی کبھی جدوجہد جیسے حالات پیدا ہوئے؟
 ج:میں نے ۱۱؍برس کی عمر میں اداکاری کا فن سیکھا اور ۱۴؍ برس کی عمر میں میری بالی ووڈ میں انٹری ہوئی۔ اس کے بعد گھروالوں کی طرف سے دباؤ تھا کہ میں پہلے اپنی تعلیم مکمل کروں اور اس کے بعد باقاعدہ فلموں میں کام کروں۔ اس دوران میں نے اداکاری کی معقول ٹریننگ حاصل کی، اس کے بعد مارشل آرٹ کی ٹریننگ کیلئے جنوبی کوریا گیا۔ میں نے بہت سے ڈانس ماسٹرس کے زیر نگرانی اپنے رقص کو بہتر کیا۔ اس کے بعد میں نے فلموں میں بہتر اندازمیں داخلہ لیا۔ میرے لئے یہ ضروری تھا کہ میں ایک تربیت یافتہ اداکار کی حیثیت سے انڈسٹری میں اپنے پیر جما سکوں ۔ 
 اگر کوئی تعریف کرے تو اس پر کس طرح کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ؟
 ج:اول یہ ہے کہ میں اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھتا ہوں اور اسے بہتر انداز میں انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اپنی تنقید پر زیادہ توجہ دیتاہوں اور تعریف کو اکثر نظرانداز کردیتاہوں۔ تعریف پر توجہ دوں گا تو آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ میں نے ہمیشہ ناقدین کو پسند کیا ہے کیونکہ ان کی وجہ سےہم اپنی اداکاری کو بہتر انداز میں پیش کرتے ہیں اوراس میں مسلسل اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ 
اگر آپ کی کوئی فلم ناکام ہوجاتی ہے تو آپ کے اہل خانہ کس طرح سے آپ کا سپورٹ کرتے ہیں ؟
 ج:اہل خانہ کے سپورٹ کے بغیر انڈسٹری میں قائم رہنا مشکل ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی ہی میرے لئے ٹانک کاکام کرتی ہے۔ میری ایک فلم بڑے بینر تلے بنی تھی جس کانام میں لینانہیں چاہتا، وہ فلم بہت اچھی بنی تھی اور سبھی کو امید تھی کہ وہ کامیاب ہوجائے گی، لیکن وہ ناکام رہی۔ اس وقت میرے اہل خانہ کوبھی اس فلم سے بہت زیادہ امیدیں تھیں۔ جب فلم ناکام ہوئی تو میرے والد نے مجھ سے کہاکہ میں نے فلم دیکھی ہے اور تمہارا کام بہت اچھا تھا۔ انہوں نے کہاتھا کہ میں اس فلم کی ناکامی سے ہمت نہیں ہاروں ، کام کرتا رہوں۔ اگر آپ کے پاس اس طرح کا سپورٹ ہوتو آپ کبھی ہمت نہیں ہار سکتے۔ 
انوشکا رنجن سے کب اور کیسے ملاقات ہوئی تھی؟
 ج:انوشکا رنجن کی والدہ اکثرفنڈ ریزینگ کیلئے شوز کرتی رہتی ہیں اور ایسے ہی ایک شو کے دوران میری ان سے ملاقات ہوگئی تھی۔ میں ذاتی طورپر انوشکا کو نہیں جانتاتھا۔ انسٹاگرام پر ہمارا ہائے ہیلو ہوتا رہتا تھا لیکن جب میں ان کے عشق میں گرفتار ہوا تو میں نے زیادہ دیر نہیں کی اور ان کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کرلیا۔ انوشکا کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ وہ جس سے بھی ملاقات کرتی ہیں اسے اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں۔ وہ اپنی سوچ میں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK