• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مندی کا اعتراف ہی عقلمندی

Updated: December 11, 2019, 9:27 PM IST | Editorial

قومی معاشی بحران پر سابق وزیر مالیات اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نیز آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کے بیانات تواتر کے ساتھ منظر عام پر آتے رہے ہیں

ملک کی جی ڈی پی ۸ء۴ ہو گئی ہے
ملک کی جی ڈی پی ۸ء۴ ہو گئی ہے

 دو ہفتے قبل بی جے پی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے جی ڈی پی کی بابت کہا تھا کہ ’’وہ (اہل اقتدار) اسے ۴ء۸؍ فیصد بتاتے ہیں، میرا کہنا ہے کہ یہ ۱ء۵؍فیصد ہے۔‘‘ وزیر اعظم کے سابق معاشی مشیر اروند سبرامنین نے بھی جی ڈی پی کے کمترین سطح پر ہونے کی حقیقت سے اتفاق کیا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب دوسری سہ ماہی کی رپورٹ منظرعام پر آئی اور یہ خبر عام ہوئی کہ جی ڈی پی ۴ء۵؍ فیصدہوگیا ہے جو کہ ۶؍ سال کی کمترین شرح ہے۔ گزشتہ دنوں ’’جیفریز‘‘ کے گلوبل ہیڈ کرسٹوفر ووڈ نے اپنے ایک بلاگ میں ہندوستانی معاشی بحران پر متعدد زاویوں سے روشنی ڈالی اور مودی حکومت کی پالیسیوں کو ’’شاک تھیراپی‘‘ قرار دیا۔ شاک یعنی جھٹکا دینا اُن کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ ہے جو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے عاجلانہ نفاذ کی شکل میں سامنے آیا اور جس کے بعد سے معیشت لڑھکنے لگی اور آج اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے۔ کرسٹوفر ووڈ کا کہنا ہے کہ حکومت نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی عجلت کے جھٹکے اور اس کے اثرات کو اب بھی سمجھ نہیں پارہی ہے۔ یاد رہنا چاہئے کہ آر بی آئی نے اکتوبر ۱۹ء میں ۲۰۔۲۰۱۹ء کیلئے جی ڈی پی کا جو اندازہ پیش کیا وہ ۶ء۱؍ فیصد تھا مگر اب اس نے بھی ۵؍ فیصد کردیا ہے۔ 
 قومی معاشی بحران پر سابق وزیر مالیات اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نیز آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کے بیانات تواتر کے ساتھ منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان میں تنقید نہیں، خلوص ہے مگر حکومت ان کے انتباہات پر کان دھرنے اور معاشی پالیسیوں کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اہل اقتدار ہر مشورہ اور تجویز کو ماننے کے بجائے اسے تنقید سمجھ کر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اصلاح کے امکانات محدود یا مسدود ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ معاشی حالات میں مثبت تبدیلیوں کا امکان دکھائی تک نہیں دے رہا ہے ۔ اس کے برخلاف روزانہ ایسی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں جو تشویش میں مبتلا کرنے والی ہیں۔ نومبر کے اواخر میں جاری ہونے والے سرکاری ڈیٹا سے منکشف تھا کہ انفراسٹرکچر سے وابستہ ۸؍ صنعتوں کی تجارتی سرگرمیوںمیں اس حد تک ٹھہراؤ آگیا ہے کہ ان کا رپورٹ کارڈ گزشتہ ایک دہائی کی سب سے خراب کارکردگی کا واضح اعلان کررہا ہے۔  
 ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ تجارت پیشہ لوگوں کا اعتماد تو کم ہوا ہی ہے، عوام بھی خرچ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس تردد کا ایک سبب بے روزگاری بھی ہے۔ عوام کے ماہانہ اخراجات بہت ضروری اشیاء تک محدود ہوگئے ہیں جس نے ’’ڈیمانڈ کا مسئلہ‘‘ پیدا کردیا ہے۔ چنانچہ پروڈکشن کم ہوا، فیکٹریوں اور کارخانوں پر مندی کے بادل چھا گئے، روزگار کم ہوا اور حالات غیر یقینی ہو گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالات کو سنبھالا حکومت کے سپورٹ ہی سے مل سکتا ہے مگر.....دقت یہی ہے کہ حکومت مسئلہ کو مسئلہ ماننا نہیں چاہتی۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کہہ چکی ہیں کہ ’’معاشی رفتار سست ضرور ہوئی مگر یہ مندی نہیں ہے، مندی ہوبھی نہیں سکتی۔‘‘
 اس منظر اور پس منظر کو سامنے رکھئے اور رگھو رام راجن کا وہ تجزیاتی مضمون ملاحظہ کیجئے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے تو محسوس ہوگا کہ اس میں خدا لگتی کہی گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس پر غور کیا جائے اور جہاں جہاں اصلاح ممکن ہے، فی الفور کی جائے۔ حکومت کو اس مقولہ پر عمل کرناچاہئے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اقتدار کی مرکزیت (ہر فیصلہ پی ایم او کے ذریعہ ہونا)، تنقید کو قبول نہ کرنا، دیہی علاقوں سے چشم پوشی کرنا جہاں مندی کی مار شدید ہے،شعبۂ تعمیرات پر توجہ دینا جو ٹھپ ہوگئی، معیشت سے متعلق کڑوی سچائیوں کو قبول کرنا اور فوری اقدام کرنا راجن کے مشوروں کا حصہ ہے جبکہ حکومت ان تقاضوں کو بھول کر توثیق ِ شہریت جیسے منصوبوں پر بضد ہے جس سے معیشت کا کچھ بھلا نہیں ہوگا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK