امیتابھ بچن ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۲ء کو پیدا ہوئے۔ انہیں ابتدائی مقبولیت ۱۹۷۰ء میں ملی اور آج ان کا شمارہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں معروف ترین ہستیوں میں ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 11, 2024, 2:58 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
امیتابھ بچن ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۲ء کو پیدا ہوئے۔ انہیں ابتدائی مقبولیت ۱۹۷۰ء میں ملی اور آج ان کا شمارہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں معروف ترین ہستیوں میں ہوتا ہے۔
امیتابھ بچن ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۲ء کو پیدا ہوئے۔ انہیں ابتدائی مقبولیت ۱۹۷۰ء میں ملی اور آج ان کا شمارہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں معروف ترین ہستیوں میں ہوتا ہے۔ اپنے اداکاری کے سفر کے دوران انہوں نے کئی بڑےایوارڈحاصل کئے جن میں ۴؍نیشنل فلم ایوارڈ اور ۱۶؍فلم فیئر ایوارڈ شامل ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ ۳۴؍ مرتبہ بہترین اداکار کے طور پرنامزد ہونے کا اعزاز حاصل ہےجبکہ مجموعی طور پرانہیں ۴۲؍مرتبہ نامزد کیا جاچکا ہے۔ اداکاری کےعلاوہ بچن گلوکاری، فلمسازی اور ٹی وی شو کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ ۱۹۸۴ء تا ۱۹۸۷ء وہ ہندوستانی پارلیمان کے رکن بھی رہے۔ امیتابھ کی اداکاری کے سفر کا آغاز ۱۹۶۹ء میں فلم ’سات ہندوستانی‘ سے ہوا، جس کے ہدایتکار خواجہ احمد عباس تھے اور ساتھی اداکاروں میں اتپل دت، مدھو اور جلال آغا وغیرہ شامل تھے۔ گو کہ فلم باکس آفس پر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی مگر بچن کو بہترین نوارد اداکار کا پہلا نیشنل فلم ایوارڈ ملا۔
اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں ’آنند‘ آئی جو کاروباری لحاظ سے کامیاب اور تنقید نگاروں میں بہت سراہی گئی۔ اس کیلئے انہیں فلم فیئر کا بہترین معاون اداکار کا ایوارڈملا۔ اسی سال ’پروانہ‘ لگی، اس فلم میں انہوں نے نوین نشچل، یوگیتا بالی اور اوم پرکاش کے ساتھ دیوانے عاشق کاکردار ادا کیا، ایسے منفی کردار میں امیتابھ کو کم ہی دیکھاگیا۔ اس کے بعد ان کی کئی فلمیں باکس آفس پر اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔
۱۹۷۳ء میں بچن اُس وقت ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہوگئے جب ہدایتکار پرکاش مہرہ نے انہیں فلم ’زنجیر‘ میں سلیم۔ جاوید کے تخلیق کردہ انسپکٹر وجے کھنہ کے ’اینگری ینگ مین‘ کے کردار میں پیش کیا۔ اس فلم میں بچن کی اداکاری ان کے دیگر رومانوی کرداروں سے مختلف تھی اور یہاں سے بچن کو بالی ووڈ کے ’اینگری ینگ مین‘ کی پہچان ملی پھر انہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ ۱۹۸۲ء میں فلم ’قلی‘ کی فلمبندی کے دوران ایک لڑائی کا منظر کرتے ہوئے میز کا کونا لگنے سےامیتابھ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس منظر میں امیتابھ کو میز پر گرنا تھا مگر اندازہ کی غلطی سے میز کا کونا ان کے پیٹ میں لگا اور اس کے نتیجہ میں ان کی تلی پھٹ گئی اور کافی خون بہہ گیا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایاگیا جہاں وہ کئی مہینے زندگی اور موت کی جنگ لڑتے رہے۔ اس دوران ان کے مداحوں نے دعائیں کیں۔ بالآخر کئی ماہ کے علاج کے بعد فلم دوبارہ شروع ہوئی اور۱۹۸۳ء میں سنیما گھروں میں لگی اور امیتابھ کے حادثہ کی شہرت کی وجہ سے باکس آفس پر کامیاب ہوئی۔
فلمی دُنیاکو خیرباد کہنے کے بعد امیتابھ نے فلمسازی کو اپنایا اور اسی دوران امیتابھ بچن کارپوریشن لمیٹڈ(اے بی سی ایل) کی بنیاد اس نظریہ کے تحت رکھی کہ وہ ۲۰۰۰ء تک اسے ۱۰؍بلین روپے کی تفریحی کمپنی بنا دیں گے۔ کمپنی نے پہلی فلم ’تیرے میرے سپنے‘ کو پیش کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر تو اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی مگر اداکار ارشد وارثی اور جنوب کی اداکارہ سمرن جیسےنئےاداکاروں کو بڑے پردے پر کام کرنےکا موقع ملا۔ ’اے بی سی ایل‘ نے مزید فلموں کی پیشکش کی مگر کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکی اور امیتابھ کا سورج غروب ہوتا نظر آنے لگا۔ ۲۰۰۰ء میں بچن نے برطانوی ٹیلی ویژن شو’ ہو وانٹس ٹو بی اے ملینئر‘کے ہندی میں بننے والے پروگرام ’کون بنے گا کروڑ پتی‘کی میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ دوسرے ملکوں کی طرح اسے ہندوستان میں بھی بڑی پزیرائی ملی۔ اس پروگرام کی میزبانی کی وجہ سے ان کو اپنی کھوئی ہوئی شہرت واپس ملی۔