انہوں نے درجنوں فلموں میں اداکاری کی لیکن فلم ’شعلے‘ سے انہیں جو شناخت ملی، وہ انہیں آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کے والد جینت پانچویں اور چھٹی دہائی کے مشہور ویلن اور کریکٹر آرٹسٹ تھے۔
EPAPER
Updated: September 02, 2024, 10:10 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai
انہوں نے درجنوں فلموں میں اداکاری کی لیکن فلم ’شعلے‘ سے انہیں جو شناخت ملی، وہ انہیں آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کے والد جینت پانچویں اور چھٹی دہائی کے مشہور ویلن اور کریکٹر آرٹسٹ تھے۔
امجد خان نے بہت ساری فلموں میں اداکاری کی لیکن فلم ’شعلے‘ سے انہیں جو شناخت ملی، وہ انہیں آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کے والد جینت پانچویں اور چھٹی دہائی کے مشہور ویلن اور کریکٹر آرٹسٹ تھے۔ ان کا خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے کسی زمانے میں لاہور آباد ہو گیا تھا۔ وہیں ۲۱؍ اکتوبر۱۹۴۳ء کو امجد خان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اُن کا پورا نام امجد جاوید زکریا خان رکھا گیا تھا۔ پیدائش کے وقت امجد بہت کمزور تھے۔ اُن کی والدہ کی خواہش تھی کہ اس بار ان کے یہاں لڑکی کی پیدائش ہو، اسلئے اُنہوں نے اس کا نام منجو پہلے ہی سے سوچ لیا تھا مگرجب امجدپیدا ہوئے تو خاندان میں سب نے اُنہیں پیار سے منجو ہی کہنا شروع کر دیا۔
امجد خان بچپن ہی میں اپنے والد کے ہمراہ بمبئی آگئے تھے۔ انہوں نےہوش سنبھالتے ہی اپنے چاروں طرف فلمی ماحول دیکھا تھا، لہٰذا بچپن ہی سے اُن کا رجحان اداکاری کی طرف مائل ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ اسکول کے ڈراموں میں حصہ لینے لگے۔ وہ بچپن میں بہت شرارتی تھے اور پڑھائی لکھائی میں بھی اُن کی توجہ کم تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ساتویں کلاس میں تین بار فیل ہوئے مگر بعد میں انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے فلسفہ جیسے مضمون کے ساتھ فرسٹ کلاس میں ایم اے مکمل کیا۔ امجد خان کو کالج کے زمانے ہی میں مشہور فلم رائٹر اور شاعر اخترالایمان کی بیٹی شہلا جو اُن کی ہم جماعت بھی تھیں، سے محبت ہوگئی تھی۔ کچھ دنوں بعد ہی دونوں شادی کے رشتے میں بندھ گئے تھے۔
ان کے بڑے بھائی امتیاز خان کو بھی فلموں میں اداکاری اور ہدایتکاری کا شوق تھا۔ جینت کی دِلی خواہش بھی یہی تھی کہ اُن کے لڑکے فلموں میں ترقی کریں۔ انہوں نے امتیاز اور امجد کو فلموں میں پہچان بنانے کیلئے ’پتھر کے جسم ‘ کے نام سے ایک فلم بنانے کی کوشش کی تھی، جس میں امتیاز خان کو ہدایتکار اورامجد خان کو ہیرو کا کردار نبھانا تھا، لیکن بعض دِقتوں کے سبب یہ فلم بن ہی نہیں سکی۔
امجد خان ۱۹۵۱ء میں پہلی بار ۷؍ برس کی عمر میں ریلیز ہوئی فلم ’نازنین‘ میں کیمرے کے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۶۱ء میں ہدایتکار ڈی ڈی کشیپ کی فلم ’مایا‘ میں دیوآنند کے بچپن کا کردار ادا کیا تھا۔ اس سے قبل چائلڈ اسٹار کے طور پر امجد خان نے ۱۹۵۷ء میں ہدایتکار راج کپور کی فلم ’اب دِلی دور نہیں ‘ میں اداکار رُومی کے ساتھ کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلم ’چار پیسے‘ میں بھی انہوں نے چائلڈ اداکار کے طور پر کام کیا تھا جو ۱۹۵۵ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ کشور کمار، شیاما، جانی واکر اور آغا اس فلم کے مرکزی کردار تھے۔
اپنے والدکے مشورے پر امجد خان نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواجہ احمد عباس کے ساتھ معاون ہدایتکار کے طور پر کام شروع کر دیا۔ کےآصف کی ایک ادھوری فلم ’سستا خون مہنگا پانی‘ میں بھی وہ اُن کے معاون رہے۔ چیتن آنند کی فلم ’ہندوستان کی قسم‘ میں کام کرنے سے پہلے ۱۹۶۹ء میں کےآصف نے اپنے معاون ہدایتکار امجد خان کو اپنی فلم ’محبت اور خدا‘ میں ایک حبشی غلام کے کردار کیلئے منتخب کیا تھا۔
اُنہی دنوں چیتن آنند فلم ’ہندوستان کی قسم‘ بنا رہے تھے۔ انہیں اس فلم میں پاکستانی ایئرفورس کے افسر کے ایک کردار کیلئے کسی نئے چہرے کی تلاش تھی۔ انہوں نے امجد خان کو ایک اسٹیج ڈرامے میں کام کرتے ہوئے دیکھا تھا لہٰذا اِس کردار کیلئے انہوں نے امجد خان کو آفر کیا۔ امجد خان نے اپنی بہترین اداکاری سے اس چھوٹے سے کردار میں بھی جان ڈال دی تھی۔ اس فلم کے بعد ان کے پاس فلموں میں چھوٹے موٹے رول ملنے لگے تھے۔
فلم ’شعلے‘ کا گبّر سنگھ والا تاریخ ساز کردار امجد خان کے پاس کافی ڈرامائی انداز میں آیا تھا۔ اس ملٹی اسٹارر فلم میں ڈاکو گبرسنگھ کے اہم کردار میں فلمساز جے پی سپّی کسی بڑے اسٹار کو پیش کرنا چاہتے تھے اور خود سلیم جاوید نے ڈینی کو ذہن میں رکھ کر وہ کردار لکھاتھا۔ ڈینی خود بھی گبرسنگھکا کردارنبھانا چاہتے تھے لیکن اُن دنوں وہ فیروزخان کی فلم ’دھرماتما‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ ایسے میں سپّی صاحب نےاس کردار کیلئے پہلے وِنود کھنہ اور پھر شتروگھن سنہا کو آفر کیا، مگر دونوں نے انکار کر دیا۔ اِسی درمیان فلم کے ہدایتکار رمیش سپی اور قلمکار سلیم ایک ڈرامہ دیکھنے گئے، جس میں امجد خان بھی اداکاری کر رہے تھے۔ امجد خان کی اداکاری کو دیکھ کر سلیم کے مشورے پر سپّی صاحب نے امجد خان کو اس رول کیلئے سائن کر لیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے اس کردار کے ذریعہ ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس کردار کو بہتر اندازسے نبھانے کیلئے انہوں نے اداکارہ جیا بہادری کے والد ترن کمار بہادری کی چنبل کے ڈاکوئوں پر لکھی کتاب ’ابھی شپت چنبل‘ کا مطالعہ کیا تھا۔
۱۹۷۵ء میں ریلیز ہوئی فلم’شعلے‘ ایک ایسی سنگ میل ثابت ہوئی جس کے بعد منزلیں خودبخود امجد خان کیلئے فرشِ راہ بن گئیں۔ اس فلم کی بے پناہ کامیابی میں سب سے زیادہ حصہ امجد خان کی موثر اداکاری کو ہی مانا گیا تھا۔ اس میں گبرسنگھ کے ادا کئے ہوئے مکالمے اتنے اثرانگیز اور متاثرکن تھے کہ ان دنوں اُس کے ’لانگ پلے ریکارڈ‘ اور’آڈیو کیسٹ‘ مشہور فلمی گیتوں سے بھی کہیں زیادہ فروخت ہوئے تھے۔ گیتوں کی طرح مکالموں کے ریکارڈ اور کیسٹ فلمی تاریخ میں بالکل پہلی اور انوکھی مثال ثابت ہوئے۔ اس کے بعد بہت سی فلموں میں امجد خان کو ولن کے کردار ملتے رہے اور وہ لگاتار فلمیں سائن کرتے رہے۔ ۱۹۷۶ء میں رامانند ساگر کی فلم ’چرس‘آئی تو اُس میں امجد خان کے مکالموں کی ادائیگی کا انداز تقریباً ’شعلے‘ والا ہی تھا، لہٰذا فلم بینوں کو بہت ناگوار گزرا۔ اُن دنوں امجد خان کی لگاتار کئی فلمیں لوگوں نے محض اسی وجہ سے مستردکر دیں کیونکہ تقریباً تمام فلموں میں فلم سازوں اور ہدایتکاروں نے امجد خان کی ’شعلے‘ والی امیج ہی کو دہرانے کی کوشش کی تھی۔ امجد خان کو بھی جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا لہٰذا انہوں نے اِس امیج کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش شروع کر دی۔
اس کے بعدانہوں نے کئی یادگار کردار ادا کئے۔ فلم ’سہاگ‘ میں انہوں نے بالوں میں سفیدی لگاکر امیتابھ بچن کے باپ کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم ’برسات کی ایک رات‘ میں بغیر کوئی مکالمہ بولے اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہوئے انہوں نے دہشت کا ماحول پیدا کردیاتھا۔ فلم ’انکار‘ میں امجد خان کی چال نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو دوسرے ویلن زوردار ڈائیلاگ بول کر بھی نہیں کہہ پاتے۔ فلم ’وِدرَوھی‘ میں وہ آنکھیں گھما گھماکر دہشت پھیلاگئے۔ فلم ’لَو اسٹوری‘ میں وہ خبطی حوالدار کے روپ میں آئے تو خالص ہریانوی زبان میں ہیرو ہیروئن کو لڑکا لڑکی کہنے کا ان کا انداز سب کو پسند آیا۔ فیروز خان کی فلم ’قربانی‘ میں لوگوں نے امجد خان کو بالکل نئے انداز میں دیکھا۔ اس فلم میں انہوں نے ایک پولیس انسپکٹر کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم’قربانی‘ میں آفیسر کے کردار میں ان کا ڈرم بجانا آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
مشہور ہدایتکار ستیہ جیت رےنے امجد خان کو اپنی فلم ’شطرنج کے کھلاڑی‘ میں لکھنؤ کی نزاکت کا شاہکار نواب واجد علی شاہ بنا دیا اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نواب کے کردار میں امجد خان جیسے فولادی انسان نے نہایت نرم ونازک شخصیت میں ڈھل کر ’جانِ عالم‘ کے روپ میں فلم بینوں کے دلوں پر اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا سکہ جما دیا۔ فلم میں جب جانِ عالم کے کردار میں وہ اپنا تاج اُتار کر انگریز حاکم کو دیتے ہیں تو ناظرین کی آنکھیں اشکبار کر دیتے ہیں۔
۱۹۷۸ء میں فلم ’گریٹ گیمبلر‘ کی شوٹنگ کیلئے وہ پونے جا رہے تھے۔ حالانکہ وہ تیز رفتار سے کار چلانے کے خلاف تھے مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ راستے میں ان کی کار ایک حادثے کا شکار ہو گئی جس میں وہ بُری طرح زخمی ہو گے۔ اُن کی آدھی سے زیادہ پسلیاں ٹوٹ گئیں جس کیلئے انہیں کافی دنوں تک علاج کرانا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امجد خان کو اپنے بڑھتے وزن پر قابو نہ رہا اور وہ بے پناہ موٹے ہوتے گئے۔
امجد خان نے تقریباً دو سو سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ایک جیسے کردار ادا کرتے کرتے جب وہ اُکتا گئےتو پھر اپنی خوبصورت کامیڈی سے نئے نئے کردار پیش کرنے لگے۔ اس طرح بڑوں کے ساتھ بچوں کے بھی وہ پسندیدہ اداکار بن گئے۔ فلم ’بندیا چمکے گی‘ میں امجد خان نے زبردست کامیڈی کردار ادا کیا۔ دادا کونڈکے کی دو فلموں میں انہوں نے جم کر کامیڈی کی اور اپنے ڈیل ڈول کا بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ مزاحیہ فلم ’آسمان سے گرا‘ میں انہوں نے دوسرے سیارے کی مخلوق کے عجیب وغریب کردار میں بچوں کا دل جیت لیا۔
امجد کے مضبوط جسم کے اندر ایک نہایت نرم اور رحم دل انسان جیتا تھا۔ وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھے اور غلط بات کرنے والے یا جھوٹ بولنے والوں پر اُن کو بے حد غصہ آتا تھا۔ وہتین بار ’سنے آرٹسٹ اسوسی ایشن‘ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تیسری بار کے انتخاب میں امجد خان کو ۱۸۰؍ میں سے۱۷۴؍ ووٹ ملے تھے۔ ان کی کامیاب فلموں میں شعلے، ہم کسی سے کم نہیں، ہمت والا، اُتسو، لواسٹوری، قسمیں وعدے، گنگا کی سوگندھ، مقدر کا سکندر، مسٹر نٹورلال، سہاگ، پیارا دشمن، لاوارث، نصیب، مقدر، پاتال بھیروی، انسانیت کے دُشمن، اَندھیری رات میں دیا تیرے ہاتھ میں ، تیرے میرے بیچ میں، شطرنج کے کھلاڑی، رودالی، میرا اور لیکن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اُنہوں نے ۱۹۸۳ء میں ’چور پولیس‘ اور ۱۹۸۵ء میں ’امیر آدمی غریب آدمی‘ کے نام سے دو فلمیں اپنی ہدایتکاری میں بنائیں مگر دونوں ہی ناکام ہو گئیں۔
۲۷؍جولائی ۱۹۹۲ء کو رات ۸؍بجے دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔