• Sun, 12 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

امریش پوری نے ویلن کے کردار کونئی بلندی عطا کی

Updated: January 12, 2025, 12:44 PM IST | Mumbai

انبالہ میں ۲۲؍جون۱۹۲۲ءکوپیدا ہوئے امریش پوری کیرکٹر آرٹسٹ چمن پوری اور ویلن مدن پوری کےسب سے چھوٹے بھائی تھے۔

The roughness of his face was Amrish Puri`s hallmark. Photo: INN
چہرے کی کرختگی ہی امریش پوری کی پہچان تھی۔ تصویر: آئی این این

بلندآواز، پرکشش شخصیت اور مکالموں کی بہترین انداز میں ادائیگی، چہرے کی سختی اور آنکھوں کے خوف کے سبب وہ ایک عرصہ تک بالی ووڈمیں بطور ویلن بے تاج بادشاہ بنے رہے۔ بحیثیت ویلن فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے جو مقام حاصل کیا وہ ان کی بہترین اداکاری اور سخت محنت کانتیجہ تھا۔ پردۂ سیمیں کے وہ واحد ویلن تھے جن کےانتقال پر روزناموں نے صفحۂ اول پر خبر چھاپی، اداریئےلکھے۔ اسٹیج سے اپنی اداکاری کا سفر شروع کرنے والے امریش پوری نے اپنی ایسی امیج بنائی کہ فلم میں ان کی موجودگی ناظرین کو سنیماہال تک کھینچ لے جاتی تھی۔ 
انبالہ میں ۲۲؍جون۱۹۲۲ءکوپیدا ہوئے امریش پوری کیرکٹر آرٹسٹ چمن پوری اور ویلن مدن پوری کےسب سے چھوٹے بھائی تھے۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنےکے بعد انہوں نے فلموں کا رخ کیا۔ 
ڈراموں میں ان کی بہترین اداکاری کو دیکھ کر پہلی مرتبہ سکھ دیو نے فلم ’ریشما اور شیرا‘ میں ایک رول کے لیےسائن کیا۔ لیکن کنڑ فلم ’کاڑو‘سے امریش پوری کو فلمی دنیا میں پہچان ملی اور یہ فلم امریش پوری کیلئے سنگ میل ثابت ہوئی۔ مشہور آرٹ فلم ساز شیام بینیگل نے جب یہ فلم دیکھی تو وہ ان کی اداکاری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے اور انہیں اپنی فلم’ منتھن‘ اور’ نشانت‘ میں کاسٹ کیا۔ پھر تو ان کی کامیابی کا سفر شروع ہوگیا۔ شیام بینیگل ان کی طلسماتی اداکاری سے بے حدمتاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی ہر فلم میں امریش پوری کے لیے ایک رول مخصوص کیا۔ وجیتا، کلیگ، سورج کا ساتواں گھوڑا میں امریش پوری آرٹ فلموں کے ایک مضبوط اور کامیاب اداکار کے طورپرابھرے۔ 
فیروز خان کی فلم ’قربانی‘ سے ان کا فلمی سفر آرٹ سےکمرشیل فلموں کی جانب بڑھا اور ان کی شہرت اس وقت بلندیوں کو چھونے لگی جب انہوں نے فلم’مسٹر انڈیا‘میں موگیمبوکا مشکل ترین کردار اس قدر جادوئی اندازمیں نبھایا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے اور ہرخاص و عام کی زبان پر اس فلم کا ڈائیلاگ موگیمبو خوش ہوا عام ہوگیا۔ 
ویلن کے کردار میں وہ بہت مقبول ہوئے اور شہرت ان کے قدم چومنے لگی۔ یہاں تک کہ وہ ایک فلم کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے تک معاوضہ لیتے تھے۔ انہوں نے ایمان دھرم، آکروش، غدر، دامنی، دیو، جانی دشمن، دوستانہ، کلیگ، شکتی، دھرم ستیہ، گاندھی، مسٹر انڈیا، شہنشاہ، وراثت، تری دیو، عجوبہ، سوداگر، مجھے کچھ کہنا ہے، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، چائنا گیٹ، گردش، پردیس، چاچی۴۲۰؍، لال بادشاہ، کوئلہ، رام لکھن، گھائل، آج کا ارجن، میری جنگ، کرن ارجن، جھوٹ بولے کوا کاٹے، تال، ہلچل سمیت تقریباً دو سوفلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 
۱۲؍جنوری ۲۰۰۵ءکوجب ان کا جسد خاکی جوہوکے وردان بنگلہ میں رکھا ہوا تھا تو پاس ہی نصیرالدین شاہ اور اوم پوری جیسے بڑے اداکار اس طرح کھڑے تھے جیسے وہ یتیم ہوگئے ہوں۔ یقیناً امریش پوری کا اس دارفانی سے کوچ کرجانافلم انڈسٹری کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے جو ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں نئے اداکار ان سے ضرور مستفید ہوں گے اور ان کی ایک ایک حرکات و سکنات جدید اداکاروں کے لیے مشعل راہ ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK