• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سالگرہ پرخراج عقیدت: آنند بخشی کے نغموں نے کئی فنکاروں کو عروج بخشا

Updated: July 21, 2024, 11:43 AM IST | Agency | Mumbai

اپنےسدا بہار گیتوں سے سامعین کو دیوانہ بنانےوالے بالي ووڈ کے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نےتقریبا۴؍دہائی تک سامعین کواپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔

Famous lyricist Anand Bakshi. Photo: INN
مشہور گیت کار آنند بخشی۔ تصویر : آئی این این

اپنےسدا بہار گیتوں سے سامعین کو دیوانہ بنانےوالے بالي ووڈ کے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نےتقریبا۴؍دہائی تک سامعین کواپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔ موجودہ پاکستان کے راولپنڈی شہرمیں ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۰ءکوپیدا ہوئے آنند بخشی کو ان کے رشتہ دار پیار سے نند یا نندو کہہ کر پکارتے تھے۔ بخشی ان کے خاندان کا لقب تھا جبکہ ان کے اہل خانہ نے ان کا نام آنندپرکاش رکھا تھا۔ لیکن فلمی دنیا میں آنے کے بعدسے آنند بخشی کے نام سے ان کی پہچان بنی۔ آنندبخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانے کے خوف سے انہوں نے اپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ فلمی دنیا میں گلوکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ 
آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے ۱۴؍ سال کی عمر میں ہی گھر سے بھاگ کر فلم نگری ممبئی آگئےجہاں انہوں نے رائل انڈين نیوی میں کیڈٹ کے طور پر۲؍سال تک کام کیا۔ کسی تنازعہ کی وجہ سے انہیں وہ نوکری چھوڑنی پڑی۔ اس کےبعد ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۶ءتک انہوں نے ہندوستانی فوج میں بھی ملازمت کی۔ بچپن سےہی مضبوط ارادے والے آنندبخشی اپنےخواب کو پوراکرنے کیلئےنئے جوش کےساتھ دوبارہ ممبئی پہنچے جہاں ان کی ملاقات اس زمانےکے مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی۔ شاید قسمت کویہی منظور تھا کہ وہ نغمہ نگار ہی بنیں۔ بھگوان دادا نے انہیں اپنی فلم’بھلا آدمی‘ میں نغمہ نگار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنی شناخت بنانے میں بھلے ہی کامیاب نہیں ہو پائے لیکن ایک نغمہ نگار کے طور پر ان کےفلمی کریئر کا سفر شروع ہو گیا۔ 
 آنند بخشی تقریبا ًسات برسوں تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے۔ ۱۹۶۵ءمیں فلم ’جب جب پھول کھلے‘ ریلیز ہوئی تو ان کے نغمے ’پردیسیوں سےنہ اكھياں ملانا، یہ سماں سماں ہے یہ پیار کا، ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘ سپر ہٹ رہے اور نغمہ نگار کے طور پر ان کی شناخت بن گئی۔ اسی سال فلم ’ہمالیہ کی گود میں ‘ ان کا نغمہ ’چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا‘ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔ 
 ۱۹۶۷ءمیں ریلیز سنیل دت اور نوتن کی فلم ’ملن‘کے نغمہ ’ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کےگاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے‘ جیسے سدابہارنغموں کے ذریعے انہوں نے نغہ نگار کے طور پر نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ سپر سٹار راجیش کھنہ کے کیریئر کو بلندیوں تک پہنچانےمیں آنندبخشی کے نغموں کا اہم تعاون رہا ہے۔ راجیش کھنہ کی فلم ’آرادھنا‘میں لکھے نغمے ’میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو‘ کے ذریعے راجیش کھنہ تو سپراسٹار بنے ہی، ساتھ میں کشور کمار کو بھی وہ مقام حاصل ہو گیا جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ فلم انڈسٹری میں بطور نغمہ نگارجگہ بنانے کے بعدبھی گلوکار بننے کی آنند بخشی کی حسرت ہمیشہ قائم رہی۔ انہوں نے۷۰ءکی دہائی میں آئی فلم موم کی گڑیا میں ’میں ڈھونڈ رہا تھا سپنوں میں ‘ اور ’باغوں میں بہار آئی‘ جیسے دو نغے گائے، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی فلم ’چرس‘ کا گیت ’آجا تیری یاد آئی‘کی چند لائنوں میں اور کچھ دیگر فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی ہے۔ فلمی نغموں کے بے تاج بادشاہ آنندبخشی نے ۵۵۰؍ سےبھی زائد فلموں میں تقریباً ۴؍ ہزار گیت لکھے۔ اپنے نغموں سے تقریبا ۴؍ دہائی تک سامعین کومسحور کرنے والے نغمہ نگار آنند بخشی ۳۰؍مارچ ۲۰۰۲ءکو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK