ان کا ارادہ قانون کی تعلیم حاصل کرکے وکیل بننے کا تھا لیکن حالات انہیں فلم انڈسٹری میں لے آئے جہاں وہ دیویکا رانی کی فلم کمپنی میں پہلے لیب اسسٹنٹ بن گئے اور پھر دیویکا رانی کے ہیرو بھی بنے۔
EPAPER
Updated: April 21, 2024, 1:05 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai
ان کا ارادہ قانون کی تعلیم حاصل کرکے وکیل بننے کا تھا لیکن حالات انہیں فلم انڈسٹری میں لے آئے جہاں وہ دیویکا رانی کی فلم کمپنی میں پہلے لیب اسسٹنٹ بن گئے اور پھر دیویکا رانی کے ہیرو بھی بنے۔
۱۳؍اکتوبر ۱۹۱۱ء کو بھاگلپور (بہار) میں ایک وکیل کنجی لال گانگولی کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا تو ماں گوری رانی دیوی اور باپ نےاُس کا نام کمدلال کنجی لال گانگولی رکھ دیا۔ کمد کے دادا کا نام ماکھن لال تھا اور وہ اسکول میں ماسٹر تھے جبکہ والدہردا (مدھیہ پردیش) میں وکیل تھے۔ وکیل صاحب کا خاندان اصلاً تو بنگالی تھالیکن مدھیہ پردیش میں آباد تھا۔ کاروباری سلسلے میں کنجی لال گانگولی کا خاندان بھاگلپور میں قیام پذیر تھا۔ کمدلال بچپن میں بہت شرمیلا اور پُرسکون سا بچہ تھا۔ وہ اپنے تین بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ کمد نے الہ آباد یونیورسٹی سےگریجویشن کی سند حاصل کی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کلکتہ کے پریسی ڈینسی کالج میں وکالت میں داخلہ لے لیا۔ دوران تعلیم ہی کمد کی دوستی ششدھر مکھرجی سے ہو گئی جو بعد میں اس طرح رشتہ داری میں تبدیل ہوئی کہ کمدنے اپنے سے پانچ سال چھوٹی اپنی اکلوتی بہن کی شادی ششدھر سے کرا دی۔ یہی ششدھر مکھرجی، بعد میں ہمانشو رائے کی فلم کمپنی اور اسٹوڈیو ’بمبئی ٹاکیز‘ میں سائونڈ ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہو گئے۔ ششدھر، جو بعد میں ایس مکھرجی کے نام سے مشہور ہوئے، سائونڈ کے شعبے میں ملازمت کے ساتھ ہی ہمانشو رائے اور دیویکارانی کے صلاح کار بھی تھے۔ ۱۹۳۴ء میں ششدھر نے اپنے سالے کمدلال گانگولی کو بھی بمبئی بلا لیا اور بمبئی ٹاکیز کی لیباریٹری میں بطور اسسٹنٹ ملازم کرا دیا۔
ہمانشو رائے اُن دِنوں اُس وقت کے مشہور اداکار نجم الحسن کو ہیرو لے کر ایک فلم ’جیون نیّا‘ بنا رہے تھے جس کی ہیروئن ہمانشو رائے کی بیوی دیویکا رانی تھیں۔ اس سے قبل نجم الحسن بمبئی ٹاکیز کی فلم ’جوانی کی ہوا‘ (۱۹۳۵ء) میں بھی دیویکارانی کے ہیرو بن کر آچکے تھے۔ ابھی یہ فلم ’جیون نیّا‘ تھوڑی سی ہی بنی تھی کہ نجم الحسن سے دیویکا رانی کا عشق کچھ اِتنی شدّت اختیار کر گیا کہ دونوں بمبئی سے فرار ہوکر کلکتہ چلے گئے۔ ہمانشو رائے کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اپنے معاون اور قریبی دوست ششدھر کو ساتھ لے کر کلکتہ پہنچ گئے اور بہلا پھسلاکر دیویکارانی کو بمبئی واپس لے آئے۔ بمبئی آکر انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نجم الحسن کو فلم اور اسٹوڈیو کی ملازمت، دونوں سے علاحدہ کر دیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ فلم کا ہیرو کس کو بنایا جائے۔ اسی اُدھیڑ بُن میں ان کی نظر لیباریٹری میں کام کر رہے کمدلال گانگولی پر پڑی اور انہوں نے ششدھر مکھرجی سے مشورہ کرکے کمد کو فلم کا ہیرو بنانے کا اعلان کر دیا۔ کمدبہت کسمسائے اور گھبرائے مگر ہمانشو رائے فیصلہ کر چکے تھے۔
کمدلال کو فلم ’جیون نیّا‘ کا ہیرو بنا دیا گیا تو ان کے سامنے بڑی پریشانی یہ تھی کہ وہ کس طرح فلم کی ہیروئن اور اسٹوڈیو کی مالکن دیویکارانی کے سامنے اظہارِ عشق کریں۔ دیویکارانی نے پہلا کام تو یہ کیا کہ کمد کو ایک نیا فلمی نام اشوک کمار دیا اور جب کیمرے کے سامنے دیویکارانی کی موجودگی میں اشوک کمار کے پسینے چھوٹنے لگے تب انہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اداکاری کے کئی نکات سمجھائے۔ انہوں نے ہی اشوک کمار کو آنکھوں کا استعمال کرنا سکھایا اور مکالموں کی ادائیگی کے بارے میں بتایا۔ ایک طرح سے اشوک کمار کی اداکاری کی تعلیم بمبئی ٹاکیز میں ہی ہوئی۔ اس درمیان ہمانشو رائے اور دیویکارانی جب کوئی فلم دیکھنے جاتے تھے تو انہیں بھی ساتھ لے کر جاتے تاکہ وہ اداکاری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں۔
اشوک کمار کی اداکاری والی پہلی فلم’جیون نیّا‘ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے فوراً بعد اشوک کمار کی اداکاری میں دوسری فلم ’اچھوت کنیا‘اُسی برس ۱۹۳۶ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں بھی دیویکارانی اُن کی ہیروئن تھیں۔ فلم ’اچھوت کنیا‘کیلئے جب اشوک کمار کو دہرانے کی بات ہوئی تو ہمانشو رائے کی اس فلم کے جرمن ڈائریکٹر فرانز آسٹن نے یہ کہہ کر اُن کو نامنظور کر دیا کہ ان کے جبڑے بڑے اور چوکور ہیں اور عمر میں بہت چھوٹے ہونے کے علاوہ چہرے پر نسوانیت بھی ہے۔ انہوں نے اشوک کمار سے کہا تھا کہ تم واپس کلکتہ جاکر اپنی وکالت کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کرتے؟ فلم ’اچھوت کنیا‘ موضوع کے اعتبار سے بے حد کامیاب ہوئی اور ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں میل کا پتھر ثابت ہوئی لہٰذا اشوک کمار کو بھی اس فلم سے کامیابی اور شہرت ملی اور وہ پوری طرح سے فلموں میں اداکاری کو ہی اپنا پیشہ بنا بیٹھے۔ اس فلم میں اشوک کمار نے ایک گانا بھی اپنی آواز میں گایا تھا، جس کے بول تھے ’’میں بَن کی چڑیا بن کے، بَن میں بولوں رے۔ ‘‘
فلم ’اچھوت کنیا‘ نے کئی شہروں میں سلور جبلی منائی۔ اس کی تعریف ٹیگور اور نہرو نے بھی کی تھی۔ اس میں اشوک کمار ایک برہمن خاندان کا لڑکا ہے جو ایک ہریجن اچھوت لڑکی دیویکارانی سے محبت کرتا ہے۔ اس دور کے سیاسی منظرنامہ میں بھی فلم کے اس موضوع کو عوام نے بے حد پسند کیا اور ایک طرح سے اس فلم کے ذریعہ قومی یکجہتی کا پیغام لوگوں کے دلوں تک پہنچا۔ اس کی کامیابی کے بعد اشوک اور دیویکا کی جوڑی کافی مقبول ہوئی۔ بعد ازاں ان دونوں کو لے کر بمبئی ٹاکیز نے کئی فلمیں بنائیں۔ ۱۹۳۷ء میں فلم ’عزت‘ کی نمائش ہوئی اور اُسی برس فلم ’ساوتری‘ بھی ریلیز ہوئی۔ ۱۹۳۸ء میں فلم ’نرملا‘ ریلیز ہوئی۔ ان تمام فلموں کو عوام نے بے حد پسند کیا مگر اس پسندیدگی کا زیادہ کریڈٹ فلم کی ہیروئن دیویکارانی کو ہی گیا کیونکہ وہ نہ صرف بہت پُرکشش شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کی پرورش کافی حد تک ملک سے باہر ہوئی تھی اور وہ ہمانشو رائے کی بیوی اور بمبئی ٹاکیز کی مالکن بھی تھیں۔ انہوں نے فلمسازی کے مختلف شعبوں میں باقاعدہ کام کرکے بہت کچھ سیکھا بھی تھا اور ان کو خود کو پردے پر پیش کرنے کا ہنر بھی بخوبی آتا تھا۔
۱۹۳۹ء میں فلم ’کنگن‘ اور ۱۹۴۰ء میں فلم ’بندھن‘ کے بعد ۱۹۴۱ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’جھولا‘ میں اشوک کمار کی ہیروئن لیلا چٹنس بنیں۔ اس نئی جوڑی کو بھی کافی سراہا گیا۔ ان کی اِن تینوں فلموں نے سلور جبلی منائی اور یہ بات ملک میں پہلی بار ہوئی تھی۔ اب اشوک کمار کی اداکاری میں بھی پختگی آگئی تھی اور وہ ایک باصلاحیت اداکار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
بمبئی ٹاکیز کی فلم ’قسمت‘ میں اشوک کمار نے ایک الگ طرح کا کردار ادا کیا جسے لوگوں نے کافی پسند کیا۔
۱۹۴۳ء میں اشوک کمار نے بمبئی ٹاکیز کی فلم ’قسمت‘ میں ایک الگ طرح کا کردار ادا کیا اور ماضی کے روایتی ہیرو کے انداز و اطوار سے بالکل الگ اپنی پہچان بنائی۔ یہ ان کا پہلا نگیٹیو کردار تھا۔ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی۔ فلم ’قسمت‘ کلکتہ کے راکسی تھیٹر میں مسلسل چار برس تک چلی تھی۔
۱۹۴۰ء میں ہمانشو رائے کے انتقال کے بعد بمبئی ٹاکیز کی ساری ذمہ داری دیویکارانی پر آگئی۔ پھر انہوں نے اشوک کمار کو ایک صلاح کار کی حیثیت دے دی۔ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۵۴ء کے درمیان صرف بمبئی ٹاکیز نے ہی تقریباً ۳۴؍ فلمیں بنائیں جن میں ۲۱؍فلموں میں اشوک کمار ہی ہیرو تھے۔ ۱۹۴۹ء میں بمبئی ٹاکیز کی فلم ’محل‘ آئی جس کے کہانی کار، ہدایتکار اور اسکرپٹ رائٹر کمال امروہی تھے۔ فلم ’محل‘ تک آتے آتے بھی اشوک کمار کی اداکاری میں ایک سپاٹ پن سا تھا۔ بمبئی ٹاکیز سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کمال امروہی سے ان کی دوستی بھی تھی لہٰذا امروہی نے ان سے کہا کہ اِس فلم’محل‘ میں وہ اشوک کمار کو کچھ مختلف انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر کمال کو اشوک کمار کے مکالموں کی ادائیگی پسند نہیں تھی لہٰذا انہوں نے فلم کی شوٹنگ رُکوا دی اور تین ماہ تک وہ اشوک کمار کے ساتھ فلم کے مختلف مناظر پر اور کہانی میں ان کے کردار کے بارے میں تبادلۂ خیالات کرتے رہے اور آخرکار جب فلم کا وہ کردار اشوک کمار کے دل ودماغ پر حاوی ہو گیا، تب انہوں نے فلم کی شوٹنگ شروع کی اور تقریباً دس ماہ میں ہی فلم مکمل کرکے نمائش کیلئے پیش کر دی۔ اس فلم میں اشوک کمار کی انگلیوں میں دبی ہوئی سگریٹ کا جلتے رہنا اور اس کے جلنے سے اشوک کمار کا چونکنا اور فلم میں ان کا چلنے کا انداز، یہ سب فلم کی خوبی بن گئی تھیں۔ یہ ہندوستان کی پہلی سسپنس تھرلر فلم ثابت ہوئی اور بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ اس فلم سے نہ صرف اشوک کمار کو ایک نئے اداکار کے طور پر پہچان ملی بلکہ فلم کی ہیروئن مدھوبالا بھی اس فلم سے بڑی اداکارائوں کی صف میں شامل ہو گئیں۔
۱۹۵۴ء میں بمبئی ٹاکیز سےالگ ہوکر اشوک کمار نے ششدھر مکرجی اور کمال امروہی کے ساتھ مل کر جب فلمستان اسٹوڈیو کی بنیاد ڈالی تو ایک فلم ’آٹھ دن‘ بنانی شروع کی۔ اشوک کمار کو لگا کہ وہ اداکاری کی طرح فلم کی ہدایتکاری بھی کامیابی کے ساتھ کر سکتے ہیں لہٰذا فلمستان کی پہلی فلم ’آٹھ دن‘کی ہدایتکاری اشوک کمار نے خود کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلم بُری طرح فلاپ ہو گئی اور اشوک کمار نے مستقبل میں کبھی ہدایتکاری نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فلم میں مشہور افسانہ نگار منٹو نے بھی ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا۔
اشوک کمار نے اداکاری میں کامیابی حاصل کرنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں، انوپ کمار اور کشور کمار کو بھی بمبئی بلا لیا۔ کشور کمار کو گانے کا بہت شوق تھا۔ حالانکہ ان کی آواز اس زمانے کے گلوکاروں، طلعت محمود، محمدرفیع، مکیش، منّا ڈے اور مہندر کپور جیسی تو نہیں تھی مگر انہوں نے اپنے اسٹائل سے گلوکاری میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ کشور کمار ہرفن مولا قسم کے آدمی تھے۔ فلم میں اداکاری اور گلوکاری کے علاوہ موسیقی بھی دیتے تھے اور فلمسازی اور ہدایتکاری میں بھی ان کو دخل تھا۔ ۱۹۵۸ء میں کشور کمار کی بنائی فلم ’چلتی کا نام گاڑی‘ میں تینوں بھائیوں نے مزاحیہ کردار ادا کئے تھے اور بڑے بھائی کے کردار برج موہن میں اشوک کمار نے بھی جم کر کامیڈی کی تھی۔ اس فلم کے بعد ہی اداکارہ مدھوبالا نے کشور کمار سے شادی کر لی تھی۔
تقریباً اُسی زمانے میں اشوک کمار نے بمبئی فلم انڈسٹری سے بمل رائے جیسے باصلاحیت ہدایتکار کو متعارف کرایا اور ان کی ہدایت میں ۱۹۵۳ء میں فلم ’پرنیتا‘ بنائی گئی جس کی ہیروئن میناکماری تھیں۔ بمل رائے اور اشوک کمار میں طے یہ ہوا تھا کہ جو فلم اشوک کمار بنائیں گے اس کے ہدایتکار بمل رائے ہوں گے۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر بمل رائے اپنے وعدے سے ہٹ گئے، اسلئے دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ۱۹۶۳ء میں جب فلم ’بندنی‘کیلئے بمل رائے نے اشوک کمار کو سائن کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا مگر بعد میں اداکارہ نوتن کے اصرار پر وہ کام کرنے پر رضامند ہوئے۔ فلم ’بندنی‘ اشوک کمار کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اس کے بعد اشوک کمار نے بمل رائے کی کئی فلموں میں اداکاری کی۔
اشوک کمار کے دادامنی بننے کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ دراصل ان کی چھوٹی بہن ستی رانی اکثر بمبئی ٹاکیز آیا کرتی تھیں کیونکہ ان کے شوہر ششدھر مکرجی بھی وہیں کام کرتے تھے لہٰذا وہ بنگالی تہذیب کے مطابق اشوک کمار کو بڑے بھائی کے بجائے داداموڑیں کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔ بنگالی میں مڑیں کو موڑی کہا جاتا ہے اور انگریزی، ہندی اور اردو میں ’ڑ‘ کی جگہ’ ن‘ کا استعمال ہوتا ہے لہٰذا وہاں کے باقی لوگ بھی اشوک کمار کو دادامنی ہی کہنے لگے اور پھر تو پورے ہندوستان میں ان کا یہ لقب مشہور ہو گیا۔
ستی رانی اور ششدھر مکرجی کے بیٹے جوائے مکرجی نے بھی کئی مقبول فلموں میں ہیرو کے کردار ادا کئے۔ مزاحیہ اداکار دیوین ورما اشوک کمار کے داماد ہیں۔ اشوک کمار کی بیٹی پریتی گانگولی کے بعد اُن کی نواسی انورادھا پٹیل نے بھی فلموں میں اداکاری کی مگر یہ دونوں ہی کامیاب نہ ہو سکیں۔ انورادھا نے ایک فلم ’ لَو اِن گوا‘ میں اشوک کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اشوک کمار کبھی رات کی شفٹ میں شوٹنگ نہیں کرتے تھے مگر فلم ’پورب اور پچھم‘ میں انہوں نےکی تھی۔
اشوک کمار نے کافی لمبے عرصے تک ہندوستانی گولڈن اسکرین پر اپنی ہیرو کی پہچان کو کامیابی کے ساتھ برقرار رکھا، مگر جب چہرے پر عمر کے نشان زیادہ واضح ہونے لگے تو انہوں نے ۶۰ء کی دہائی میں اپنے کردار بدلنے شروع کر دئیے اورکریکٹر آرٹسٹ کے طور پر فلمیں سائن کرنی شروع کر دیں۔ ۱۹۶۰ء میں ریلیزان کی فلم ’قانون‘ بے حد کامیاب رہی جس میں انہوں نے ایک جج کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد کریکٹر رول والی ان کی فلمیں لگاتار آنی شروع ہو گئیں۔ ۱۹۶۱ء میں ’دھرم پُتر‘ اور ’اُمید‘، ۱۹۶۲ء میں ’راکھی، نقلی نواب، مہندی لگی میرے ہاتھ، اسی کا نام دنیا ہے، برما روڈ اور’آرتی‘ وغیرہ، ۱۹۶۳ء میں ’یہ راستے ہیں پیار کے، استادوں کے استاد، میری صورت تیری آنکھیں، میرے محبوب، گمراہ، گرہن، بندنی اورآج اور کل، ۱۹۶۴ء میں ’دوج کا چاند، چترلیکھا اوربے نظیر، ۱۹۶۵ء میں ’اونچے لوگ، بھیگی رات، آکاش دیپ وغیرہ ہیں۔
۱۹۷۵ء میں امیتابھ بچن اور جیا بہادری کی فلم ’مِلی‘ میں انہوں نے مِلی کے باپ کا یادگار کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۴ء میں دوردرشن کے پہلے ٹی وی سوپ ’ہم لوگ‘ میں سوتردھار (راوی) کا کردار ادا کیا جو کافی عرصہ تک چلا اور اشوک کمار کی مقبولیت عوام میں بنی رہی۔ ۱۹۸۶ء میں انہوں نے ٹی وی سیریل ’بھیم بھوانی‘ اور’کراس روڈ‘ میں بھی کام کیا۔ ٹی وی سیریل ’بھارت ایک کھوج‘ میں بھی انہوں نے اداکاری کی۔ ۱۹۹۷ء میں اشوک کمار کی اداکاری والی آخری فلم ’آنکھوں میں تم ہو‘ ریلیز ہوئی اور اس کے بعد صحت کی خرابی کی وجہ سے انہوں نے فلموں میں کام کرنا ترک کر دیا۔
اشوک کمار کی پسندیدہ اداکارائوں میں گیتا بالی، مدھو بالا، میناکماری، سچترا سین اور نوتن کے نام خاص طور پر لئے جا سکتے ہیں۔ مینا کماری نے ۱۸؍فلموں میں اشوک کمار کے ساتھ اداکاری کی ہے۔ اشوک کمار کے عشق کی بھی کئی داستانیں مشہور ہوئیں۔ سب سے پہلے لیلا چٹنس کا نام ان کے ساتھ جوڑا گیا۔ اس کے بعد فلم ’سمادھی‘ کی تکمیل کے دوران وہ خود اداکارہ نلنی جیونت پر عاشق ہو گئے، جس کے نتیجے میں اُن کی بیوی نے سگریٹ کم کرنے کے بہانے سے اپنی بیٹی بھارتی کو اشوک کمار کے ساتھ شوٹنگ پر بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ کافی دنوں بعد نروپا رائے کے نام کے ساتھ بھی اشوک کمار کا نام جوڑا گیا۔ اِن دونوں نے لگاتار ایک ساتھ ۱۵؍فلموں میں کام کیا تھا۔
اشوک کمار نے کئی مسلم سوشل فلموں میں بڑی کامیاب اداکاری کی ہے اور ایسے کرداروں میں وہ نہ صرف پسند کئے جاتے تھے بلکہ مسلم کردار ان پر خوب جچتے بھی تھے۔ فلم ’بے نظیر‘ کے نواب اور ’بہو بیگم‘ میں نواب سکندر مرزا کے کردار میں انہوں نے میناکماری کے ساتھ بہترین اداکاری پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ فلم ’میرے محبوب‘ کے لُٹے پٹے نواب بلند اختر چنگیزی اور کمال امروہی کی مشہور زمانہ فلم ’پاکیزہ‘ کے نواب شہاب الدین کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ فلم ’پیار کیا ہے پیار کریں گے‘ میں عبدالرحمان کا کردار اور فلم ’آپ کے دیوانے‘ میں انشااللہ خاں، ’فلم بڑھتی کا نام داڑھی‘ میں گلفام اور فلم ’دھرم پُتر‘ میں نواب بدرالدین، فلم ’ہمایوں ‘ میں ہمایوں اور میناکماری کے ساتھ فلم ’نجمہ‘ میں یوسف کے کرداروں کو بھلا کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ بی آرچوپڑہ کے ایک ٹی وی سیریل میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کا کردار بھی بخوبی ادا کیا تھا۔ ان کا اردو کا تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی بھی بہت اعلیٰ درجے کی تھی اور ان کے بدن پر چوڑی دار پائجامہ کے ساتھ شیروانی بھی خوب سجتی تھی۔
اشوک کمار کو پہلی بار ۱۹۶۲ء میں پہلا فلم فیئر ایوارڈ فلم ’راکھی‘ کیلئے دیا گیا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں دوسری بار اُن کو فلم ’آشیرواد‘ کیلئے ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں انہیں ’دادا صاحب پھالکے‘ پیش کیا گیا۔ فلم ’گمراہ‘ کیلئے انہیں نیشنل ایوارڈ دیا گیا اور بعد میں ملک کے باوقار اعزاز ’پدم شری‘ سے بھی نوازا گیا۔
۱۰؍دسمبر ۲۰۰۱ء کو تقریباً ڈھائی برس طویل بیماری کے بعد ممبئی کے اپنے چمبور والے پُرانے مکان میں اشوک کمار نے آخری سانس لی اور اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔