• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کم عمری ہی میں ملک بھر میں ماسٹر مدن کے نام کا ڈنکا بجنے لگا تھا

Updated: June 12, 2024, 9:57 AM IST | Agency | New Delhi

ہندوستانی موسیقی کی دنیا میں اپنے سروں کے جادو سے سامعین کو مسحور کرنے والے گلوکار تو کئی آئے اور ان کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا لیکن کچھ ایسے بھی گلوکار ہوئے جو گمنامی کے اندھیرے میں گم ہو گئے اور آج انہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔

Master Madan. Photo: INN
ماسٹر مدن۔ تصویر : آئی این این

ہندوستانی موسیقی کی دنیا میں اپنے سروں کے جادو سے سامعین کو مسحور کرنے والے گلوکار تو کئی آئے اور ان کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا لیکن کچھ ایسے بھی گلوکار ہوئے جو گمنامی کے اندھیرے میں گم ہو گئے اور آج انہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ انہیں میں سے ایک تھے ماسٹر مدن۔ ماسٹر مدن کی پیدائش۲۸؍ دسمبر۱۹۲۷ء کو پنجاب کے جالندھر شہر کے ایک سکھ خاندان میں ہوئی تھی۔ 
 ماسٹر مدن کے والد سردار امر سنگھ ہندوستانی حکومت کے محکمہ تعلیم میں کام کرتے تھے۔ ان کے والد موسیقی سے دلچسپی رکھتے تھے اور وہ ہارمونیم اور طبلے کے ماہر تھے جبکہ ان کی ماں مذہبی خیالات کی خاتون تھیں ۔ ماسٹر مدن کے بھائی بہن بھی موسیقی میں کافی دلچسپی رکھتے تھے اور گلوکاری اور ساز و آواز کے میدان میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ گھرمیں موسیقی کا ماحول ہونے کی وجہ سے ماسٹر مدن بھی موسیقی میں دلچسپی لینے لگے۔ 
  موسیقی کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ محض دو سال کی عمر ہی سے ماسٹر مدن نے اپنی ۱۴؍ سالہ بڑی بہن سے موسیقی کی تربیت لینی شروع کر دی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے موسیقار پنڈت امرناتھ اور گوسائی بھگود کشور سے بھی موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ ماسٹر مدن اپنے بڑے بھائی موہن کے ساتھ موسیقی کا ریاض کیا کرتے تھے۔ وہ مدن کو بھی اپنے ساتھ تقاریب میں لے جاتے۔ مدن کی آواز بہت سریلی تھی اور ایک طرح کی چاشنی اور کشش ان مذہبی کیرتن میں بہت ابھر کر آتی تھی جو عموماً سکھوں کی مذہبی محفلوں اور گردواروں میں منعقد ہوتی تھیں۔ پنڈت امرناتھ گھر پر ماسٹر مدن کے دونوں بھائیوں کو موسیقی کی اعلیٰ تعلیم دینے آتے تھے۔ اس دوران مدن بھی وہیں کہیں آس پاس موجود رہتے، یاد رہے کہ یہ وہی پنڈت امر ناتھ ہیں جو نہ صرف ہندوستان کے بہت بڑے اور مایہ ناز موسیقار تھے بلکہ ایک اور نامور موسیقار حسن لال بھگت رام کے بڑے بھائی بھی تھے۔ ان دنوں مشہور گلوکار کندن لال سہگل شملہ میں ریمنگٹن نامی ٹائپ رائٹر کمپنی میں کام کرتے تھے اور وہ ماسٹر مدن کے گھر اکثر آیا کرتے تھے اور ان کے بڑے بھائی کے ساتھ موسیقی کا ریاض کیا کرتے تھے جسے ماسٹر مدن بھی سنا کرتے تھے۔ 
 صرف ساڑھے تین یا چار برس کی عمر میں مدن نے پہلی پبلک پرفارمنس دی۔ انھوں نے راگ در پد میں گانا سنایا تھا۔ سامعین موسیقی پر ان کی گرفت پہ حیران رہ گئے تھے۔ موسیقی کے راگوں سے واقفیت رکھنے والے حیران تھے کہ جو سُر مدن کے گلے سے نکل رہے ہیں اور جو کیفیت اس کم عمر بچے کی وہ دیکھ رہے ہیں وہ انتہائی حیران کن ہے۔ وہ بے ساختہ یہ بول اٹھے: کیا اس کے گلے میں بھگوان بول رہے تھے؟ سُر تال پہ ان کی گرفت اور ایک وجدانی کیفیت نے انہیں راتوں رات مشہور کر دیا۔ سنگیت کی محفل کے اختتام پر انہیں ایک سونے کی انگوٹھی اور گولڈ میڈل دیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بڑے اخباروں میں ان کی تصاویر شائع ہوئیں اور وہ ایک ’ننھے منے لیجنڈ‘بن گئے۔ اب ہر جگہ ان کی تصاویر کے پوسٹر لگے نظر آتے۔ پورے ملک میں ماسٹر مدن کے نام کا ڈنکا بجنے لگا جس میں میڈیا کا بہت اہم رول رہا۔ اتنا ہی نہیں ’دی ہندو‘ اخبار نے ماسٹر مدن کا فوٹو اپنے پہلے صفحہ پر شائع کیا۔ اس کے بعد تو ماسٹر مدن کی مقبولیت ملک کے کونے کونے تک پھیل گئی اور لوگ انہیں موسیقی کے پروگراموں میں دعوت دینے لگے۔ ماسٹر مدن اپنے بھائی کے ساتھ بھی پروگراموں میں حصہ لینے جایا کرتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK