یہاں آکر پہلے ’لوک ناٹیہ منچ‘ اور بعد میں ’اپٹا‘ سے وابستہ ہوئے اور پھر وہیں انہوں نے فلمساز و ہدایتکار فنی مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردار قبول کیا، اس طرح ان کے فلمی کریئر کا آغاز ہوا۔
EPAPER
Updated: May 12, 2024, 4:03 PM IST | Agency | Mumbai
یہاں آکر پہلے ’لوک ناٹیہ منچ‘ اور بعد میں ’اپٹا‘ سے وابستہ ہوئے اور پھر وہیں انہوں نے فلمساز و ہدایتکار فنی مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردار قبول کیا، اس طرح ان کے فلمی کریئر کا آغاز ہوا۔
متحدہ پنجاب نےجہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں بڑے بڑے فنکار پیدا کئے ہیں، وہیں فلمی دُنیا کو بھی کئی اہم ستون بخشے ہیں۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، ساحرؔ لدھیانوی، راج کپور، دھرمیندر، راج کھوسلہ، بی آر چوپڑہ، یش چوپڑہ، نور جہاں، پران، دھرمیندر، راجندر سنگھ بیدی اور راجندر کمار وغیرہ کے نام فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اُسی پنجاب نےایک اور بڑے فنکار کو جنم دیا جسے ہم بلراج ساہنی کے نام سے جانتے ہیں۔
بلراج ساہنی کا جنم یکم مئی ۱۹۱۳ء کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو تقسیم وطن کے بعد اب پاکستان میں ہے۔ راولپنڈی دو بڑے شہروں، لاہور اورپشاور کے درمیان ایک نسبتاً چھوٹا شہر تھا۔ پشاور کے لوگ پرانی وضع کے تھے جبکہ لاہور نئی روشنی کا شہر تھا، لیکن بلراج کے بچپن میں راولپنڈی میں بھی نئی روشنی پھیلنے لگی تھی اور شہر کے قدم جدیدیت کی طرف گامزن ہو گئے تھے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی وجہ سے بھی لوگوں میں ایک نیا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا تھا۔ غیر ملکی کپڑوں کی ہولی جلائی جانے لگی تھی اور نمک کا قانون بھی توڑا جانے لگا تھا۔
بلراج ساہنی کی زندگی کی کہانی بھی اپنے آپ میں ایک عجیب وغریب داستان ہے۔ بڑی سادہ سی زندگی مگر کتنی جدوجہد بھری۔ ان کے والد ہربنس لال ساہنی راولپنڈی کے چھاچھی محلہ کے ایک دو منزلہ مکان میں اپنی بیوی لکشمی، دو بیٹوں، بلراج اور بھیشم اور دو بیٹیوں، ویراں اور سمترا کے ساتھ رہتے تھے۔ ان سب بچوں میں تیسرے نمبر پر بلراج ساہنی تھے اور بھیشم ساہنی سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جس میں اوسط آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ اُن کے والد کی بازار میں کوئی دکان نہیں تھی بلکہ گھر ہی پر مکان کے نچلے حصہ میں انہوں نے ایک چھوٹا سا دفتر بنا لیا تھا۔ خاندان کے سب لوگ گھر کے اوپری حصے میں رہتے تھے۔ ان کے والد ہربنس لال ساہنی آریہ سماجی خیالات کے تھے اور راولپنڈی کے آریہ سماج کے منتری بھی تھے۔ اُن دِنوں آریہ سماج کا ہمارے معاشرے پر اثر بڑھ رہا تھا اور مورتی پوجا، مذہبی ڈھونگ اور اندھے عقائد و روایات کے خلاف ویدک ادب، سنسکرت زبان اور سچے صوفی ازم کے رجحانات سماج پر کافی اثر ڈال رہے تھے۔
بلراج ساہنی اور اُن کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو بچپن میں گروکل میں سنسکرت پڑھنے کیلئے بھیجا گیا مگر وہاں دونوں کا دل نہیں لگا اور ایک دن بلراج ساہنی نے اپنا فیصلہ اپنے والد کو سنا دیا کہ وہ اب گروکل میں نہیں بلکہ اسکول میں پڑھیں گے۔ اُن کے والد اس بات سے حیران رہ گئے مگر حقیقت میں بلراج ساہنی نے جیسے اُن کے دل کی بات کہہ دی تھی۔ وہ اپنا سارا کام اُردو یا انگریزی میں کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ نئی طرز کی تعلیم اب اُن کے بچوں کیلئے بھی ضروری ہو گئی ہے۔ اُن کی والدہ بھی بچوں کو نئی تعلیم دلانے کے حق میں تھیں، اسلئے دونوں بھائیوں کو اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ بڑے بھائی بلراج ساہنی چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی سے صرف دو سال ہی بڑے تھے مگر انہیں چوتھی کلاس میں اور بھیشم ساہنی کو پہلے درجے میں داخلہ ملا۔
بلراج ساہنی بچپن ہی سے اپنا ادبی رجحان نظموں کے ذریعہ ظاہر کرنے لگے تھے۔ صرف پندرہ برس کی عمر میں ہی وہ اُردو میں شعر کہنے لگے تھے۔ انہیں دنوں انہوں نے ایک نظم انگریزی میں بھگت سنگھ کی یاد میں کہہ ڈالی تھی۔ بلراج اور بھیشم دونوں بھائیوں نے مڈل کلاس تک کی تعلیم راولپنڈی میں ہی حاصل کی، بعد میں اعلیٰ تعلیم کیلئے وہ لاہور چلے گئے۔
انہیں دراصل ایک ادبی ماحول اپنے خاندان ہی میں مل گیا تھا۔ اُن کی دو پھوپی زاد بہنیں کشمیر میں رہتی تھیں، جن میں سے ایک پروشارتھ وتی کے شوہر جانے مانے ادیب اور مدیر چندر گپت وِدیا لنکار تھے، جو ادب پر اکثر بحثیں کرتے رہتے تھے۔ بلراج ساہنی نے بچپن میں اپنی والدہ سے بھی سنا تھا کہ ان کی دادی بھی کویتا کہتی تھیں اور ان کے کاروباری والد نے بھی بتایا تھا کہ ایک زمانے میں اُنہوں نے بھی ایک ناول لکھا تھا مگر وہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔ بلراج ساہنی کی تعلیم ایم اے انگریزی تک ہونے کے بعد اُن کے والد ہربنس لال ساہنی نے اُن کو اپنے کپڑے کے کاروبار میں شامل کر لیا تھا۔ شادی کے بعد ۱۹۳۷ء میں بلراج ساہنی نے والد اور چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو کاروبار اور دفتر کی ذمہ داریاں سونپ کر گھر والوں سے الوداع کہا اور اپنی بیوی دمینتی کے ساتھ کولکاتا میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن چلے گئے، جہاں انہوں نے ہندی اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
شانتی نکیتن کا ماحول ان کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ وہاں پہنچ کران کے دل نے گواہی دی کہ یہی زندگی ہے جو وہ جینا چاہتا ہے۔ شروع شروع میں شانتی نکیتن کے پُرسکون ماحول میں بلراج ساہنی کا دل خوب لگا مگر جلد ہی وہ وہاں کی یکسانیت اور موسیقی ریز ادبی ماحول سے اُکتا گئے۔ اُن کو وہاں کی شانت اور پُرسکون زندگی سے اُلجھن سی ہونے لگی کیونکہ ان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا ارمان جوش مار رہا تھا۔ ان کے دل میں ملک و قوم کیلئے خود کو وقف کر دینے کا جذبہ موجزن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک کی روح، ہندوستان کی آتما اُن کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ملک و قوم کی اس آواز پر وہ مہاتما گاندی کے پاس وَردھا جا پہنچے۔
وردھا پہنچ کر انہوں نے رسالہ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اپنے ذمہ لے لی۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ۱۹۳۹ء میں بلراج ساہنی کو بی بی سی لندن سے مراسلہ ملا کہ ان کا انتخاب بی بی سی کی ہندی سروس میں انائونسر کی حیثیت سے ہو گیا ہے لہٰذا وہ گاندھی جی سے آشیرواد لے کر انگلینڈ چلے گئے، جہاں بی بی سی کی ریڈیو سروس میں ہندی کے انائونسر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ اس طرح بلراج ساہنی پورے چار برس تک ملک سے باہر رہ کر ملک کی ایک اہم اور ناقابل ستائش خدمت انجام دیتے رہے اور یہ چار برس بلراج ساہنی کی زندگی میں بڑے عجیب گزرے اور ان کی زندگی کے لئے اہم بھی تھے۔
وہاں رہتے ہوئے ہندوستان میں چل رہی آزادی کی لڑائی میں شامل ہوناان کیلئے بہت مشکل تھا، اسلئےوہ جنگِ آزادی میں اپنے ہم وطنوں کے کندھے سے کندھا ملاکر لڑنے کیلئے وطن واپس چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے ’لوک ناٹیہ منچ‘ کی ذمہ داریاں قبول کر لیں۔ یہ بھی ایک طریقہ تھا عام لوگوں سے وابستہ ہونے اور عام زندگی سے قریب رہنے کا۔ ناٹک یا ڈرامے کے ذریعہ ایک عام آدمی سے اداکار یا فنکار کا کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، یہ بات بلراج ساہنی کو بہت اچھی طرح معلوم تھی، اور وہ یہی کر بھی رہے تھے۔ ڈراموں سے اُن کو اتنا لگائو تھا کہ رات دن سوتے جاگتے بس ڈراموں کی ہی باتیں ان کی گفتگو کا موضوع ہوا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک آزادی میں بھی برابر حصہ لیتے رہے اور ہر طرح سے کانگریس کے ایک اہم اور سرگرم رکن رہے۔ اسی دوران بلراج ساہنی کا ذہن فلموں کی طرف متوجہ ہوا اور انہوں نے فلموں سے وابستہ ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ ۱۹۴۴ء میں وہ اِپٹا (انڈین پیپلز تھیٹراسوسی ایشن) سے وابستہ ہو گئے، وہیں انہوں نے فلمساز و ہدایتکار فنی مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردر ادا کیا۔
اس کے فوراً بعد ہی خواجہ احمد عباس کی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں ایک بھرپورکردار ادا کرنے سے ان کی پہچان شروع ہوئی۔ یہ فلم بنگال کے قحط زدگان سے متعلق ایک انتہائی اثردار فلم تھی۔
جن دنوں بلراج ساہنی پوری طرح فلموں سے وابستہ ہوئے تھے، اُن دنوں کئی اچھے اور قابل فلمساز اور ہدایتکار فلمی دنیا میں موجود تھے۔ یہ بلراج ساہنی کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ہمیشہ قابل اور سلجھے ہوئے ہدایتکار اور فلمساز ملے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی آسمان پر بلراج ساہنی کا نام اس روشن ستارے کی طرح جگمگایا جس سے لوگ دشائوں کا گیان حاصل کرتے ہیں۔
بلراج ساہنی کی بطور اداکارکریڈٹ والی پہلی فلم ۱۹۴۶ء ’دھرتی کے لال ‘ تھی مگر انہیں شہرت ۱۹۵۳ء میں ریلیز ہونے والی بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ سے ملی۔ اس فلم نے عالمی شہرت حاصل کی اور کانس فلم فیسٹیول میں اعزاز سے نوازی گئی۔ ۱۹۴۷ء میں اُن کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اس کے دو سال بعد بلراج ساہنی نے اپنی ایک کزن سنتوش چنڈھوک سے شادی کر لی جو بعد میں ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک مصنفہ کے طور پرجانی گئیں۔
’’گرم کوٹ، ہیرا موتی، دو بیگھہ زمین، دھرتی کے لال، گڑیا، راہی، نوکری، بدنام، مجبوری، اولاد، کٹھ پُتلی، دو روٹی، سونے کی چڑیا، مائی باپ، ہم لوگ، کابلی والا، سیما، گرم ہوا، ہنستے زخم، وقت، امانت، ہنستے زخم، ہندوستان کی قسم، گھر گھر کی کہانی، جواں محبت، پرایا دھن، حقیقت، سنگھرش اورنیل کمل‘‘ وغیرہ کچھ ایسی فلمیں ہیں جن میں بلراج ساہنی نے اپنی فنی صلاحیتوں سے ان سب کرداروں کو زندگی بخشی جو اِن فلموں میں انہوں نے پیش کئے۔ یہ چند ایسی فلمیں ہیں جن کی وجہ سے بلراج ساہنی کو فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ بلراج ساہنی نے دیوآنند کیلئے فلم ’بازی‘ کی کہانی بھی لکھی تھی جس کو گرودت کی ہدایت میں بنایا گیا ہے۔
بلراج ساہنی کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک بہترین اور سلجھے ہوئے ترقی پسند مصنف بھی تھے۔ اُنہوں نے ہندی، انگریزی اور پنجابی ادب کو بہت یادگار تخلیقات بخشی ہیں۔ ’’میری غیرجذباتی ڈائری، یورپ کے باسی، میرا پاکستانی سفرنامہ اوریادیں ‘‘ اُن کی مقبول کتابیں ہیں۔ فلم اور اسٹیج کے موضوع پر بھی انہوں نے ’سنیما اور اسٹیج‘ اور ’میری فلمی آتم کتھا‘ جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ ۱۹۴۹ء میں بلراج ساہنی کو اُن کی کتاب ’میرا روسی سفرنامہ‘کیلئے سوویت نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۶۹ء میں انہیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔
بمل رائے کی شہرہ آفاق فلم ’دو بیگھہ زمین‘ میں دیگر فنکاروں کے ساتھ بلراج ساہنی۔ تصویر: آئی این این
بلراج ساہنی ایک نیک دل، سلجھے ہوئے اور سادگی پسند انسان تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ انسان کو انسان ہی سمجھتے تھے اور چھوٹے، بڑے یا امیر غریب کی تفریق کرنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔
اس سلسلے کا ایک واقعہ بلراج ساہنی نے اپنی کتاب ’یادیں ‘ میں نقل کیا ہے۔ بلراج ساہنی کسی فلم کی شوٹنگ کیلئے چنڈی گڑھگئے ہوئے تھے۔ آئوٹ ڈور کا کام تھا اور فلم کا سارا یونٹ ایک رات کسی امیر دوست کے گھر پارٹی میں مصروف تھا۔ بڑے زوروں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ پنجابی مہمان نوازی، پنجابی حسن اور پنجابی ہنسی مذاق اپنے شباب پر تھا۔ مارچ کے مہینے کا بے حد سہانہ موسم تھا۔ دن بھر تمام یونٹ نے شوالک کی پہاڑیوں کے آنچل میں شوٹنگ کی تھی اور بڑے حسین شاٹ لئے تھے۔ شام میں دن بھر کی تھکاوٹ کو دور کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ پارٹی میں مردوزن سبھی تھے۔ ایسے ماحول میں بلراج ساہنی کے ایک دوست نے آکران سے کان میں کہا کہ ’’بَلّی! باہر ایک آدمی بہت دیر سےکھڑا ہے تم سے ملنے کیلئے۔ ذرا ایک منٹ باہر جاکر اُسے درشن دے آئو۔ ‘‘
’’یہ نہیں ہوگا۔ ‘‘ بلراج نے کہا۔ ’’آج کے دن میں پوری ڈیوٹی ادا کر چکا ہوں۔ اب اپنے نجی وقت پر مجھے مکمل اختیار حاصل ہے اور میں اس کا پورا پورا مزہ لینا چاہتا ہوں۔ تم اس سے کہہ دو کہ کل صبح مجھے ہوٹل میں آکر ملے۔ ‘‘
’’میری درخواست ہے بلی۔ وہ شام پانچ بجے کے پہلے ہی سے میری کوٹھی پر تھا اور اب اس کوٹھی کے باہر کھڑا ہے۔ ‘‘ دوستوں میں سب ان کو بَلّی کہتے تھے۔
دوست کی اس درخواست پر بلراج ساہنی بڑی بے دلی کے ساتھ باہر آئے۔ دودھیا چاندنی میں چمک رہے سیمنٹ کے فرش پر کھڑے کچھ لوگوں کی ٹولی کے پاس بگھی پر پلاسٹک کے پُتلے کی طرح اوم پرکاش نامی ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ بلراج کو دیکھ کر اس نے فوجی ڈھنگ سے سلام کیا، جس کا مطلب بلراج ساہنی سمجھ نہ پائے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اتنے لوگوں میں ان کو کس سے ملنا ہے۔ قریب جاکر وہ ان سب لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے اور اوم پرکاش بگھی پر بیٹھے ہوئے ہی بولا۔ ’’کیا ہم بھی میجر رَن وِیرسنگھ صاحب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں ؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑا۔
بلراج ساہنی کو حیرت ہوئی اور اس کو بغیر ٹانگوں کے دیکھ کر ہمدردی بھی۔ ایک خیال ان کے دماغ میں یہ بھی آیا کہ یہ لوگ کہیں ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں۔
’’کون میجر رن ویر سنگھ؟‘‘ بلراج ساہنی نے حیرت سے پوچھا۔
’حقیقت‘ کے رن ویر سنگھ، اور کون؟ وہ معذور نوجوان ایک بار پھر اسی طرح ہنسا۔
اس کے اتنا کہنے پر بلراج ساہنی کو یاد آیا کہ فلم ’حقیقت‘ میں انہوں نے ایک فوجی میجر رن ویر سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ بات کافی پُرانی ہو گئی تھی مگر اس وقت اوم پرکاش کے ان الفاظ سے بلراج جی کو خوشی ضرور ہوئی تھی۔
’’میں نے تین بار دیکھی تھی صاحب وہ پکچر۔ چوتھی بار اپنی ماں کو ساتھ لے کر دیکھنا چاہتا تھا مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ ‘‘ اوم پرکاش نے پھر کہا۔
’’اتنی زیادہ پسند آئی تمہیں۔ ‘‘ انہوں نے رسماً پوچھا۔
’’کیسے نہ آتی صاحب، ہم بھی تو لڑے ہیں چینیوں کے ساتھ۔ آپ میجر ٹھہرے، ہم ایک معمولی سپاہی سہی۔ ‘‘
اس کی طنزیہ ہنسی اور لکڑی کی ٹانگوں کی اصلیت جان کر بلراج جی حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک فوجی جوان جس نے جنگ میں دونوں ٹانگیں کھوئی تھیں، اُن سے ملنے کیلئے ۴؍ گھنٹے سے انتظار کر رہا تھا۔ ان کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔
’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی کہ تم فوجی جوان ہو؟‘‘ بلراج ساہنی نے پوچھا۔
’’بتاکر ملنے میں نہیں بلکہ مل کر بتانے میں مزہ ہے میجر صاحب۔ ‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھے بار بار میجر کہہ کر شرمندہ نہ کرو، خدا کا واسطہ ہے۔ ‘‘ بلراج ساہنی نے عاجزی سے کہا۔
’’آپ اپنی قیمت ہمارے دل سے پوچھئے۔ ‘‘ اوم پرکاش نے کہا۔ اس کی باتوں میں کتنی حقیقت تھی، کتنی ایکٹنگ تھی، بلراج ساہنی کو اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
ایکٹنگ میں بھی مجبوری کا جزو ہوتا ہے۔ عورت ہمارے سماج میں مجبور ہے، اسلئے اپنی خواہشوں کو تہوں میں لپیٹ کر رکھتی ہے۔ وہ اپنی ہار میں بھی جیت کا مزہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ بلراج بھی اگر اس وقت مجبور نہ ہوتے تو بغیر ہچکچاہٹ اس بہادر نوجوان کو پوری عزت کے ساتھ پارٹی میں اندر لے جاتے اور اس سے ہاتھ ملانا ہر کسی کے لئے فخر کی بات ہوتی۔ اس کی بدولت پارٹی کو چار چاند لگ جاتے مگر وہ صرف ایسا سوچ سکتے تھے کیونکہ اپنی سوچ پر عمل نہ کرنے کیلئے وہ مجبور تھے۔ اپنے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے انہوں نے جوان سے اتنا ہی کہا۔ ’’میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔ ‘‘
’’وہ تو ابھی بتائے دیتا ہوں۔ آپ منظور کریں گے؟ میرا گھر یہاں سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ذرا چل کر میری ماں سے مل لیجئے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ ‘‘ اوم پرکاش نے بلا تکلف کہہ دیا۔
بلراج جی اس وقت اپنی رنگین اور پُرشباب پارٹی چھوڑکر دوستوں کے منع کرنے کے باوجود اس جوان کے ساتھ اس کی خوشی کیلئے اس کے گھر روانہ ہو گئے۔
بلراج جی کی زندگی میں اس قسم کے ہزاروں واقعات بھرے پڑے ہیں جن کو قلمبند کرنے کی نہ تو یہاں گنجائش ہے اور نہ ہی ضرورت کیونکہ وہ ہر لحاظ سے ایک نیک دل اور سادہ لوح انسان تھے، اور ایسے ہی کردار انہوں نے فلمی پردے پر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اُجاگر کئے تھے۔
فلموں سے وابستہ ہوکر بھی بلراج ساہنی کی دیش بھگتی اور قوم پرستی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر عوام کے درمیان خدمت خلق کا کام جاری رکھا۔ ان کے ساتھیوں میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کیفی اعظمی اور رشی کیش مکرجی کے نام خاص طور پر لئے جا سکتے ہیں۔ بلراج ساہنی نے اُن دنوں ایسی ہی فلموں میں کام بھی کیا۔ ’’گرم کوٹ، فٹ پاتھ، وقت اورحقیقت‘‘ وغیرہ فلموں کی کہانی مکمل طور پر سچائی سے بھری زندگیوں کی ہی کہانیاں تھیں۔ اسی لئے ان فلموں کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان فلموں کو فلم بینوں کے ہر طبقہ نے سراہا۔ سماجوادی ممالک میں شاید پہلی بار ان کی ہی فلموں نے ہندوستان کی نمائندگی کی اور ان فلموں سے ہندوستان کی عزت افزائی بھی ہوئی۔ حالانکہ ان فلموں میں سے کچھ نے تجارتی نقطہ نگاہ سے کوئی خاص کامیابی نہ بھی حاصل کی ہو مگر بلراج ساہنی نے پھر بھی اپنی آخری سانسوں تک ہار نہیں مانی اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے کہ ایسی فلموں میں کام کریں جن میں دولت کمانے کا مقصد نہ ہوکر انسانیت کی قیمت اور اہمیت کو ترجیح دی گئی ہو۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ اور یاد آیا۔ اُن دِنوں ترلوک جیٹلی’گودان‘ بنانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ انہوں نے ہیرو کے کردار کے لئے بلراج ساہنی سے رابطہ قائم کرنا چاہا۔ اتفاق سے اُس وقت بلراج ساہنی شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اُن کی غیرموجودگی میں سکریٹری نے یہ پیش کش ٹھکرادی۔ ہار کر جیٹلی نے کسی دوسرے اداکار کو اس کردار کے لئے سائن کر لیا۔
بلراج جی جب واپس آئے تو انہیں اس بات کا علم ہوا۔ ان کو بہت افسوس ہوا۔ دراصل بلراج ساہنی کو پریم چند کے ناول ’گودان‘ کا یہ کردار’ہوری‘ بہت پسند تھا۔ اس کردار کے ساتھ بلراج جی نے ہندوستان کے غریب عوام اور ان کی تڑپ کو دل سے محسوس کیا تھا۔
بلراج ساہنی اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ ہمیشہ غریبوں اور ضرورتمندوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بلراج جی کے فلمی کرداروں میں بھی ورایٹی ملتی ہے۔ ’دو بیگھہ زمین‘ میں رکشا چلانے والے کا کردار، ’تلاش‘ میں ایک کروڑپتی تجارتی آدمی کا کردار اور’سنگھرش‘ میں گنپتی پرساد کا کردار، جس کی آنکھوں میں ہر وقت نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہتی ہے، ’کابلی والا‘ کا بھولا بھالا پٹھان جس کی نگاہیں محبت اور خلوص وہمدردی سے ہمیشہ بوجھل رہتی ہیں۔ ’گرم ہوا‘ میں جوتے بنانے والے ایک مسلم کاریگر کا کردار کون بھلا سکتا ہے۔ ’حقیقت‘ میں میجر کا کردار اور اسی طرح کے بہت سے مختلف کردار جن کو بلراج ساہنی نے زندگی بخشی۔ وہ اپنے آپ کو کردار میں اس حد تک شامل کر لیا کرتے تھے کہ بلراج ساہنی کا پردے پر کہیں نام ونشان تک نہیں ملتا تھا۔ وہاں پر اور صرف وہ کردار ہی رہ جاتا تھا۔
۱۳؍اپریل ۱۹۷۳ء کو صرف ۶۰؍ سال کی عمر میں بلراج ساہنی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ اِس سے کچھ عرصہ قبل ہی اُن کی بیٹی شبنم کا انتقال کم عمری میں ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت دل برداشتہ اور رنجیدہ تھے۔
اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلراج ساہنی اداکاری کی دُنیا میں ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جس کا پُر ہونا ممکن نہیں ہے۔