ہندی سنیما میں بپی لہری ان چنندہ موسیقاروں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نےفلمی موسیقی میں مغربی موسیقی کو ملاکر باقاعدہ ’ڈسکو تھیك‘ کی ایک نئی طرز بنائی۔
EPAPER
Updated: November 27, 2024, 12:13 PM IST | Agency | Mumbai
ہندی سنیما میں بپی لہری ان چنندہ موسیقاروں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نےفلمی موسیقی میں مغربی موسیقی کو ملاکر باقاعدہ ’ڈسکو تھیك‘ کی ایک نئی طرز بنائی۔
ہندی سنیما میں بپی لہری ان چنندہ موسیقاروں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نےفلمی موسیقی میں مغربی موسیقی کو ملاکر باقاعدہ ’ڈسکو تھیك‘ کی ایک نئی طرز بنائی۔ اپنے اس نئے تجربے کی وجہ سے بپی کو اپنے ابتدائی کریئر میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بعد میں ان کی موسیقی کو سامعین نے سراہا اور وہ فلم انڈسٹری میں ’ڈسکو کنگ‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ مغربی بنگال کےشہرکولکاتامیں ۲۷؍ نومبر ۱۹۵۲ء کو پیدا ہونے والے بپی لہری کا حقیقی نام آلوکیش لہری ہے۔ ان کے والد اپریش لہری بنگالی گلوکار تھے جبکہ والدہ ونسری لہری موسیقار اور گلوکارہ تھیں۔ گھر میں موسیقی کا ماحول ہونے کی وجہ سے ان کا رجحان بھی موسیقی کی جانب بڑھنے لگا اور وہ موسیقی کی دنیا میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے کا خواب دیکھنےلگے۔ بپی لہری نے بطور موسیقار اپنےکریئر کی شروعات ۱۹۷۲ء میں ریلیز ہونے والی بنگلہ فلم ’دادو‘ سے کی لیکن فلم باکس آفس پر ناکام رہی اور انہوں نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے ممبئی کا رخ کیا۔ ۱۹۷۳ء میں جلوہ گر فلم ’ننھا شکاری‘ بطور موسیقار ان کے کریئر کی پہلی ہندی فلم تھی لیکن بدقسمتی سے یہ فلم بھی ناکام رہی۔ بپی کی قسمت کا ستارہ ۱۹۷۵ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’زخمی‘ سے چمکا۔ سنیل دت، آشا پاریکھ، رینا رائے اور راکیش روشن کی اداکاری والی اس فلم میں ’آؤ تمہیں چاند پہ لے جائیں ‘ اور ’جلتا ہے جیا میرا بھیگی بھیگی راتوں میں ‘ جیسے گانے مقبول ہوئے۔
۱۹۷۶ء میں کی ان کی موسیقی میں ایک اور سپر ہٹ فلم ’چلتے چلتے‘ ریلیز ہوئی۔ فلم میں کشور کمار کی آواز میں یہ گیت’چلتے چلتے میرے یہ گیت یاد رکھنا‘ آج بھی شائقین کے دلوں میں اپنی خاص شناخت بنائے ہوئےہے۔ ان دونوں فلموں کی کامیابی کے بعد وہ بطور موسیقار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ۱۹۸۲ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’نمک حلال‘ بپی کے کریئر کی اہم فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ پرکاش مہرہ کی ہدایتکاری میں بنائی گئی اس فلم میں امیتابھ بچن نےمرکزی کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں کشور کمار کی آواز میں ’پگ گھنگھرو باندھ میرا ناچی تھی‘ ان دنوں سامعین میں ’کریز‘سا بن گیا تھا اور آج بھی جب کبھی یہ گیت سنائی دیتا ہے تو لوگ تھرکنے پر مجبور ہوجاتےہیں۔ ۱۹۸۳ء میں آئی فلم ’ڈسکو ڈانسر‘ بپی کے کیلئے سنگ میل ثابت ہوئی۔ بی سبھاش کی ہدایتکاری میں بننے والی اس فلم میں ان کی موسیقی کا ایک نیا انداز دیکھنے کو ملا۔ اداکار متھن چکرورتی پر فلمایا گیا گیت ’آئی ایم اے ڈسکو ڈانسر‘ اور ’جمی جمی جمی آجا آجاآجا‘ جیسے گیتوں نےسامعین کو رقص کرنے پر مجبور کردیا۔ فلم میں اپنی موسیقی کی کامیابی کے بعد بپی بطور ’ڈسکو کنگ‘ مشہور ہوگئے۔ ۱۹۸۴ء میں بپی کےکریئر کی ایک اور سپر ہٹ فلم ’شرابی‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہیں ایک مرتبہ پھر ہدایتکار پرکاش مہرہ اور امیتابھ بچن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم میں انہوں نے اپنی موسیقی سے سجے سپرہٹ گیتوں ’دے دے پیار دے‘، ’منزلیں اپنی جگہ ہیں ‘اور ’مجھے نو لکھا منگا دے رے‘ کے ذریعہ سامعین کو دیوانہ بنادیا اور اپنے کریئر میں پہلی مرتبہ بہترین موسیقار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازے گئے۔
۹۰ء کے عشرے میں بپی کی فلموں کو متوقع کامیابی نہیں مل سکی حالانکہ انہوں نے ۱۹۹۳ء میں ’آنکھیں ‘ اور ’دلال‘ کے ذریعہ فلم انڈسٹری میں کم بیک کیا، لیکن اس کے بعد ان کی فلموں کو زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ انہوں نے متعدد فلموں میں اپنی گلوکاری سے بھی ناظرین کومحظوظ کیا ہے۔ ۴؍عشروں سے زیادہ پر مبنی کریئر میں کئی عمدہ گیت دینے والے بپی لہری ۱۵؍فروری ۲۰۲۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔