اس کے بعدانہوں نے ریڈیو سیلون کے ایک پروگرام ’لپٹن کے مہمان‘ کیلئے فلمی اداکاروں ، فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے انٹرویو کرنے شروع کر دیئے۔ اس پروگرام کیلئے اُنہیں بہت معمولی تنخواہ ملتی تھی لیکن یہی ان کے فلموں میں داخلے کا ذریعہ بنا، یہیں پر نرگس سے بھی ملاقات ہو ئی۔
سنیل دت، سنجے دت اور پریہ دت (گود میں)۔ تصویر: آئی این این۔
وقت انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دے، کسی کو کچھ معلوم نہیں رہتا۔ وقت جب مہربان ہوتا ہے تو وہ آدمی کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر بٹھا دیتا ہے اور دنیا کی ہر دولت، عزت، شہرت اور چاہت اس کے قدموں میں بچھا دیتا ہے اور وقت جب خراب ہوتا ہے تو اس سے دنیا کی ہر خوشی چھین لیتا ہے۔ وقت کا یہ پہیہ آگے پیچھے گھومتا رہتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ کسی کا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ وقت اور حالات کے جو لوگ زیادہ شکار ہوئے، ان میں ایک اہم نام سنیل دت کابھی ہے۔
ملک کی آزادی اپنے دامن میں اس وسیع و عریض ملک کی تقسیم بھی لے کر آئی۔ اس کی وجہ سے ۱۸؍ برس کے ایک نوجوان بلراج دت کو پنجاب کے اپنے گائوں خرد سے بے دخل ہوکر ہندوستان (پہلے پنجاب اور اب ہریانہ ) کے جمنانگر کے گائوں منڈولی میں آنا پڑا۔ بلراج دت ۶؍ جون ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے ضلع جہلم (اب پاکستان میں ) کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام دیوان رگھوناتھ دت تھا اور وہ آرمی میں ملازم تھے۔ بلراج بچپن ہی سے بہت شرارتی تھے اور ’چھوٹے دیوان‘ کہلاتے تھے۔ اُن دنوں ایک ملازم کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جایا کرتے تھے۔ اپنی ماں شریمتی کلونت دیوی کو وہ پیار سے ونتو کہتے تھے۔ بچپن میں بلراج کو غصہ بہت آتا تھا۔ ایک بار وہ اپنی ماں پر اتنا غصہ ہوئے کہ گھر کا دروازہ بند کرکے باہر سے تالا لگاکر چلے گئے۔ گائوں والے اُنہیں پورے گائوں میں ڈھونڈتے پھرے اور آخرمیں وہ اپنے ہی مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر سوتے ہوئےملے۔
ابھی وہ ۶؍برس کے ہی تھے کہ ان کے سر سے ان کے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ ملک کی تقسیم کے نتیجے میں اُس خاندان کا سب کچھ ختم ہو گیا اور یہ سب مہاجر بن کر ہندوستان آ گئے جہاں اِن کو حکومت کی طرف سے کچھ زمین دی گئی۔ چھوٹے بھائی سوم دت، ماں اور ایک چھوٹی بہن رانی کی ذمہ داری اب پوری طرح بلراج دت کے کاندھوں پر تھی لہٰذا وہ ماں سے یہ وعدہ کرکے کہ وہ بی اے تک کی تعلیم ضرور حاصل کریں گے، روزگار کی تلاش میں بمبئی چلے آئے اور ریگل سنیما کے پیچھے ایک نائی کی دُکان میں رات کو سونے کا انتظام کر لیا۔ یہاں پر نائی مفت میں ان کا شیو بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی بال بھی کاٹ دیا کرتا تھا۔
بمبئی آکر بلراج دت نے بڑی جدوجہد کی اور کسی طرح ’بیسٹ‘ کے ایک ورک شاپ میں ریکارڈسٹ کی ملازمت سو روپے ماہانہ پر حاصل کر لی۔ بمبئی میں ایک رفیوجی کالج قائم کیا گیا تھا۔ اس میں مارننگ کلاسیز ہوا کرتی تھیں۔ بلراج دت صبح ساڑھے ۷؍ بجے کالج جاتے اور پھر دوپہر کو ڈھائی بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک قلابہ کے ڈپو میں بمبئی کی بسوں کا حساب کتاب لکھتے تھے۔ کچھ دنوں بعد بلراج دت نے ریڈیو سیلون کے ایک پروگرام ’لپٹن کے مہمان‘ کیلئے فلمی اداکاروں اور فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے انٹرویو کرنے شروع کر دیئے۔ اس پروگرام کیلئے اُنہیں بہت معمولی سی تنخواہ ملتی تھی، جس میں وہ بڑی تنگدستی کے ساتھ گزارہ کرتے تھے۔ دن بھر کام کے سلسلے میں ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کے چکر لگاتے اور رات کو کافی دیر تک اپنی پڑھائی بھی کرتے تھے۔ ماں سے کیا ہوا بی اے کرنے کا وعدہ انہیں ہمیشہ یاد رہا۔ ریڈیو سیلون میں ملازمت ملنے پر بلراج نے کُرلا میں ایک چھوٹے سے روم میں ۳۰؍روپے ماہوار پر شیئر کر لیا۔ اُس وقت ان کے پاس پہننے کیلئےصرف دو جوڑی کپڑے تھے۔ اُن دنوں انہیں ہمیشہ سفید شرٹ اور سفید پائجامہ میں دیکھا جا سکتا تھا۔ روزانہ رات میں ایک جوڑی کپڑے دھو کر وہ سوکھنے کیلئے چھوڑ دیتے تھے اور دوسری جوڑی پہن کر اسٹوڈیوز کی طرف نکل پڑتے تھے۔
ایک بار وہ سفید کپڑے پہن کر ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کیلئے جارہے تھے تو راستے میں چند شریر لڑکیوں نے اُنہیں گھیر لیا، جو ہولی کھیل رہی تھیں اور پانی اور رنگ سے آنے جانے والوں کے کپڑے بھگو رہی تھیں۔ بلراج دت یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ اُنہوں نے ان لڑکیوں سے منت سماجت کی کہ اُس کے کپڑوں پر کوئی رنگ نہ ڈالے، کیونکہ اس کے پاس بدلنے کیلئے کوئی دوسرا جوڑا نہیں ہے مگر لڑکیوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور ان کے کپڑوں کو پوری طرح سے رنگ دیا۔ بعد میں یہ باتیں خود بلراج دت نے بتائیں جب وہ سنیل دت سے معروف ہوچکے تھے۔
جن دنوں وہ ریڈیو سیلون میں تھے، انہیں کافی مقبولیت ملی تھی۔ اُس وقت ان کے پیش کئے گئے پروگرام بہت مقبول ہوئے۔ انہی دنوں اداکارہ نرگس کا انٹرویو کرنے کا خیال انہیں آیا۔ مشہور و معروف مغنیہ جدّن بائی کی بیٹی نرگس اس وقت ایک مصروف اور مقبول اداکارہ تھیں، لہٰذا وہ بار بار نرگس سے انٹرویو کا وقت لیتے رہے اور ہر بار نرگس وقت پر غائب رہتیں۔ تنگ آکر بلراج دت نے نرگس سے انٹرویو کرنے کا ارادہ ترک کر دیا مگر دل کے کسی کونے میں نرگس سے انٹرویو کرنے کی ان کی یہ خواہش جڑ پکڑ چکی تھی لہٰذا ایک بار اور کوشش کی اور اس آٹھویں کوشش میں انٹرویو کیلئے انہیں وقت مل گیا۔ نرگس نے کمرے میں آتے ہی بڑے تیز لہجے میں کہا ’’دیکھئے، میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے۔ ۱۰؍ منٹ سے زیادہ میں وقت نہیں دے سکتی۔ آپ کو جو پوچھنا ہے فٹافٹ پوچھئے، مجھے اسٹوڈیو جانا ہے۔ ‘‘
نرگس کی بات چیت کا یہ انداز دیکھ کر بلراج دت ہکا بکا رہ گئے تھے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اس مغرور عورت سے بات کہاں سے شروع کی جائے، تبھی ان کے کانوں میں وہی تیز طرّار آواز دوبارہ گونجی.... ’’اے مسٹر، آپ کس سوچ میں ہیں ؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کچھ پوچھنا ہی نہیں ہے۔ او کے.... میں چلتی ہوں۔ ‘‘ مگر بلراج دت نے انہیں روک ہی لیا اور پھر۱۰؍ منٹ کے بجائے یہ انٹرویو ۱۵؍ منٹ تک چلا۔ یہ تھی بلراج دت عرف سنیل دت کی نرگس سے پہلی ملاقات۔ پھر وقت نے ذرا سی کروٹ بدلی اور بلراج دت کو فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ملی۔ یہ شاید ان کی آواز ہی کا کرشمہ تھا جو اُن کو فلموں کی طرف لا رہا تھا۔
دلیپ کمار اور نلنی جیونت کی فلم ’شکست‘ کی شوٹنگ کسی اسٹوڈیو میں تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار رمیش سہگل تھے۔ بلراج دت، دلیپ کمار کا انٹرویو کرنے کیلئے سیٹ پر ہی پہنچ گئے۔ انٹرویو کے بعد دلیپ کمار نے بلراج دت سے کہا کہ تمہاری آواز اور شخصیت بہت اچھی ہے، تم خود کیوں ایکٹر نہیں بن جاتے؟ رمیش سہگل نے دلیپ کمار کی پینٹ شرٹ پہنواکر بلراج کا اسکرین ٹسٹ لیا اور تین سو روپے کا پہلا سائننگ امائونٹ دے کر اپنی اگلی فلم کے لئے سائن کر لیا۔ اس وقت بلراج دت بی اے کے تیسرے سال میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں ماں سے کیا ہوا وعدہ پہلے پورا کروں گا، اس کے بعد آپ کی فلم میں کام کروں گا۔ رمیش سہگل مان گئے اور اس طرح انہوں نے تقریباً ایک سال انتظار کیا اور پھر۱۹۵۴ء میں فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ سے بلراج دت نے سنیل دت کے نام سے فلموں میں اداکاری کی شروعات کی۔ یہ فلم ایک سال میں بن کر ۱۹۵۵ء میں ریلیز ہوئی مگر اس فلم کو زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ سنیل دت پھر بھی مایوس نہ ہوئے۔ اُسی سال ان کو تین فلمیں اور ملیں جن میں سے ایک بی آر چوپڑہ کی ’ایک ہی راستہ‘ تھی۔ بی آر چوپڑہ اس وقت تک ایک کامیاب فلمساز و ہدایتکار کے طور پر اپنے آپ کو قائم کر چکے تھے اور ان کی فلم میں کام کرنا سنیل دت کیلئے بہت بڑی بات تھی۔ اس فلم کو کامیابی بھی ملی۔ فلم ’ایک ہی راستہ‘ کے بعد سنیل دت بی آر چوپڑہ کے مستقل اداکار بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے چوپڑہ کی ’گمراہ، سادھنا، وقت اورہمراز‘ جیسی کامیاب فلموں میں کام کرکے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کو منوایا۔
مشہور فلمساز ہدایتکار محبوب خان نےاپنی کامیاب فلم ’عورت‘ کو دوبارہ ’مدر انڈیا‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا اور ’برجو‘ کے کردار کیلئے سنیل دت کا نام لیا تو ان کی یونٹ کے سبھی لوگ چونک پڑے تھے۔ اس کے باوجود محبوب صاحب اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ سنیل دت نے اپنی آواز اور اداکاری سے برجو کے سخت ترین اینگری مین کے کردار میں جان ڈال دی تھی۔
مضمون کی دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں