موسیقی کی دنیا میں پنکج ادھاس ایک ایسے غزل گلوکارتھےجو اپنی گائیکی سے گزشتہ ۴؍دہائیوں سے اپنے مداحوں کو مسحور کرتے رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 18, 2024, 9:23 AM IST | Agency | Mumbai
موسیقی کی دنیا میں پنکج ادھاس ایک ایسے غزل گلوکارتھےجو اپنی گائیکی سے گزشتہ ۴؍دہائیوں سے اپنے مداحوں کو مسحور کرتے رہے ہیں۔
موسیقی کی دنیا میں پنکج ادھاس ایک ایسے غزل گلوکارتھےجو اپنی گائیکی سے گزشتہ ۴؍دہائیوں سے اپنے مداحوں کو مسحور کرتے رہے ہیں۔ پنکج کی پیدائش ۱۷؍مئی۱۹۵۱ءکوگجرات کے راجکوٹ کے قریب جیت پور میں ایک زمیندار گجراتی خاندان میں ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی منهر ادھاس معروف گلوکارتھے۔ گھر میں موسیقی کا ماحول تھا لہٰذا پنكج کی دلچسپی بھی موسیقی کی جانب ہو گئی۔
محض۷؍برس کی عمر سے ہی پنکج گانا گانے لگے۔ ان کے اس شوق کو ان کے بڑے بھائی منهر نےپہچان لیا اور اس راہ پر چلنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ منهراکثر موسیقی سے منسلک پروگرام میں حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے پنکج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ ایک بار پنكج کو ایک پروگرام میں حصہ لینے کاموقع ملا جہاں انہوں نے ’’اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی‘‘ گیت گایا۔ اس گیت کو سن کر سامعین بہت متاثر ہوئے۔ ان میں سے ایک نےپنکج کو خوش ہوکر۵۱؍روپےبھی دیئے۔ اسی دوران پنکج راجکوٹ کی موسیقی تھیٹراکیڈمی سے وابستہ گئے اور طبلہ نوازی سیکھنے لگے۔
کچھ سال کے بعد پنکج کا خاندان بہتر زندگی کی تلاش میں ممبئی آ گیا۔ پنکج نے گریجویشن ممبئی کے مشہور سینٹ زیوئیر کالج سے کیا۔ اس کے بعد ان کی دلچسپی موسیقی کی جانب مبذول ہو گئی اور انہوں نے استاد نورنگ جی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی۔ پنکج کےفلمی کریئرکا آغاز ۱۹۷۲ءکی فلم ’کامنا‘ سے ہوا لیکن کمزور اسکرپٹ اور ہدایت کاری کی وجہ سےفلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ’غزل گلوکار‘ بننے کے مقصد سے پنکج نے اردو کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی۔
۱۹۸۶ءمیں آئی فلم ’نام‘ پنکج کے فلمی کریئرکی اہم فلموں میں سےایک ہے۔ يوں تو اس فلم کے تقریباً تمام نغمے سپر ہٹ ثابت ہوئے لیکن پنکج ادھاس کی مخملی آواز میں ’چٹھی آئی ہے وطن سے چھٹی آئی ہے‘ گیت آج بھی سننے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد پنکج کو کئی فلموں میں گانےکاموقع ملا۔ ان فلموں میں گنگا جمنا سرسوتی، بہارآنےتک، تھانیدار، ساجن، دل آشنا ہے، پھر تیری کہانی یاد آئی، یہ دل لگی، مہرا، میں کھلاڑی تو اناڑی، مجدھار، گھات اور یہ ہے جلوہ اہم ہیں۔
پنکج کے گائے نغموں اور غزلوں کی حساسیت ان کی ذاتی زندگی میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ وہ ایک سادہ دل اور نرم طبیعت کے انسان تھےجو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بار ممبئی کے ناناوتی اسپتال سے ایک ڈاکٹر نےپنکج کو فون کیا کہ ایک شخص کے گلے کے کینسر کا آپریشن ہوا ہے اور اس کی آپ سے ملنے کی تمنا ہے۔ اس بات کو سن کر پنکج فوری طور پر اس شخص سے ملنے اسپتال گئےاور نہ صرف اس کو گانا گا کر سنایا بلکہ اپنے گائےگانوں کا کیسٹ بھی دیا۔ بعد میں پنکج کو جب اس بات کاپتہ چلا کہ اس کے گلے کا آپریشن ہوگیا اوروہ اس بیماری سے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہا ہے تو پنکج بہت خوش ہوئے۔ پنکج کو اپنے کریئر میں کافی عزت و احترام حاصل ہوا۔ انہیں بہترین غزل گلوکار، كے ایل سهگل ایوارڈ، ریڈیو لوٹس ایوارڈ، اندرا گاندھی پریادرشنی ایوارڈ، دادا بھائی نوروجی ملینیم ایوارڈ اور آرٹسٹ ایوارڈ حاصل ہوئے۔ ساتھ ہی گائیکی کے میدان میں ان کی قابل ذکر خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ۲۰۰۶ء میں پدم شري ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اسی سال یعنی ۲۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو وہ اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔