• Thu, 16 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

مدھو بالا کی کریئر میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اُن کے والدعطاء اللہ خان تھے

Updated: April 26, 2020, 6:40 AM IST | Agency | Mumbai

بی آر چوپڑہ نے فلم ’نیادَور‘کیلئے دلیپ کمار کے ساتھ مدھوبالا کو سائن کیا مگر مدھوبالا کے والد عطاء اللہ خان نے کہا کہ وہ بمبئی سے باہر مدھوبالا کو شوٹنگ کیلئے نہیں جانے دیںگے۔ بعد میں مدھوبالا کی جگہ وجینتی مالا کو سائن کر لیا گیا۔ بمبئی سے باہر آئوٹ ڈور شوٹنگ پر نہ جانے کی شرط مدھوبالا کو دلیپ کمار سے دُور رکھنے کا صرف ایک بہانہ تھا، ورنہ اُسی دور میں مدھوبالا نے فلم انسان جاگ اُٹھا،ہاوڑا برج اورراج ہٹ جیسی فلموں کیلئے باہر آئوٹ ڈور میں شوٹنگ کی تھی

Madhubala - Pic : INN
مدھو بالا ۔ تصویر : آئی این این

فلم ’محل‘ کی بے پناہ کامیابی کے بعد ملی شہرت سے مدھوبالا کی قدرومنزلت کافی بڑھ گئی تھی۔ رنجیت مووی ٹون کے مالک چندولال شاہ نے جس لڑکی ممتاز کی وجہ سے کیدار شرما سے ساجھے داری ختم کی تھی، انہوںنے مدھوبالا کو بُلایا اور دیوآنند کے ساتھ اپنی فلم ’مدھوبالا‘ میں ہیروئن بنایا۔ یہ فلم ۱۹۵۰ء میں ریلیز ہوئی۔ اس سال مدھوبالا کی کئی فلمیں، جیسےبے قصور، ہنستے آنسو، نرالا، نشانہ اورپردیس بھی نمائش کیلئے پیش ہوئیں۔ اگلے ہی برس ۱۹۵۱ء میں مدھوبالا کی دلیپ کمار کے ساتھ پہلی فلم ’ترانہ‘ ریلیز ہوئی۔ حالانکہ دلیپ کمار کی پہلی فلم ’جواربھاٹا‘ میں مدھوبالا چائلڈ آرٹسٹ بے بی ممتاز کے نام سے ایک کردار ادا کر چکی تھی، مگر اب وہ فلم’ترانہ‘ میں دلیپ کمار کی ہیروئن تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی مدھوبالا کا رجحان دلیپ کمار کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔  اسی سال مدھوبالا کی ایک دوسری فلم ’بادل‘ بھی پیش کی گئی جس میں اس کے ہیرو پریم ناتھ تھے۔ پریم ناتھ کا کہنا تھا کہ مدھوبالا ان سے پیار کرتی تھی مگر بیچ میں دلیپ کمار کے آنے سے انہوںنے دلیپ کمار سے اپنی دوستی کی خاطر ا پنی محبت کو قربان کر دیا مگر سچائی یہ ہے کہ انہوںنے بینا رائے سے محبت کی اور بعد میں اُسی سے شادی بھی کی۔اسی سال یعنی ۱۹۵۱ء میں فلم ’ترانہ‘ کے علاوہ مدھوبالا کی کئی فلمیں، جیسےآرام، خزانہ، نازنین، نادان، بادل اورسیّاں بھی نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب وہ ایک مقبول اور باصلاحیت اداکارہ کے طور پر اپنے آپ کو ثابت کر چکی تھیں۔
 فلم ’ترانہ‘ سے قبل ۱۹۵۰ء ہی میں فلمساز ہدایتکار مہیش کول نے دلیپ کمار اور مدھوبالا کو لے کر ایک فلم ’ہار سنگھار‘ شروع کی تھی مگر وہ فلم نامکمل ہی رہ گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دلیپ کمار اور مدھوبالا اس فلم کی شوٹنگ کے دوران نزدیک آگئے تھے اور پھر فلم ’ترانہ‘کی تکمیل کے دوران  دونوں  میں قربت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ایسے میں پریم ناتھ کا یہ دعویٰ کہ مدھوبالا فلم ’بادل‘ کی تکمیل کے دوران ان سے محبت کرنے لگی تھیں، قرین قیاس نہیں ہے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پریم ناتھ کو اپنا ایک اچھا دوست سمجھتی ہو، اور چونکہ پریم ناتھ نے دلیپ کمار سے بھی نزدیکی دوستی کر لی تھی، اسلئے بھی مدھوبالا پریم ناتھ کو زیادہ قریبی دوست سمجھتی ہوگی۔ بہرحال دلیپ کمار اور مدھوبالا کے عشق کی داستان فلمی اسٹوڈیوز کی دیواروں کو لانگھ کر اخبارات و رسائل کے صفحات پر اُتر آئی۔ اِن دونوں عظیم اداکاروں نے فلم ’ترانہ‘ کے بعد ۱۹۵۲ء میں فلم ’سنگدل‘، ۱۹۵۴ء میں فلم ’امر‘ اور ۱۹۶۰ء میں فلم ’مغل اعظم‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔ اس درمیان فلمساز ہدایتکار بی آر چوپڑہ نے فلم ’نیادَور‘کیلئے دلیپ کمار کے ساتھ مدھوبالا کو سائن کیا مگر بعد میں مدھوبالا کے والد کو یہ اعتراض ہوا کہ وہ بمبئی سے باہر مدھوبالا کو شوٹنگ کیلئے نہیں جانے دیںگے۔ چوپڑہ صاحب نے مدھوبالا کی جگہ وجینتی مالا کو سائن کر لیا۔ بمبئی سے باہر آئوٹ ڈور شوٹنگ پر نہ جانے کی شرط مدھوبالا کو دلیپ کمار سے دُور رکھنے کا صرف ایک بہانہ تھا، ورنہ لگ بھگ اُسی زمانے میں مدھوبالا نے فلم انسان جاگ اُٹھا،ہاوڑا برج اورراج ہٹ جیسی فلموں کیلئے بمبئی سے باہر آئوٹ ڈور میں شوٹنگ کی تھی۔
 حالانکہ اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے عطااللہ خان نے گرودت کی فلم ’پیاسا‘ میں بھی مدھوبالا کو کام نہیں کرنے دیا۔ بعد میں مالاسنہا نے وہ کردار ادا کیا۔ گرودت چاہتے تھے کہ دلیپ کمار اس فلم میں ہیرو کارول کریں مگردلیپ کمار نے بھی یہ سوچ کر وہ رول ٹھکرا دیاکیونکہ ہیروئن کے رول کیلئے پہلے مدھوبالا سے بات چل رہی تھی۔ پریس میں یہ خبر آئی کہ دلیپ کمار کا مدھوبالا سے جھگڑا ہو گیا ہے اور انہوں نے مدھوبالا کو فلم’نیادور‘ سے نکلواکر یہ کردار وجینتی مالا کو دلوا دیا تھا۔ حالانکہ سچائی یہ تھی کہ مدھوبالا کے والد عطااللہ خان کو  یہ منظور نہیں تھا کہ ان کی سونے کی چڑیا جیسی اسٹار بیٹی ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کی کمائی پر گزر بسر کرنے کے مواقع ان کیلئے ختم ہو جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوںنے مدھوبالا کی طرف سے فلم کے فلمساز وہدایتکار بی آر چوپڑہ کو نوٹس دے دیا اور بات عدالت تک پہنچ گئی۔ گواہی کیلئے دلیپ کمارکو بھی بلایا گیا۔ مدھوبالا ہندوستانی فلم انڈسٹری کی  واحد اداکارہ تھی جس کے بارے میں دلیپ کمار جیسے بڑے اسٹار اداکار نے بھری عدالت میں قبول کیا کہ ’’ہاں!  میں مدھوبالا سے پیار کرتا ہوں۔‘‘ انجام کار مدھوبالا ہی کو ’نیادور‘ سے الگ ہونا پڑا کیونکہ بی آر چوپڑہ خود بھی دلیپ کمار کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے۔ اس فیصلے کے بعد مدھوبالا، چوپڑہ صاحب کے سامنے دیر تک روتی رہی۔ اس نے یہ قربانی اپنے باپ کی ضد اور اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کی خاطر دی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے بغیریہ پوری فیملی پھر سے فٹ پاتھ پر آجائے گی۔
 یہی وہ زمانہ تھا جب کے آصف کی تاریخ ساز فلم’مغل اعظم‘ بھی زیر تکمیل تھی۔ اس فلم میںدلیپ کمار اور مدھوبالا، دونوں مرکزی کردار میں تھے۔ شوٹنگ کے وقت مدھوبالا کے والد عطااللہ خان سخت نگرانی رکھتے تھے اور دلیپ کمار سے مدھوبالا کی صرف وہی بات چیت ہوتی تھی جو فلم کے اسکرپٹ کا حصہ تھی۔ اس کے باوجود ان دونوں فنکاروں نے اپنے اپنے کردار بے حد خوبصورتی اور ایمانداری سے ادا کئے۔ فلم ’مغل اعظم‘ کی تکمیل کے دوران ہی مدھوبالا کافی بیمار رہنے لگی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور بڑی محنت کرکے اس فلم کومکمل کرایا۔ مدھوبالا کے دل میں بچپن ہی سے ایک سوراخ تھا۔ ادھر عشق میں ناکامی کے بعداس کے دِل کا عارضہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ۱۹۶۰ء میں ۵؍اگست کو جب فلم’مغل اعظم‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی تو مدھوبالا اپنی بیماری اور دلیپ کمار اپنے ٹوٹے ہوئے دل کی وجہ سے فلم کے پریمیر پر نہیںجا سکے۔ ۱۶؍ برس بعد جب پونا کے فلم انسٹی ٹیوٹ میں ’مغل اعظم‘ کا اعزازی شو کیا گیا، تب دلیپ کمار نے پہلی بار یہ فلم دیکھی اور مدھوبالا کے سلسلے کے ان کے سارے زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔
 فلم’مغل اعظم‘ کی تکمیل کے سلسلے میں انتھک محنت نے مدھوبالا کو اندرسے کھوکھلا کر دیا تھا۔ مستقل بیماری اور فرسٹریشن کی شکار مدھوبالا نے خود کو سزا دینے کے طور پر کشور کمار سے شادی کر لی۔ کشور کمار کی یہ دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی شادی اُسی روما دیوی سے ہوئی تھی جس نے بچپن میں فلم ’جوار بھاٹا‘ میں بے بی ممتاز کے ساتھ چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ دراصل مدھوبالا کی یہ خواہش تھی کہ وہ ایک سہاگن کے طور پر مرے، لہٰذا ۱۶؍نومبر ۱۹۶۰ء کو کشور کمار نے عبداللہ نام  اختیار کیا اور مدھو بالا سے نکاح کر لیا۔
 اس سے قبل مدھوبالا نے کشور کمار کے ساتھ ۱۹۵۶ء میں فلم ’ڈھاکے کی ململ‘، ۱۹۵۸ء میں ’چلتی کا نام گاڑی‘ اور ۱۹۶۰ء میں فلم ’محلوں کے خواب‘ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ کشور کمار سے شادی کے بعد مدھوبالا نے ۱۹۶۱ء میں فلم ’بوائے فرینڈ،جھمرو،پاسپورٹ اور ۱۹۶۲ء میں فلم ہاف ٹکٹ، ۱۹۶۴ء میں فلم شرابی اور ۱۹۷۰ء میں اپنی آخری فلم جوالا میںسنیل دت کے ساتھ کام کیا۔ کشور کمار نے مدھوبالا کو خوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کی مگر اس کی حالت دن بہ دن بگڑتی ہی رہی۔ مدھوبالا کے دل کی بیماری کا پتہ  ۱۹۵۰ء میں اُس وقت لگا تھا جب دل کی جراحی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلم ’مغل اعظم‘ پر کام شروع ہو چکا تھا مگر مدھوبالا نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنے ہونٹوں پر ایک تیکھی مسکراہٹ سجاکر اپنے دل کی بیماری کو فلمی دُنیا سے آٹھ دس برس تک چھپائے رکھا اور اپنے خاندان کی کفالت کیلئے لگاتار فلموں میںکام کرتی رہی۔
 کشور کمار علاج کیلئے مدھوبالا کو لندن بھی لے گئے مگر وہاں ڈاکٹروں نے اس کے دل کی سرجری کرنے سے اسلئے منع کر دیا کیونکہ ان کو یہ خطرہ تھا کہ مدھوبالا آپریشن کے درمیان ہی مر سکتی ہے۔ دھیرے دھیرے تقریباً تمام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ اسے برابر خون کی اُلٹیاں ہوتی رہیں اور آخرکار ۲۳؍فروری ۱۹۶۹ء کو وہ گھڑی آن پہنچی جب مدھوبالا نے نہایت بے بسی کے عالم میں کشور کمار سے کہا کہ میں مرنا نہیںچاہتی،مجھے بچالو۔ یہ اُس کے آخری الفاظ تھے اور پھر چند لمحوں بعد ہی ’مغل اعظم‘ کی انارکلی کو زندہ کرنے والی مدھوبالا نے اپنے خالقِ حقیقی کو لبیک کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند لیں۔
 مدھوبالا کے انتقال کی خبر دلیپ کمار کو مدراس میں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ملی اور انہوں نے محسوس کیا جیسے ان کی روح ان کے جسم سےعلاحدہ کر دی گئی ہو۔ وہ بذریعہ ہوائی جہاز بمبئی آئے اور ایئر پورٹ سے سیدھے قبرستان پہنچے مگر قسمت میں محبوب کے آخری دیدار بھی نہ تھے۔ دلیپ کمار کے قبرستان پہنچنے سے پہلے ہی سلیم کی انارکلی کو منوں مٹی کے نیچے دباکر لوگ جا چکے تھے اور ایسے وقت میں تنہا دلیپ کمار کے آس پاس کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اُس کے کاندھے پر صرف ہاتھ ہی رکھ دیتا۔
 مدھوبالا سے پہلے ہندوستانی پردۂ فلم پر سب سے پہلے روبی میئرس (سلوچنا) انارکلی کے روپ میں آئیں۔ ’مغل اعظم‘ کی انارکلی کے آنے تک سلوچنا والی انارکلی کی تصویر کافی دھندلی پڑ چکی تھی۔ اس لئے ان دونوں میں سیدھا مقابلہ کرنے والی کوئی بات نہیں رہی تھی مگر سلوچنا کے بعد کی فلمستان میں بنی بینا رائے والی انارکلی کے ساتھ مدھوبالا والی انارکلی کے مقابلے کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ فلم ’مغل اعظم‘ کی انار کلی نے ہمیں بینا رائے کی انارکلی کو بھلانے پر مجبور کر دیا۔ انارکلی بن کر مدھوبالا لوگوں کے ذہنوں پر چھا گئی اور یہی مدھوبالا اور اس کی انارکلی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ مدھوبالا کے انتقال کے بعد ایک فلمی صحافی نے لکھا تھا کہ ’’انارکلی پھر بھی پیدا ہو سکتی ہے مگر مدھوبالا پھر جنم نہیں لے گی۔‘‘
 مدھوبالا کی شخصیت کا سب سے روشن پہلوتھا اس کا کھِلا ہوا مسکراتا چہرہ، موتیوں کی وہ مسکراہٹ دیکھنے ہی سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے پرستار اسی موتیوں والی مسکراہٹ پر فدا ہوکر اس کی فلمیں بار بار دیکھنے جاتے تھے۔ ’محل‘ اور’مغل اعظم‘ کی مدھوبالا کی طرف فلم بینوں کو متوجہ کرنے میں اس کی مسکراہٹ کا بہت بڑا دخل تھا۔یوں تو مدھوبالا کے کئی کردار یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ مگر فلم ’ترانہ، سنگ دل، برسات کی رات، مسٹر اینڈ مسز ۵۵، دُلاری، نرالا، گیٹ وے آف انڈیا، راج ہٹ، ہاوڑا برج، ایک سال اورچلتی کا نام گاڑی‘ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 اگر مدھوبالا کی فلمی زندگی کی پہلی منزل ’محل‘ کی کامنی تھی تو ’مغل اعظم‘ کی انارکلی آخری منزل تھی۔ ’محل‘ اس کی فلمی زندگی کی ابتدا ہی تھی، ابھی مقبولیت اور شہرت کا وہ دور شروع ہی ہوا تھا، اور جب ’مغل اعظم‘ پردے پر پیش کی گئی تو مدھوبالا بیماری کی حالت میں بستر پر پڑی تھی۔ مگر ایسی حالت میں بھی ان دو خاص کرداروں کی وجہ سے اس نے فلم بینوں کا دل جیت رکھا تھا۔’مغل اعظم‘کی انارکلی کے روپ میں مدھوبالا جاتے جاتے اپنے قدموں کے نشان اور آہٹیں فلم بینوں  کے دلوں پر چھوڑ گئی۔

madhubala Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK