دنیا کو بچانے اور انسانی زندگی کو بہتر بنائے رکھنے کیلئے ماحولیات کے تحفظ کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں ہماری فلموں نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہے اور وقت وقت پر لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ماحولیات کے توازن کو برقرر رکھنا کتنا ضروری ہے۔
گزشتہ سال ریلیز ہوئی فلم ’ایلی فینٹ وہسپر‘ کی بین الاقوامی سطح پر بھی کافی پزیرائی ہوئی ہے۔ تصویر : آئی این این
ہندوستانی فلم انڈسٹری میں وقت کے ساتھ موضوعات کی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ۔ دیومالائی کہانیوں سے شروع ہونے والی اس فلم انڈسٹری نے ملک کی آزادی میں بھی اہم رول نبھایا، سماجی موضوعات پر فلمیں بنا کر معاشرے میں بیداری لانے کی کوشش کی اورفضائی آلودگی بڑھی تو ماحولیات کو بھی اپنی فلموں کا موضوع بنایا۔
بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں جب لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ہماری زمین کو ماحولیات کے خراب اثرات سے مختلف طرح سے خطرہ ہے تو اس موضوع کو بھی فلموں میں شامل کرنا شروع کر دیا گیا۔ دادا صاحب پھالکے کے ذریعہ پہلی کوشش ’مٹر کے بیج کا ارتقاء‘ بھی غیردانستہ طور پر ماحولیات ہی سے متعلق ایک موضوع تھا۔ درخت لگانے اور جنگلات کو کاٹے جانے کے خلاف بعد میں کئی فلموں کے ذریعہ یہی پیغام دیا گیا ہے۔
فلموں کے شروعاتی دَور ہی سے اگر ہم دیکھیں تو ۱۹۳۳ء میں بابورائو آپٹے کی فلم ’کالا پہاڑ‘ اور ۱۹۳۴ء میں جے پی واڈیا کی فلم ’کالا گلاب‘ بنائی گئیں ۔ ۱۹۳۵ء میں نتن بوس نے فلم ’دھوپ چھائوں ‘ اور ۱۹۳۶ء میں سہراب جی کیراوالا نے فلم ’زلزلہ‘ بنائی۔ ان فلموں میں کسی نہ کسی طرح ماحولیات کے بارے میں اشارے دیئے گئے ہیں ۔ اسی طرح موہن دیارام بھونانی نے ۱۹۳۸ء میں فلم ’آندھی‘ بنائی اور ۱۹۴۱ء میں نوتن، شمی کپور کو لے کر بی مترا کی ہدایت میں فلم ’بسنت‘ بنائی گئی۔ اس فلم میں اوپی نیر کی موسیقی اور قمر جلال آبادی کے لکھے نغمے تھے۔ ۱۹۴۲ء میں ایشور لال، خورشید، دکشت اور نورجہاں کو لے کر فلم ’چاندنی‘ بنائی گئی، اور اُسی سال ویریندر دیسائی نے ’بمبئی سنے ٹون‘ کیلئے فلم ’سویرا‘ بنائی جس میں شوبھنا سمرتھ اور یعقوب وغیرہ تھے۔ ۱۹۴۶ء میں ہدایتکار منی بھائی ویاس نے ممتاز شانتی، ترلوک کپور، پدما بنرجی اور وکرم کپور کو لے کر فلم ’دھرتی‘ بنائی۔ ۱۹۴۶ء میں ہی چتربھج دوشی نے مدھوبالا، موتی لال، اور خورشید کو لے کر فلم ’پھلواری‘ بنائی۔ ۱۹۴۷ء میں خورشید اور بھگوان داس کی فلم ’مٹی‘ کی نمائش ہوئی۔ ان فلموں میں بھی ماحولیات کی خرابی سے ہونے والے نقصانات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں دلیپ کمار اور کامنی کوشل کی فلم ’ندیا کے پار‘ اور ۱۹۴۹ء میں پرکاش پکچر کی فلم ’ساون بھادوں ‘ آئی جس کے ہدایتکار رویندر دوبے تھے۔ کشور ساہو، منور سلطانہ اور اوم پرکاش اس فلم کے اہم ستارے تھے۔ان میں سے بیشتر فلمیں ، جن کا ابھی تذکرہ کیا گیا ہے، کا موضوع تو سوشل ہی تھا مگر تھوڑا بہت اشارہ ماحولیات کی خرابی کی طرف بھی تھا اور اس کی وجہ سے زمین کو ہونیولے خطرات سے عوام کو آگاہ کیا گیا تھا۔ ان فلموں کا مرکزی موضوع ماحولیات نہیں تھا۔
اب ہم یہاں کچھ خاص فلموں کا ذکر کرنا چاہیں گے جو ماحولیات کی خرابی کی طرف خصوصی توجہ دلاتی ہیں ۔ جنوبی ہند کے ایک فلمساز ہدایتکار ایم ایم چنپّا دیور تھے جن کو جانوروں سے خاص دلچسپی تھی۔ اُن کا خیال تھا کہ زمین پر ماحولیات کا توازن برقرار رکھنے میں قدرتی حالات میں جانوروں کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ دیور نے ۱۹۷۱ء میں راجیش کھنہ اور تنوجہ کو لے کر ایک فلم ’ہاتھی میرے ساتھی‘ بنائی تھی جو نہایت عمدہ فلم تھی اور جانوروں کے تحفظ کا بھرپور پیغام دیتی ہے۔ یہ فلم خاص طور پر ہاتھیوں کی حفاظت پر توجہ دلاتی ہے۔ اسی طرح دیور نے ۱۹۷۲ء میں شمی کپور اور راکھی کو لے کر فلم ’جانور اور انسان‘ بنائی جو شیروں کی حفاظت کی حمایت کرتی ہے۔ ۱۹۷۹ء میں دھرمیندر، ریکھا کی فلم ’کرتویہ‘ بھی ایک خاص فلم ہے جس میں دھرمیندر نے ایک فاریسٹ آفیسر کا کردار ادا کیا ہے۔ اس فلم کے گیت کفیل آذر امروہوی نے لکھے تھے جو بے حد مقبول ہوئے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں منوج کمار اور مالا سنہا کی فلم ’ہمالیہ کی گود میں ‘ آئی تھی، جس میں منوج کمار نے ڈاکٹر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ فلم پہاڑوں کی انسانی زندگی میں ضرورت اور ان کی حفاظت کا پیغام دیتی ہے۔ اس فلم کے نغمے بھی بے حد مقبول ہوئے تھے۔ منوج کمار اور مالا سنہا کی ۱۹۶۲ء میں فلم ’ہریالی اور راستہ‘ آئی تھی۔ یہ فلم بھی انسانی زندگی، جنگل اور دیہاتی طرز زندگی کی حمایت کرتی ہے۔ ۱۹۷۱ء میں نوین نشچل، نروپا رائے، ستیہ جیت پوری وغیرہ کے ساتھ فلم ’گنگا تیرا پانی امرت‘ آئی تھی۔ اس میں انسانی زندگی میں قدرتی ندیوں کی اہمیت کی یاد دلائی گئی ہے۔ ۱۹۷۲ء میں راجندر بھاٹیہ کی فلم ’جنگل میں منگل‘ بھی ماحولیات میں جنگلات کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ کرن کمار، پران اور رینا رائے اس فلم کے اہم ستارے تھے۔
۱۹۶۹ء میں دھرمیندر، فیروز خان اور سائرہ بانو کی فلم ’آدمی اور انسان‘ آئی تھی جس میں ماحولیات کیلئے پہاڑوں کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔ اسی طرح ۱۹۶۷ء میں منوج کمار کی فلم ’اُپکار‘ حالانکہ حب الوطنی کے موضوع پر مبنی فلم تھی مگر اس میں کاشت کاری اور زمین سے متعلق انسانی زندگی کے رشتے کو بھی خوبصورتی سے دکھایا گیا تھا۔ اِسی طرح ۱۹۵۳ء میں بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ میں بلراج ساہنی اور نروپا رائے کے خاص کردار تھے۔ اس فلم میں کاشت کاری، زمین اور کسان کی زندگی کو بڑے قریب سے دکھایا گیا ہے۔
فلم ’نیا دَور‘ ۱۹۵۷ء میں بی آر چوپڑہ نے بنائی تھی۔ اس فلم میں دلیپ کمار، وجینتی مالا، جیون اور اجیت کے کردار اہم تھے۔ اس فلم میں مشینوں کے ذریعہ انسانی زندگی میں مداخلت ڈالنے اور ماحولیات کے توازن میں گڑبڑی پیدا ہونے کے اندیشے کی بات سمجھائی گئی ہے۔ بی آر چوپڑہ کی ہی ایک دوسری فلم ’ہمراز‘ میں بھی موضوع سے ہٹ کر فلم کے نغموں کے ذریعہ قدرتی مناظر کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ قدرت کے مناظر، پہاڑ، ندیاں ، پھول پودے، برف، کھیت کھلیان، باغات اور صاف ستھری ہوا کا انسانی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے اور ان سب چیزوں سے ماحولیات کا توازن برقرار رہتا ہے۔ اس فلم کے نغمے بھی بے حد مقبول ہوئے تھے۔ منوج کمار کی فلم ’شور‘ میں آبادی کے بڑھتے شور سے ماحولیات کے توازن کے بگڑنے کے خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا اور زندگی میں پانی کی اہمیت کو بھی بتایا گیا تھا۔
۱۹۹۱ء میں جگ موہن مندرا کی فلم ’وِش کنیا‘ میں سانپوں کی اہمیت اور ان کی حفاظت کا ماحولیات سے تعلق بتایا گیا تھا۔ مُن مُن سین اور کبیر بیدی فلم کے مرکزی ستارے تھے۔ ۱۹۵۷ء میں محبوب خان کی فلم ’مدر انڈیا‘ بنی تھی۔ یہ ہندوستان کی اصل دیہاتی زندگی پر مبنی سب سے بڑی اور بہترین فلم ہے۔ اس فلم کے موضوع کے پس پشت بھی ہم ماحولیات کے تحفظ کا ایک بڑا پیغام محسوس کرتے ہیں۔
۱۹۶۵ء میں دیوآنند کی فلم ’گائیڈ‘ میں کافی بڑا حصہ بنگال کے قحط سے متاثر تھا۔ زمین پانی کو ترس رہی ہے، لوگ پیاس بھوک سے مر رہے ہیں ، جانور دم توڑ رہے ہیں ، ایسے میں لوگ مذہب، عقائد اور روایتوں توڑکر پانی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اور بارش ہونے پر مل جل کر خوشیاں مناتے ہیں ۔ اسی طرح ۱۹۶۹ء میں جتیندر اور نندہ کی فلم ’دھرتی کہے پکار کے‘ میں بھی دیہاتی زندگی سے ماحولیات کے قریبی تعلق کو سمجھایا گیا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں امول پالیکر نے نانا پاٹیکر کو لے کر ایک فلم بنائی تھی ’تھوڑا سا رومانی ہو جائیں ‘۔ اس فلم میں بھی ایک شخص سوکھے کے دنوں میں بارش لانے کا خواب سب کی آنکھوں میں بسا دیتا ہے۔ ۱۹۷۸ء میں تپن سنہا نے فلم ’سفید ہاتھی‘ بنائی تھی۔ اس فلم میں انسانی زندگی میں جانوروں کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔ ۲۰۰۹ء میں مہیش بھٹ کی فلم ’تم ملے‘ بھی بمبئی میں سیلاب آنے کے موضوع پر مبنی تھی۔ فلم ’دو بوند پانی‘ خواجہ احمد عباس نے بنائی تھی۔ اس فلم میں پانی کی اہمیت اور انسانی زندگی میں اس کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، جوکہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔
اسی طرح راج کپور کی فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ اور دلیپ کمار کی فلم ’مدھومتی‘ میں بھی جنگلات اور ندیوں کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ پریم چند کی کہانیوں پر مبنی فلم ’گودان‘ اور ’ہیرا موتی‘ بھی انسانی زندگی میں جانوروں کی اہمیت کو بتاتی ہیں ۔ فلم ’من کی آنکھیں ، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، جینے کی راہ اورماں ‘ جیسی فلمیں بھی کہیں نہ کہیں ماحولیات کے تحفظ کے بارے میں اشارے دیتی ہیں ۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری دنیا کو بچائے رکھنے کیلئے اور انسانی زندگی کو بہتر بنائے رکھنے کیلئے ماحولیات کے تحفظ کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ایسے حالات میں ہماری فلموں نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہے اور وقت وقت پر لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ماحولیات کے توازن کو برقرر رکھنا آج کے دَور میں کتنا ضروری ہے۔