• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دیو آنند نے سدا بہار اداکار کے طور پر۶؍ دہائیوں تک فلم شائقین کےدلوں پر راج کیا

Updated: December 01, 2024, 1:46 PM IST | Agency | Mumbai

 ہندوستانی سنیما میں ۶؍ دہائیوں تک مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والے معروف اداکار دیو آنند کو ایک سدا بہار اداکار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

Dev Anand. Photo: INN
دیو آنند۔ تصویر : آئی این این

 ہندوستانی سنیما میں ۶؍ دہائیوں تک مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والے معروف اداکار دیو آنند کو ایک سدا بہار اداکار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اداکاری کے ساتھ ہی انہوں نے ہدایت کاری اور فلمسازی میں بھی خوب نام کمایا لیکن یہ شہرت انہیں آسانی سے نہیں ملی بلکہ اس کیلئے انہیں کافی محنت اورمشقت کرنی پڑی تھی۔ 
پنجاب کے گرداس پور میں ۲۶؍ ستمبر۱۹۲۳ء کو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے دھر دیو پشوری مل آنند عرف دیو آنند نے انگریزی ادب میں گریجویشن کی تعلیم۱۹۴۲ء میں لاہور کے مشہور گورنمنٹ کالج سے مکمل کی تھی۔ وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے والد نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ان کے پاس انہیں پڑھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں، اس کے باوجود اگر وہ آگے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے اخراجات کا انتظام وہ خود کریں۔ 
 اُس وقت دیو آنند کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر نوکری ہی کرنی ہے تو کیوں نہ فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی جائے۔ ۱۹۴۳ء میں اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے جب وہ ممبئی پہنچے تو اس وقت ان کے پاس محض۳۰؍ روپے تھے اور ممبئی میں ٹھہرنے کیلئے ان کے پاس کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ دیو آنند نے ممبئی پہنچ کر ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ایک سستے سے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ اس کمرے میں ان کے ساتھ تین دیگر افراد بھی رہتے تھے، جو دیو آنند کی طرح ہی فلم انڈسٹری میں اپنی پہچان بنانے کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ فلم انڈسٹری میں کوئی کام تو نہیں ملا لیکن کافی کوششوں کے بعد انہیں ملٹری سینسرآفس میں کلرک کی نوکری مل گئی جہاں انہیں فوجیوں کے خطوط، ان کے گھر والوں کو پڑھ کرسنانا ہوتا تھا۔ 
 ملٹری سینسر آفس میں دیو آنند کو۱۶۵؍ روپے تنخواہ ملتی تھی، جس میں سے وہ۴۵؍ روپے اپنے گھر بھیجاکرتے تھے۔ تقریباً ایک سال تک نوکری کرنے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندستانی ڈراما اسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ انہوں نے دیو آنند کو اپنے ساتھ کام کرنے کا موقع دیاجہاں انہوں نے چھوٹے موٹے کردار ادا کرنا شروع کردیئے۔ 
 ۱۹۴۵ء میں فلم ’ہم ایک ہیں ‘ سے بطور فلم اداکار دیوآنند نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا اور تین سال بعد ۱۹۴۸ء میں فلم ’ضدی‘ دیو آنند کے فلمی کریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد انہوں نے فلم ڈائریکشن کے شعبے میں قدم رکھا اور نوکیتن بینر کی بنیاد ڈالی۔ اس کے تحت ۱۹۵۰ء میں انہوں نے فلم’ افسر‘ اور ۱۹۵۱ء میں فلم ’بازی‘ بنائی۔ 
 فلم ’افسر‘ کی شوٹنگ کے دوران ہی دیو آنند کی دوستی اداکارہ ثریا سے ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک گانے کی شوٹنگ کے دوران دیو آنند اور ثریا کی کشتی پانی میں ڈوبنے لگی تھی۔ اس موقع پر دیو آنند نے ثریا کو ڈوبنے سے بچایا۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرنے لگے لیکن ثریا کی نانی کی اجازت نہ ملنے پر یہ جوڑی شادی کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکی۔ بعد ازاں ۱۹۵۴ء میں دیو آنند نے اپنے زمانے کی مشہور فلم اداکارہ کلپنا کارتک سے شادی کرلی۔ 
  دیوآنند نے ہالی ووڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ایک فلم ’گائیڈ‘ بنائی جو دیو آنند کے فلمی کریئر کی پہلی رنگین فلم تھی۔ اس فلم کیلئے دیو آنند کو ان کی عمدہ اداکاری کیلئے بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 
 بطور ہدایتکار دیو آنند نے کئی فلمیں بنائیں۔ ان میں فلم افسر اور گائیڈ کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر۴۴؍، فنٹوش، کالا پانی، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے، اور جوئیل تھیف کے نام قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۷۰ءمیں ان کی فلم ’پریم پجاری‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو باکس آفس پر جزوی کامیابی ملی۔ ایک سال بعد۱۹۷۱ء میں فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ بنائی جو کافی کامیاب رہی۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے ہیرا پنّا، دیس پردیس، لوٹ مار، سوامی دادا، سچے کا بول بالا اور اول نمبر جیسی کئی فلموں کی ہدایت کاری کی۔ 
 دیو آنند کو بہترین اداکاری کیلئے دو مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں ایک طرف جہاں دیو آنند کو پدم بھوشن سے نوازا گیا وہیں ۲۰۰۲ء میں ہندی سنیما کیلئے بہترین خدمات کے پیش نظر انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سےبھی سرفراز کیا گیا۔ اپنی فلموں سے ایک خاص پہچان بنانے والا یہ عظیم اداکار۳؍ دسمبر۲۰۱۱ء کو اس دنیاسے رخصت ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK