فلم انڈسٹری میں شاندار شراکت کیلئےحکومت ہند نے۱۹۶۹ءمیں جب دادا صاحب پھالکے ایوارڈ شروع کیا تو اس کی پہلی فاتح دیویکا رانی تھیں، اس کے علاوہ دیویکا رانی فلم انڈسٹری کی پہلی خاتون بھی تھیں جنہیں پدم شری سے نوازا گیا۔
EPAPER
Updated: March 10, 2025, 12:29 PM IST | Agency | Mumbai
فلم انڈسٹری میں شاندار شراکت کیلئےحکومت ہند نے۱۹۶۹ءمیں جب دادا صاحب پھالکے ایوارڈ شروع کیا تو اس کی پہلی فاتح دیویکا رانی تھیں، اس کے علاوہ دیویکا رانی فلم انڈسٹری کی پہلی خاتون بھی تھیں جنہیں پدم شری سے نوازا گیا۔
فلم انڈسٹری میں شاندار شراکت کیلئےحکومت ہند نے۱۹۶۹ءمیں جب دادا صاحب پھالکے ایوارڈ شروع کیا تو اس کی پہلی فاتح دیویکا رانی تھیں، اس کے علاوہ دیویکا رانی فلم انڈسٹری کی پہلی خاتون بھی تھیں جنہیں پدم شری سے نوازا گیا۔دیویکارانی۳۰؍مارچ ۱۹۰۸ء کو آندھراپردیش کے شہر والٹیر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد، کرنل ایم این چودھری، ایک خوشحال بنگالی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہیں بعد میں ہندوستان کا پہلا سرجن جنرل بننےکا اعزاز حاصل ہوا۔ ۹؍سال کی عمر میں دیویکارانی حصول تعلیم کے لیے انگلینڈ چلی گئیں۔ دیویکارانی نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ فلموں میں کام کریں گی لیکن ان کے گھر والے اس بات کے سخت خلاف تھے کیونکہ ان دنوں اعلیٰ خاندانوں کی لڑکیوں کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
کچھ سال انگلینڈ میں رہنے کے بعد دیویکا رانی نےرائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں اداکاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے آرکیٹیکچر میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ اسی دوران ان کی ملاقات بسرا بلف نامی فلم پروڈیوسر سے ہوئی جو ان کی تعمیراتی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے دیویکا رانی کو اپنی کمپنی میں بطور ڈیزائنر مقرر کرلیا۔ اسی دوران ان کی ملاقات مشہور پروڈیوسر ہمانشو رائے سے ہوئی۔ ہمانشو میتھیو آرنلڈ کی نظم لائٹ آف ایشیا پر مبنی اسی نام سے فلم بنا کر اپنی پہچان بناچکے تھے۔ ہمانشو رائے دیویکا رانی کی خوبصورتی سے متاثرہوئے اورانہوں نے دیویکا رانی کواپنی فلم ’کرم‘ میں کام کرنے کی پیشکش کی جسے دیویکا نے بخوشی قبول کر لیا۔
یہ وہ وقت تھا جب خاموش فلمیں بنانے کا دور ختم ہورہاتھا اور اداکار سلور اسکرین پر بولتےنظر آرہے تھے۔ جب ہمانشو رائے نے ۱۹۳۳ءمیں فلم ’کرم‘ پروڈیوس کی تو انہوں نے ہیرو کا کردار خوداداکیا اوردیویکا رانی کو اداکارہ کے طور پر منتخب کیا۔ اس فلم میں دیویکارانی کی روانی سے انگریزی ڈائیلاگ ڈیلیوری دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے اور ناظرین ان کی شخصیت سے اس قدر مسحور ہوئے کہ ان کا شمار بولتی فلموں کی بہترین ہیروئنوں میں ہونے لگا۔
اس کے بعد ہمانشو نے دیویکا سے شادی کرلی اور ممبئی آگئے۔ ممبئی آنےکے بعد ہمانشو رائے اور دیویکا رانی نےمل کر بامبے ٹاکیز قائم کی اور فلم ’جوانی کی ہوا‘بنائی۔ ۱۹۳۵ءمیں ریلیز ہونے والی دیویکا رانی کی یہ فلم کامیاب رہی۔ بعد میں دیویکا رانی نے بامبے ٹاکیز کے بینر تلے بنی کئی فلموں میں اداکاری کی۔ ان میں سے ایک فلم’اچھوت کنیا‘ تھی۔ ۱۹۳۶ءمیں ریلیز ہونےوالی فلم ’اچھوت کنیا‘میں اپنی اداکاری سےناظرین کو اپنا دیوانہ بنادیا۔ فلم میں اشوک کمار نے ایک برہمن نوجوان کاکردار ادا کیا تھا جو ایک اچھوت لڑکی سے محبت کرتا ہے۔ ’اچھوت کنیا‘کی ریلیزکے بعد دیویکا رانی کو فرسٹ لیڈی آف انڈین اسکرین کے خطاب سے نوازا گیا۔
۱۹۴۴ءمیں دیویکا رانی نے فلم ’جوار بھاٹا‘ پروڈیوس کی۔ اگرچہ یہ فلم ناکام ثابت ہوئی لیکن آج بھی اسے ایک انمول ورثے کے طور پر یادکیا جاتا ہے کیونکہ اداکاری کے شہنشاہ دلیپ کمار نے اسی فلم سے اپنے سنیماکرئیرکا آغاز کیا تھا اور دلیپ کمار کو فلم انڈسٹری میں لانے کا کریڈٹ دیویکا رانی کو دیاگیا۔ ۱۹۴۵ءمیں دیویکا رانی بامبے ٹاکیز سے الگ ہوگئیں۔ اپنی دلکش اداکاری سے شائقین کے دلوں پر راج کرنے والی دیویکا رانی۹؍مارچ۱۹۹۴ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔