انہوں نے انگریزی فلموں میں بھی کام کیا تھا، ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کیلئے نشر کئے جانے والے بی بی سی ریڈیو پروگرام کا افتتاح بھی انہی سے کرایا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 11:00 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
انہوں نے انگریزی فلموں میں بھی کام کیا تھا، ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کیلئے نشر کئے جانے والے بی بی سی ریڈیو پروگرام کا افتتاح بھی انہی سے کرایا گیا تھا۔
دیویکا رانی کا جنم فلمی دُنیا سے بالکل الگ بنگال کے ایک مہذب خاندان میں ۳۰؍مارچ ۱۹۰۸ء کو ہوا تھا۔ وہ رابندر ناتھ ٹیگور کی بہن سوکماری دیوی کی نواسی تھیں۔ اُن کے والد کرنل ایم این چودھری مدراس میں ہندوستان کے پہلے سرجن جنرل تھے اور اُن کی والدہ کا نام لیلا چودھری تھا۔ اُن کی ابتدائی تعلیم انگلینڈ کے ایک پرائیویٹ اسکول میں ہوئی تھی۔ اُنہی دنوں دیویکارانی کو ’رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ‘ کی طرف سے ایک انعام ملا تھا۔ اپنی آئندہ کی زندگی کے بارے میں انہوں نے اپنے والد سے مشورہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ عورت کو ہروہ کام کرنا چاہئے جس سے اس میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو سکے۔ دیویکا نے والد کی یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لی اور پھر فیشن ڈیزائننگ کا کورس کرکے ۱۸؍ برس کی عمر میں لندن ہی کے ایک مشہور آرٹ اسٹوڈیو میں بطور فیشن ڈیزائنر اپنے کریئر کا آغاز کیا۔
۱۹۲۸ء میں لندن میں ہی دیویکارانی کی پہلی ملاقات ہمانشو رائے سے ہوئی، جو اُس وقت جانے مانے ہندوستانی فلمساز تھے۔ وہ اپنے ہم عصر فلمسازوں سے کئی قدم آگے تھے اور عالمی فلمی مارکیٹ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ان دنوں وہ وہاں اپنی فلموں ’دی لائٹ آف ایشیا، شیراز‘ اور’اے تھرو آف ڈائس‘ کیلئے ہندوستان اور بین الاقوامی فلم مارکیٹ تلاش کر رہے تھے۔ دیویکارانی نے اُن کے پروڈکشن کے شعبے میں کام کرنے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور اُن کی فلم ’اے تھرو آف دی ڈائس‘ کی تکمیل کے سلسلے میں ہندوستان آگئیں۔ ہمانشو رائے یہ فلم انگلینڈ، جرمنی اورکئی مغربی ممالک کیلئے بنا رہے تھے۔ ۱۹۲۹ء میں ہمانشو رائے اور دیویکارانی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
اُن دِنوں ہمانشو رائےجرمنی کی مشہور فلم کمپنی یوایف اے کے فلمسازوں میں سے ایک تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دیویکارانی ایسی ٹریننگ حاصل کریں جو آگے چل کر فن کے میدان میں ان کیلئے معاون ثابت ہو، لہٰذا اُن کی خواہش کے مطابق دیویکارانی ٹریننگ حاصل کرنے جرمنی گئیں۔ وہاں کی ٹریننگ غیرمعمولی قسم کی تھی۔ اتنی سی جانکاری حاصل کر لینا ہی کافی نہیں تھا کہ سیٹ کیسے بنایا جاتا ہے۔ فلم کے اسکرپٹ کے مطابق متعلقہ ملک کے ساز وسامان، طور طریقے، رسم ورواج اور معمولات سے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنے کیلئے اُن کو یونیورسٹیز میں جاکر تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔ وہاں پرانہوں نے دو سال کی ٹریننگ لی۔
ٹریننگ کے بعد دیویکارانی کو’ ٹونٹینتھ سنچری فاکس‘کی طرف سے ایک فلم میں کام کرنے کیلئے مدعو کیا گیا جس کی شوٹنگ بالی شہر میں ہونے والی تھی۔ دوسرا آفر فلم ’سپیرے کی بیٹی‘ میں ایک کردار ادا کرنے کیلئے جرمنی کے ایک اسٹوڈیو کی طرف سے تھا لیکن ہمانشو رائے کا کہنا تھا کہ ’’ہم اِن لوگوں سے کچھ سیکھیں، یہ تو اچھی بات ہے مگر اس کا فائدہ ہمیں اپنے ہی ملک کو پہنچانا چاہئے۔‘‘۱۹۳۲ء میں ہمانشو رائے اور دیویکا رانی انگلستان سے واپس ہندوستان آئے تو انہوں نے اپنی ہندی فلم ’کرم‘ بنانے کا اعلان کیا اور مرکزی کرداروں کیلئے خود کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کی ہدایت جے ایل فیرہنٹ نے دی تھی جس میں ایک انگریزی نغمہ بھی شامل تھا۔ اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ لندن میں ہوئی تھی۔ ۱۹۳۵ء میں جب یہ فلم’کرم‘ ریلیز ہوئی تو دیویکا کے ہیجان انگیز مناظر نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس فلم سے دیویکاکی شہرت سرحدوں کو پار کرتے ہوئے انگلستان تک جا پہنچی۔ فلم ’کرم‘ ہندوستان کی پہلی متکلم فلم تھی جو انگریزی اور ہندوستانی، دونوں زبانوں میں بنی تھی اور انگریزی میں بنی پہلی فلم تھی جو انگلستان میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے پریمئر کا افتتاح لارڈ اِروِن نے کیا تھا اور انگلینڈ کے اعلیٰ افسران کے علاوہ وہاں کے بڑے بڑے فنکار بھی موجود تھے۔ ’کرم‘ کا استقبال مغربی ممالک میں بڑے زور شور کے ساتھ کیا گیا اور اس سے بھی زوردار انداز میں دیویکارانی کا استقبال ہوا۔ ان کا بے پناہ حسن، فنی صلاحیتیں اور میٹھی آواز کے ساتھ بہترین انگریزی تلفظ۔ لندن کےٹائمز، مارننگ پوسٹ، آبزرور، دی لیڈی، برمنگھم پوسٹ اورلیڈی ڈسپیچ وغیرہ کئی مقبول ترین رسائل نے اس فلم پر تبصرے شائع کئے شائستہ اور میٹھے الفاظ میں تعریف کی۔ اس فلم میں دیویکا کے ساتھ ہمانشو رائے بھی تھے۔
اس سے قبل ہی دیویکارانی کو اعزاز حاصل کرنے کے دو اور مواقع ملے۔ اوّل تو بی بی سی لندن کے بلاوے پرانہوں نے اس کے ذریعہ پیش کئے جانے والے پہلے ٹیلی ویژن پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کو پورے ملک میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا۔ دوم یہ کہ بی بی سی کی طرف سے ہندوستان کیلئے نشر کئے جانے والے ریڈیو پروگرام کا افتتاح بھی انہی سے کرایا گیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک نظم پڑھ کر سنائی تھی۔
۱۹۳۴ء میں ہمانشو رائے نے بمبئی کے ملاڈ علاقے میں ’بمبئی ٹاکیز‘ کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ہی ٹریننگ سینٹر قائم کرنے کا بھی پروگرام بناکر افتتاح کر ڈالا۔ اُن کا مقصد تھا فلمی کاروبار کو بھی دوسرے کاروبار کی سطح پر پہنچا دینا۔ ہمانشو رائے نے اداکاری کے فن کی ٹریننگ کیلئے بھی اُنہی دِنوں سوچ لیا تھا۔ ہر سال وہاں تین سو طلبہ کا انتخاب کرکے ٹرینڈ کیا جاتا تھا۔ کچھ طلبہ کے نام ہی سے ان کے ٹریننگ سینٹر کے معیار کا اندازہ ہو جائے گا۔ امیہ چکرورتی، ایس مکھرجی، اشوک کمار، کمال امروہوی، دیوان شرر، کشور ساہو، این سی سین گپتا، آر ڈی ماتھر، گیان مکھرجی، لیلا چٹنس، مدھوبالا، ڈیوڈ، دلیپ کمار، خواجہ احمد عباس اور محمود وغیرہ اُن کے ٹریننگ سینٹر کے ہی تربیت یافتہ تھے۔ بمبئی ٹاکیز اپنی نوعیت کی سب سے پہلی فلمی پبلک لمیٹڈ کمپنی تھی۔
بمبئی ٹاکیز نے فلمسازی کے میدان میں نئے نئے تجربے کئے۔ اس کی مقبول ترین ہیروئن دیویکارانی میں فلم بینوں کو روایت سے ہٹ کر بالکل نئے انداز کی جھلک ملی اور اس طرح ہندوستانی فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں کی شہرت ملک سے باہر بھی پہنچنے لگی۔ بمبئی ٹاکیز کے ذریعہ پیش کی جانے والی ’جوانی کی ہوا، جیون نیّا، اچھوت کنیا، ساوتری، جیون پربھات، درگا، وچن اورعزت‘ جیسی فلموں کا ذکر کئے بغیر فلموں کی تاریخ ادھوری ہی رہ جائے گی۔
بمبئی ٹاکیز کی فلم ’جوانی کی ہوا‘ کی تکمیل کے دوران ہی اداکار نجم الحسن اور دیویکارانی ایک دوسرے کے قریب آئے اور فلم کی تکمیل کے فوراً بعد ہی یہ دونوں کلکتہ کیلئے فرار ہو گئے۔ وہاں ان دونوں کا ارادہ شادی کرکے وہاں کی مشہور فلم کمپنی رنجیت اسٹوڈیو جوائن کرنے کا تھا مگر عین وقت پر ہمانشو رائے اپنے ساتھ ایس مکھرجی کو کلکتہ لے گئے اور کسی طرح سمجھا بجھاکر دیویکا کو بمبئی ٹاکیز واپس لے آئے مگر نجم الحسن کو انہوں نے بمبئی ٹاکیز سے ہمیشہ کیلئے الگ کر دیا۔
فلم ’اچھوت کنیا‘ ابھی زیرتکمیل ہی تھی، لہٰذا ہمانشو رائے نے نجم الحسن کو ’اچھوت کنیا‘ سے بھی علاحدہ کر دیا اور اپنی لیباریٹری میں ایس مکھرجی کے معاون انہیں کے سالے اشوک کمار گانگولی کو فلم کا ہیرو بنا دیا، جو دیکھنے میں خوبصورت اور ایک شرمیلے سے نوجوان تھے۔ فلم’اچھوت کنیا‘ صرف دس دن میں ہی بن کر تیار ہو گئی تھی جو بعد میں ہندوستانی فلم انڈسٹری کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوئی۔ ’اچھوت کنیا‘ کے بعد دیویکا رانی اور اشوک کمار کی جوڑی فلمی دُنیا کی پہلی مقبول ترین جوڑی ثابت ہوئی اور ان دونوں نے آئندہ مزید ۸؍ فلموں، ’جنم بھومی، جیون نیّا، عزت، پریم کہانی، ساوتری، نرملا، وچن اورانجان‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔ اشوک کمار اور دیویکا رانی خود ہی اپنی فلموں میں گانے بھی گاتے تھے۔ فلم ’اچھوت کنیا‘ بمبئی ٹاکیز کی پہلی سلور جبلی فلم تھی اور اس کو سروجنی نائیڈو کی سفارش پر ایک خصوصی شو کا اہتمام کرکے پنڈت جواہر لال نہرو کو دکھایا گیا تھا۔ بعد میں پنڈت نہرو نے ایک خط لکھ کر دیویکا رانی کو اس فلم میں بہترین اداکاری کیلئے مبارکباد پیش کی تھی۔
یوں تو درگابائی گوکھلے نے پہلی بار ہندوستانی اسکرین پر خاموش فلم ’بھسماسُر موہنی‘ میں نسوانی کردار ادا کیا تھا اور اس کے بعد ۱۹۳۳ء میں ریلیز ہندوستان کی پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ میں زبیدہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا مگر دیویکا رانی کو ’فرسٹ لیڈی آف انڈین اسکرین‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۹۴۰ء میں ہمانشو رائے کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد دیویکا رانی نے صرف دو فلموں میں کام کیا۔ ۱۹۴۳ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہماری بات‘ دیویکارانی کی آخری فلم تھی۔ جیراج اس فلم کے ہیرو تھے اور ثریا اور راج کپور نے بھی اس فلم میں کام کیا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد بمبئی ٹاکیز کا سارا بوجھ دیویکارانی کے کاندھوں پر آگیا۔ اس ذمہ داری کو انہوں نے بخوبی نبھایا۔
۱۹۴۲ء میں بمبئی ٹاکیز کی فلم ’بسنت‘ میں ایک چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر دیویکا رانی نے ہی مدھوبالا کا انتخاب کیا تھا جن کا اُس وقت نام بے بی ممتاز تھا۔ اسی طرح ۱۹۴۴ء میں فلم ’جوار بھاٹا‘ کیلئے پہلی بار دلیپ کمار کا انتخاب بھی دیویکا رانی ہی نے کیا تھا۔ ۱۹۴۳ء میں بمبئی ٹاکیز کی فلم’قسمت‘ نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ ملک کی پہلی سُپر ہٹ فلم بن گئی تھی جو کلکتہ کے راکسی تھیٹر میں لگاتار تین سال سے زیادہ چلی تھی۔ اس فلم کے ہیرو اشوک کمار اور ہیروئن ممتاز شانتی تھیں۔ انہی کی قیادت میں بمبئی ٹاکیز نے کمال امروہی کی ہدایت میں ملک کی پہلی سسپنس فلم’محل‘ بنائی، جس میں اشوک کمار نے ہیرو کاکردار ادا کیا تھا اور مدھوبالا اپنی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اسی فلم سے اسٹار اداکارہ بن گئی تھیں۔
کچھ عرصے بعددیویکارانی نے مشہور روسی آرٹسٹ سویتو سلاؤ رورخ سے شادی کر لی اور بنگلور میں آباد ہوگئیں۔ ۱۹۵۸ء میں انہیں ’پدم شری، ۱۹۷۰ء سب سے پہلا ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ اور ۱۹۸۹ء میں ’سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ ان کے دوسرے شوہر کا ۳۰؍جنوری ۱۹۹۳ء کو انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد وہ بالکل اکیلی رہ گئیں اور ان کی جائیداد پر تنازع بھی شروع ہو گیا۔ بہت ساری بیماریوں میں گھری دیویکا رانی کا ۹؍مارچ ۱۹۹۴ء کو ۸۷؍برس کی عمر میں بنگلور میں انتقال ہو گیا۔